Sunday, February 23, 2025
 

اردو کا قصور بتلاؤ

 



قطع کیجیے نہ تعلق ہم سے کچھ نہیں ہے، تو عداوت ہی سہی  مرزا غالب نے یقیناً یہ شعر کسی دوسرے پیرائے میں کہا ہوگا مگر زمانہ حال کے تناظر میں اس شعر کو پڑھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہماری سلیقے کی چاشنی میں ڈوبی اُردو زبان ہم سے عرض بجا لا رہی ہے۔ میری اپنے قارئین سے گزارش ہے آپ خود سے یہ سوال کریں کہ ہم اپنی قومی زبان ’’اُردو‘‘ کے ساتھ جیسا رویہ اختیارکیے ہوئے ہیں۔ کیا وہ زیادتی کے زمرے میں نہیں آتا ہے؟ آخر اُردو زبان سے ایسی کیا غلطی سرزد ہوگئی ہے کہ اُس کو اپنانے میں ہم کو شرم آتی ہے، بولنے میں کتراتے ہیں اور سوتیلی ماں جیسا ظلم اُس پر مسلسل ڈھائے چلے جارہے ہیں؟ سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اُردو بول سکتے ہیں  ہمارے ملک میں رہنے والا ہر فرد اُردو زبان سے نالاں نہیں ہے، آٹے میں نمک کے برابر ابھی معاشرے میں کچھ لوگ اور ادارے موجود ہیں جنھوں نے اُردو کی بقاء کا دیپ جلایا ہوا ہے اور جو اُردو بولنے اور لکھنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ میرے الفاظ سے شاید یہ تاثر جھلک رہا ہو کہ رسم الخط اور بول چال کے لیے اُردو کے علاوہ دیگر زبانوں کے استعمال کی یہاں مخالفت کی جارہی ہے۔ یقین مانیے ایسا بالکل نہیں ہے اور یہ اس لیے بھی ناممکن ہے کہ اُردو سے محبت کرنے والے کبھی دوسری زبانوں سے بیر پال نہیں سکتے ہیں کیونکہ ہماری شائستہ زبان اُردو خود مختلف زبانوں کا خوبصورت ملن ہے۔ اُردو میں آپ کو فارسی زبان کا گزر ملے گا، عربی زبان کے رنگ نظر آئیں گے اور تو اور اس میں تُرک زبان کے الفاظ کی بھی کثیر تعداد موجود ہے۔  تاریخِ اردو ادب بیشمار ایسی نامور شخصیات سے بھری پڑی ہے جو انگریزی ادب کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُردو زبان کی ترویج میں جُٹ گئے۔ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال، ناول نگارکرشن چندر، قلمکار پطرس بخاری، قدرت اللہ شہاب اور آج کے دور کی مشہورکہانی گو عمیرہ احمد اُن گوہرِ نایاب افراد کی فہرست کا حصہ ہیں جنھوں نے بی اے اور ایم اے کے لیے تو انگریزی ادب کو چُنا مگر جب لکھنے کے لیے قلم اُٹھایا تو اپنی قومی زبان اُردو اور بین الاقوامی شہرتِ یافتہ زبان انگریزی دونوں کے ساتھ خوب انصاف کیا۔ ایک سے زائد زبانیں سیکھنا بہت اچھی بات ہے، محض انگریزی ہی کیوں ہمیں کئی دوسری زبانوں پر بھی عبور حاصل کرنا چاہیے۔ اس دنیا میں بولی جانے والی ہر زبان اپنے اندر اُس علاقے کی تہذیب سموئے ہوتی ہے جہاں وہ عام بول چال کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ جب ہم ایک زبان سے آشنا ہوتے ہیں تو اپنائیت کا سہانا تعلق اُس زبان سے جُڑی تہذیب کے ساتھ بھی قائم کرلیتے ہیں۔ دورِ جدید کے اُردو والے جب اردو سے ہی وفا نہیں کر پا رہے تو دوسری زبانوں سے اپنے نوزائیدہ رشتے کی لاج کیسے رکھ پائیں گے؟ میر تقی میر کہتے ہیں کہ ؎  بے وفائی پہ تیری جی ہے فدا  قہر ہوتا جو باوفا ہوتا  سن ستر کی دہائی میں اپنے اُردو مضامین پر داد سمیٹنے والے مشہور مصنف رشید احمد صدیقی اُردو زبان کے بارے میں کہتے ہیں کہ، ’’ زبان کے علاوہ اُردو بہت کچھ اور بھی ہے۔ جیسے ایک قیمتی ورثہ، ایک قابلِ قدر روایت، ایک نادر آرٹ، ایک مسحور کُن نغمہ، قابلِ فکرکارنامہ،کوئی پیمانِ وفا یا اس طرح کی کتنی اور باتیں جو محسوس ہوتی ہیں لیکن بیان نہیں ہو پاتیں۔‘‘ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم اُردو کو وہ عزت و مرتبہ دے ہی نہیں پا رہے جس کی وہ مستحق ہے۔ بحیثیتِ قوم ہم ناقدرے ہوچکے ہیں، اپنے قیمتی اثاثوں کی بے حرمتی کس طرح کی جاتی ہے کوئی ہم سے سیکھے۔ درحقیقت اُردو کو پھلنے پھولنے کے لیے پاکستانیوں کی رتی برابر ضرورت نہیں ہے، ہم اس سے تعلق توڑ بھی دیں تو اُردو کوکوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اُردو زبان ہماری مدد کے بغیر بھی دوسری قوموں میں اپنی جگہ آسانی سے بنا رہی ہے، کہیں اپنی اصل شناخت میں،کسی جگہ ہندی زبان کا چوغا پہن کر اور بعض مقامات پر ہندوستانی بولی کی حیثیت سے۔ ہمارا برادر عزیز ملک ’’چین‘‘ بھی اُردو کے قدر دانوں میں شامل ہے۔ چینی باشندے باقاعدہ اُردو زبان سیکھ کر اُردو سے اپنی محبت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ دسمبر، سال 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق بیجنگ فارن اسٹیڈیز یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کے سربراہ پروفیسر زہؤ یوآن (Zhou Yuan) کا کہنا ہے کہ چین کی نوجوان نسل میں اُردو زبان کو لے کر بڑھتی دلچسپی کا اندازہ ’’ بی ایف ایس یو‘‘ کے شعبہ اُردو میں داخلہ لینے والے چینی طالب علموں کی بڑی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان بے مثال دوستی کا رشتہ کئی دہائیوں سے قائم و دائم ہے۔ چین نے ضرورت پڑنے پر پاکستان کی ہر بار مدد کی ہے لیکن کیا ہی خوب ہوتا جو ہم چین سے مدد لینے کے ساتھ ساتھ اُس کی کچھ اچھی عادتیں بھی اپنا لیتے۔ چین کی آسمان کو چھوتی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چینی لوگ اپنی زبان کو اپنے ماتھے کا جھومر سمجھتے ہیں اور دیگر زبانوں پر مہارت رکھنے کے باوجود عام گفتگو کے لیے نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ ملک سے باہر بھی چینی زبان کا ہی استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے تقسیمِ برصغیر سے قبل ہندوستان میں امن وامان کی فضا قائم کرنے کے لیے جو چودہ نکات پیش کیے تھے اُن میں بھی پرزور طریقے سے مسلمانوں کے مذہب اور زبان کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ایک آزاد ریاست کے حصول کے لیے ہمارے بزرگوں نے بے تحاشا قربانیاں دیں اور ہمیں انگریزوں کی غلامی سے چھٹکارا دلایا مگر شاید آج بھی اکثر پاکستانی غلامی میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ہم نے 1947 میں اپنے آباؤ اجداد کی بدولت جسمانی آزادی تو حاصل کرلی تھی مگر چونکہ ذہنی اعتبار سے آج بھی خود کو دیگر اقوامِ عالم کے مقابلے میں کمتر محسوس کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اپنی قومی زبان پر نازاں ہونے میں عار محسوس کرتے ہیں، اسی لیے آزادی حاصل کرنے کے اتنے سال بعد بھی ہم غلام ہی کہلائے جائیں گے۔ انگریزوں کو اس خطے سے گئے، کئی برس بیت چکے ہیں مگر انگریزی زبان کو آج بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ اپنے قیام سے لے کر اب تک ہمارے تمام ملکی ادارے انگریزی زبان میں اپنے انتظامی امور انجام دے رہے ہیں۔ اس کے برعکس گوروں کے کسی دیس کا ملکی نظام اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو کوئی ایک بھی اپنی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان کو سرکاری سطح پر اہمیت دیتا دکھائی نہیں دے گا۔ چلیں زیادہ دور نہ جائیں بس اپنے اردگرد کا جائزہ لے لیں پاکستان میں ہر دوسرا بندہ اُردو زبان میں بات چیت کرنے والے کو ان پڑھ سمجھتا اور جانتے بوجھتے اردو زبان کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر ادا کر کے خود کو cool بناتا نظر آئے گا۔ ایسے پاکستانیوں پر اُردو زبان کی یہ کہاوت بالکل صادق بیٹھتی ہے، ’’ کوّا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا۔‘‘  دنیا کی نظروں میں عزت بنانے سے پہلے خود کی نظروں میں باعزت ہونا بہت ضروری ہے۔ جو قومیں اپنی تہذیب و تمدن کو قابلِ قدر نہ جان کر اُن کی بیحرمتی کرتی ہیں وہ کبھی ترقی کی راہوں کا مسافر نہیں بن سکتیں۔ ہم دنیا میں بولی جانے والی مختلف زبانوں سے اپنا تعلق قائم کرلیں مگر ساتھ اپنی قومی زبان اُردو سے اپنے رشتے کو سینچنے کا عمل بھی منقطع نہ کریں، جب پاکستانی قوم مجموعی طور پر ایسا کرے گی تب ہمارے اورکامیابیوں کے درمیان حائل تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں گی اور پاکستان ترقی یافتہ ملکوں کے کندھے سے کندھا ملا کر پُراعتمادی کے ساتھ اپنے اچھے دنوں کو خوش آمدید کہے گا، ربِ کریم ہمیں وہ دن دیکھنا جلد نصیب فرمائے۔ (آمین)

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل