Sunday, February 23, 2025
 

تعلیمی انحطاط

 



وطن عزیز پاکستان میں طویل عرصے سے چلی آرہی تعلیمی انحطاط پذیری کا آج تک کوئی مستقل حل نہ نکل سکا، جس کے لیے ہر دور میں مخلص اساتذہ نے انجمنیں بنا کر کچھ نہ کچھ کوششیں تو ضرور کیں جن کو مکمل طور پر کامیابی نہ ہوسکی لیکن جزوی طور پر وہ ضرور کامیاب ہوئے جس کی اہم ترین وجہ تعلیم کی نجکاری ہے۔ جب کہ کسی بھی مہذب معاشرے میں ’ تعلیم‘ ہمیشہ سے ریاستی ذمے داری کے زمرے میں آتی ہے نہ کہ ان مقدس اداروں کو نجی تحویل میں دے کر اپنی قومی و اخلاقی ذمے داری سے روگردانی کرنے کے لیے نت نئے حربے تراشے جائیں، کیونکہ تعلیمی اداروں کو منافع خوری کے تصور کے تحت چلانا ایک وحشیانہ تصور ہے، بالخصوص ایک اسلامی ریاست میں یہ اپنے اجتماعی فریضے سے غفلت برتنا تصور کیا جائے گا۔ جس کے حاصلات میں سب سے بڑا نقصان غریب ’ مڈل‘ کلاس طبقے کو ہی ہوتا چلا آ رہا ہے اور جس نے اساتذہ کو بھی مختلف اندیشوں میں مبتلا کر رکھا ہے جس کے چلتے وہ اپنے فرائض کو بجا طور ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ غریب مڈل کلاس خاندانوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ان اداروں کی بڑی بڑی اوہ معاف کیجیے موٹی موٹی فیسوں کی ادائیگی ہے اور پھر کیمرج اولیولز کے خمار میں مبتلا بیشتر تعلیم گاہوں کا نیا چونچلا کہ بچوں کی کلاس رومز میں اے سی کی سہولت پہنچانا بنا والدین سے مشورہ کیے جس کے زیر اثر فیسوں کی بڑھوتی کی اطلاعات سے والدین کو اس جدت کی آگاہی نصیب ہوتی ہے۔  دو رنگی نظام تعلیم کا فروغ جب کہ ہمارے اکابرین نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی ’’اردو‘‘ کو قومی زبان بنا کر اس کی قدر و منزلت طے کردی تھی مگر افسوس صد افسوس آج بھی اردو زبان کو اس کا جائز حق نہ مل سکا اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی بناء پر عالمی سطح پر نمایاں ملکوں میں وطن عزیز کو اس کا وہ مقام نہ مل سکا جس کا وہ حقدار تھا۔ چونکہ جو قومیں اپنے اقدار اپنی روایتوں کی پاسداری نہیں کرتیں انھیں دوسروں سے بھی وہ عزت نہیں ملتی جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔ ان اونچی دکان پھیکے پکوان کی مثال اداروں کے دماغ آسمانوں پر ہوتے ہیں کہ ہم تو بچوں کو آکسفورڈ کی کتابیں پڑھاتے ہیں، بچے کو سمجھ آئے یا نہ آئے پر وہ آکسفورڈ کے معیار کی تعلیم پا رہا ہے۔ بس یہ خوش فہمی خاطر جمع رکھے اور یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر وطن عزیز کے وہ تمام ذہین بچے جن کے والدین کے مالی حالات ان خرچوں کی ادائیگی کی استطاعت نہیں رکھتے وہ ان اعلیٰ ارفع اداروں میں داخلے سے محروم رہتے ہیں۔ سرمایہ دار وسیٹھ طبقے کے تحت چلنے والے اداروں میں اساتذہ کے لیے ملازمتوں کا تحفظ نہ ہونا مالیاتی معاملات شفاف نہ ہونا اور تو اور سرکاری اداروں کی حالت زار کا نوحہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، جس کے زیر اثر اساتذہ کیسے یکسوئی کے ساتھ اپنی ذمے داریوں کو ادا کرسکتے ہیں؟ اور تو اور آئی ایم ایف ورلڈبینک کا نام لے کر ان کے وظیفوں پر ہی شب خون مارنے کے لیے نئی نئی سیاسی چالیں چلی جاتیں ہیں۔ نت نئے حربے نکالے جاتے ہیں جب کہ ان مالیاتی اداروں کے اپنے ملک میں تعلیم کی اور اس کے دینے والوں کی کتنی قدر و منزلت ہے یہ بات کسی سے چھپی نہیں اور ان کی ترقی کا راز بھی اسی میں پنہاں ہے تو پھر وہ کیوں کر اس شعبے اور اس میں کام کرنے والوں پر ایسی پابندیاں لگائیں گے، کیوں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو ان اشرافیہ کی شاہ خرچیاں کہ ہر سال ان کی تنخواہوں، مراعات میں اضافہ نئے ماڈل کی گاڑی خانساماں چاہے اس کی ضرورت ہو نہ ہو اور ڈھیر ساری دیگر نوازشات کے لیے ہونیوالے اخراجات انھیں نظر نہیں آتے کہ ان کی بھی کٹوتی کی جائے صرف قوم کے لاچار مظلوم مڈل کلاس عوام جن کی اکثریت معماران وطن میں سے ہیں، ہی نظر آتے ہیں کہ ان پر ٹیکس پر ٹیکس لگائے جاؤ۔ نجی دوروں پر یہ حکمران اشرافیہ جائیں تو ایک شاندار وفد ان کے ہمراہ جس میں ان کے گھر والے، عزیز رشتے دار اور دیگر ہوتے ہیں، جس کی بناء پر یہ ہر سال ملک اور اس کی غریب عوام جن کا کوئی پرسان حال نہیں ان کو گروی رکھ کر قرضے لیتے ہیں۔ بلاشبہ جہالت کسی بھی قوم کی تباہی میں قرار واقعی کردار ادا کرتی ہے،جس کے نتیجے میں دیگر تمام ابتری کے علاوہ صحت اور تعلیم سے متعلق شعبے جس سے کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی کا اندازہ لگایا جاتا ہے انتہائی زوال پذیری کا شکار ہیں کیونکہ وطن عزیز میں سب سے زیادہ نظر انداز کیے جانے والے شعبے بھی یہی ہیں، چہ جائے کہ ان کے کرتا دھرتا اپنی غلطی مانیں، وہ بس ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں اپنی تمام تر توانائیاں استعمال کر رہے ہیں۔  اگر یہی محنت وہ ان شعبوں کے لیے کریں تو طلباء، اساتذہ اور غریب عوام میں مایوسی ذہنی تناؤ جیسے مہلک جذبات فروغ نہیں پائیں گے جس کے زیر اثر وطن عزیز انتشاری اور بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے جس کی حالیہ مثال انٹر (سال اول) کے نتائج ہیں، جس نے طلبا میں اتنی مایوسی پیدا کی کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ہم پر تعلیم کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں۔ یہ ایک قومی المیے کی نشاندہی ہے کہ ہمارا مستقبل اب اس قدر اندھیروں کی طرف رواں دواں ہے کہ امید کی کوئی کرن اس سے دکھائی نہیں پڑرہی اور دکھائی بھی کیسے دے گی، کیونکہ ہمارے وطن کے کرتا دھرتاؤں نے اس سے اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے صرف و صرف اپنی ہوس کی خاطر۔ روشنیوں کا شہر ’’کراچی‘‘جو قیام پاکستان سے ہی ایک علمی شہر کی حیثیت سے جانا اور مانا جاتا تھا، جو پاکستان کا دارالحکومت بھی تھا (جس سے سیاست کر کے یہ طرہ امتیاز چھینا گیا) وہ آج دیگر شہروں اور اضلاع کی نسبت جیسا دکھایا جارہا ہے، شب خون مار کر کہ یہ جہالت کے اندھیروں کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ یہ ٹولہ جو ہمارے ہی ووٹوں سے برسراقتدار آتا ہے یہ ہمارے ہی اثاثوں کو بنا رائے شماری کے گروی رکھ دیتا ہے، فروخت کردیتا ہے اور وہ قابض جس طرح چاہے وطن عزیز کے قوانین کو اپنی سہولت کے لیے بدل دیتا ہے ان سے کوئی جواب داری نہیں جس کے براہ راست نتائج ملکی معیشت کی ابتری کی صورت میں نہیں آئیں گے تو کیا ترقی و خوشحالی کی صورت میں آئیں گے جس کا ادراک ان کو نہیں ہوسکتا، چونکہ ان کی تعلیمی قابلیت مغربی اداروں کی تو ضرور ہے لیکن ان کے گریڈز ان کی تعلیمی بصیرت کی بھرپور غمازی کرتے ہیں جو دولت کے بل پر حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ پڑوسی ملک کے حوالے سے ہم جذبات تو بھرپور رکھتے ہیں لیکن کیا ہم ان کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونیوالی ترقی یا تعلیمی میدان میں ہونیوالی کامیابیوں کا احاطہ کرتے ہیں کہ وہ محرکات کیا ہیں جو ان کی ترقی کا باعث ہیں۔ دیگر تمام محرکات میں ایک محرک حکمران کا کردار ہے جس میں دو خاصیتوں کا ہونا لازم ہے ایک ایماندار اور دوسرا عوام کے ساتھ مخلص ہونا جن کے بغیر ملک میں ترقی اور خوشحالی نہیں آسکتی۔ ان کے پی ایچ ڈیز کی تعداد اور عوام الناس کے لیے دی گئی سہولیات کو ستائش نہ سہی کم از کم اس کا تجزیہ کر کے ہمارے حکمران اپنے عوام کی مشکلات کا کوئی تو حل نکالیں تاکہ انھیں کچھ تو ریلیف مل سکے، ان کی تعلیمی پسماندگی دور ہوسکے اور ان کے مردہ جسموں میں کچھ تو جان آسکے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل