Friday, February 21, 2025
 

عام آدمی کے حالات زندگی

 



مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر حکومت پاکستان کی جاری کارکردگی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہتر معاشی پالیسیوں کے تسلسل سے عام آدمی کے حالات بہتر ہوئے ہیں۔ حکومت نے مشکل حالات، سیاسی انتشار اور ان گنت رکاوٹوں کے باوجود ملک کی ڈیفالٹ پرکھڑی معیشت کو ایک سال میں ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا ہے۔ ملک میں مہنگائی کی شرح میں سنگل ڈیجٹ تک کمی آنے سے مہنگائی ساڑھے 6 سال کی کم ترین سطح پر آنے سے خور و نوش کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلندیوں تک پہنچی، شرح سود اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی آئی اور حکومت نے بی آئی ایس پی مستحقین کے لیے مالی امداد میں اضافہ کیا جس کے بعد 2025 سے ہر سہ ماہی 13500 روپے ادا کیے جائیں گے۔ اس پروگرام کی رجسٹریشن کا دائرہ کار بڑھا کر بے نظیر انکم رپورٹ پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد نوے لاکھ ہو جائے گی۔ جس دن حکومتی کارکردگی رپورٹ جاری ہوئی، اسی روز تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ چین نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا رکھا ہے اور اس سال غیر ملکی قرضوں کی ضروریات 22 ارب ڈالر سے بڑھ کر ساڑھے 23 ارب ڈالر ہوگئی ہیں جو پاکستان کو اس سال میں رول اوورکرانا پڑیں گے۔ اس تجزیے سے تو پتا چلتا ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے میں حکومت سے بڑا کردار چین کا ہے اور دعوے حکومت کر رہی ہے۔ حکومت کی کارکردگی رپورٹ میں بے روزگاری کا کوئی ذکر نہیں مگر حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹریشن بڑھانے کا کہا ہے جس سے اس پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد نوے لاکھ کردیے جانے کو حکومت کی کارکردگی بتایا گیا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی بڑھنے سے بی آئی ایس پی کے مستحقین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور حکومت کو ان کی امداد بڑھانا پڑی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئی ہے، اگر واقعی ایسا ہوا ہوتا تو حکومت کو بی آئی ایس پی مستحقین کی تعداد اور ان کی سہ ماہی مالی امداد نہ بڑھانا پڑتی۔ بی آئی ایس پی کے مستحقین کو تین ماہ بعد صرف ایک ہزار روپے امداد زائد ملے گی مگر ان ضرورت مندوں اور ملک کے عام افراد جن میں کروڑوں غریب شامل ہیں ان سے زیادہ حکومت کو ججز اور ارکان اسمبلی کی فکر زیادہ ہے۔ وہ ججز جو ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ لے رہے تھے ان کی تنخواہیں بڑھائی گئی ہیں اور اکثر پارلیمنٹ سے غیر حاضر رہنے اور سپریم کہلانے والی پارلیمنٹ کے ارکان جو کروڑوں روپے خرچ کرکے ایک سال پہلے منتخب ہوگئے تھے اور عام آدمی سے بھی زیادہ’’ غریب‘‘ ہیں کہ جن کی ماہانہ تنخواہوں میں ججز سے زیادہ یعنی تین لاکھ روپے سے زائد اضافہ کیا ہے جن کی پی ڈی ایم حکومت میں کارکردگی یہ تھی کہ انھوں نے عدلیہ کے فیصلے کے مطابق پنجاب اسمبلی کے الیکشن نہیں ہونے دیے تھے۔ ملک بھر میں ڈھائی سال قبل قائم ہونے والی پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی، نگرانوں کی چھ ماہ کی اور مسلم لیگ (ن) کی ایک سال قبل قائم ہونے والی موجودہ حکومتوں میں ملک میں غربت و بے روزگاری بے حد بڑھی ہے جس سے عام آدمی کو حکومت بہتر قرار دے رہی ہے ان کی حقیقی زندگی میں بہتری حکمرانوں کو کہاں سے نظر آگئی ہے؟ ملک میں سنگل ڈیجٹ مہنگائی میں کمی شاید حکومت کے نزدیک سبزیوں کے نرخوں میں کمی آنے سے نظر آئی ہے کیونکہ سیزن اور پیداوار زیادہ ہونے کی وجہ سے پنجاب کی منڈیوں میں گوبھی پانچ روپے کلو بھی خریدنے کے لیے آڑھتی تیار نہیں تھے جس پر مایوس کاشت کاروں نے اتنے کم نرخوں پر گوبھی فروخت کرنے کی بجائے مفت بانٹنا گوارا کرکے بھاری مالی نقصان اٹھا لیا اور سیزن کی وجہ سے آلو، ٹماٹر، پیاز، مٹر و دیگر بعض سبزیوں کی قیمتیں کم ہوئی ہیں جب کہ چینی جو ایک سو تیس روپے کلو تھی وہ ڈیڑھ سو روپے ہوگئی ہے۔ چینی باہر بھیجنے کی حکومت نے اجازت منافع خوروں کو شاید اس لیے دی تھی کہ وہ چینی مہنگی کر سکیں۔ رمضان المبارک میں چینی کا استعمال بڑھتا ہے جس کے بعد توقع ہے چینی مزید مہنگی یا نایاب ہوگی کیونکہ ناجائز منافع خوروں نے رمضان میں زیادہ فروخت ہونے والی اشیا ذخیرہ کرنے اور اپنے گودام بھرنے شروع کر دیے ہیں جس کی نشان دہی پاکستان بزنس کونسل نے کردی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان اشیا کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ابھی شروع کی جائے اور اشیائے خوردنی کے سرکاری نرخ مقرر ہی نہ کیے جائیں بلکہ ان پر عمل بھی کرایا جائے۔ حکومتی دعویداروں کے عام آدمی کے حالات بہتر ہونے کے دعوؤں کے برعکس حالت یہ ہے کہ کراچی اور لاہور کے متوسط طبقے کے علاقوں کی بڑی مساجد کے باہر دست سوال دراز کرنے والوں میں خواتین، بزرگ، درمیانی عمر والے اور نوجوان بھی ڈاکٹروں کی دوائیوں کی پرچیاں، اسکولوں کے فیس کارڈ، بجلی و گیس کے بھاری بل ہاتھوں میں لیے کھڑے نظر آتے ہیں۔ خواتین اور دیگر افراد کے ساتھ ان کے بچے، پردہ دار خواتین ہی نہیں بلکہ ان کی کم سن بیٹیاں بھی مدد کے لیے بڑی تعداد میں کھڑے نظر آتے ہیں جن میں اکثر کی آواز بھی شرم و مجبوری کے باعث نہیں نکلتی جب کہ پیشہ ور بھکاریوں کی تعداد الگ ہے۔ پیشہ ور بھکاری اپنے حلیے سے ہی پہچان لیے جاتے ہیں اور صاف، پرانے و بوسیدہ کپڑوں میں امداد، راشن، دوائیوں کے لیے مدد مانگنے والے وہ عام افراد ہوتے ہیں جن کی زندگی میں بہتری لانے کے دعوے کرتی حکومت نہیں تھک رہی ۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل