Loading
کچھ روایت چل پڑی ہے، آج کل سندھ میں لوگوں کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے کی۔ چلو یہ بھی اچھا ہوا کہ کم از کم حکومت نے اپنے مخالفین کا نوٹس تو لیا، مگر ان بے بنیاد ایف آئی آر نے پولیس کو رسوا کردیا ہے اور بڑی آسانی سے یہ ماجرہ سمجھ میں آرہا ہے کہ کس طرح ہماری پولیس آڑے کاموں میں استعمال ہو تی ہے۔ 77 سال گزرگئے اس ملک کو آزاد ہوئے مگر یہ روایت نہیں بدلی۔ 1947 میں نوابشاہ کے ڈپٹی کلیکٹر مسعود کھدر پوش تھے۔ سندھ میں پہلی ہاری (کسان) رپورٹ انھوں نے ہی ترتیب دی تھی، وہ میرے والد کی بہت عزت کیا کرتے تھے کیونکہ میرے والد نوابشاہ میں کسانوں کے وکیل تھے۔ ڈپٹی کلیکٹر مسعود کھدر پوش نے اپنی ہاری رپورٹ میں میرے والد قاضی فیض محمد کو کسانوں کا ایک متحرک لیڈر بتایا ہے۔ میرے والد سے وڈیرے ناراض رہتے تھے۔ ان وڈیروں میں جو میرے والد کے ساتھ کھڑے رہے، وہ تھے رئیس غلام رسول جتوئی۔ اس لیے کہ دور طالب علمی سے وہ میرے والد کے گہرے دوست تھے۔ رئیس غلام رسول جتوئی، غلام مصطفی جتوئی کے والد اور غلام مرتضیٰ جتوئی کے دادا تھے۔ غلام رسول جتوئی اپنے والد خان بہادر امام بخش خان جتوئی کے اکلوتے بیٹے تھے۔ خان بہادر امام بخش خان جتوئی سندھی اور سرائیکی زبان کے خوبصورت شاعر تھے اور ممبئی اسمبلی کے رکن بھی تھے۔ نوشہرو فیروز اور گردو نواح کو سندھی زبان میں ’’ساھتی پرگڑو‘‘ کہا جاتا ہے یعنی سندھ کا تہذیبی حصہ کیونکہ سندھ کا یہ حصہ علم و ہنر اور ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ تقسیم سے پہلے یہاں کے رہنے والے سندھی ہندو پڑھے لکھے اورکاروباری لوگ تھے۔ اسکولوں کا بہترین انفرا اسٹرکچر تھا۔ تمام طبقے کے بچے ایک ہی کلاس میں ایک ہی بینچ پر بیٹھ کر پڑھتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ غلام رسول جتوئی کی دوستی میرے والد سے گہری رہی۔ وہ میرے والد کے غریب خانے پر آتے، راتیں بسرکرتے چاہے ان کے سونے کا بستر زمین پر ہی کیوں نہ ہو اور جب میرے والد ان کے یہاں جاتے تو ان کی خاطر مدارات نوابوں کی طرح کی جاتی مگر میرے والد کا مقصد حیات تھا غریب کسانوں کو وڈیروں کے شکنجے سے آزاد کروانا۔ مسعود کھدر پوش چونکہ میرے والد کے گہرے دوست تھے تو وہ اپنی بیگم کے ہمراہ ہمارے گاؤں آیا کرتے تھے۔ ان سے دوستی کی روایت میرے والد نے آخر تک نہ چھوڑی۔ اپنی بڑھتی عمر ہونے کے بعد بھی وہ ان سے لاہور ملنے جاتے تھے۔ میرے والد کے ایک اور اسکول فیلو تھے وہ تھے گوبند مالی، جنھوں نے 1956 میں ہجرت کی اور ہندوستان چلے گئے۔ گوبند مالی نے ہندوستان میں سندھی زبان میں بہت سے ناول لکھے مگر ان کے ایک ناول ’’چھوئی موئی‘‘ کا ترجمہ اردو اور ہندی میں ہوا ہے۔ اس ناول کی کہانی ایک دہقان (کسان) لیڈر کے گرد گھومتی ہے جس کا نام تھا ’’ فیض‘‘ یعنی میرے والد۔ قصہ مختصر یہ کہ مسعود کھدر پوش کا نوابشاہ سے تبادلہ ہوگیا اور دہقانوں کو ہمت دلانے کے گناہ میں یہاں کے وڈیرے میرے والد کے درپے ہوگئے۔ انھوں نے میرے والد کو سبق سکھانے کی ٹھان لی کیونکہ میرے والد نے بہ حیثیت ایک وکیل ان کی ناک میں دم کر رکھا تھا کہ وہ زمینیں جو یہاں ہندو چھوڑ گئے تھے وہ زمینیں ان دہقانوں کو دلانے کے لیے ’’ہاری الاٹی تحریک ‘‘ کا آغاز میرے والد نے کیا۔ ان وڈیروں نے میرے والد کے خلاف بھینسیں چوری کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کروایا اور میرے والد گرفتار ہوگئے۔ اس وقت کے ایس ایچ اوکوئی پنہور صاحب تھے۔ اتوار کو سیشن کورٹ لگائی گئی اور میرے والد کی ضمانت منظور ہوئی۔ ایس ایچ او کو مطلع کیا گیا۔ انکوائری کروائی گئی اور انکوائری میں یہ ثابت ہوا کہ ایف آئی آر جھوٹی درج کی گئی تھی۔ ایس ایچ او پنہور صاحب معطل ہوئے،مگر بات یہاں پر ختم نہ ہوئی ان وڈیروں نے رات کے اندھیرے میں ہمارے گاؤں والے گھر پر حملہ کروایا۔ ڈاکو ہمارے گھر میں گھسے۔ ہمارے گھر کی عورتیں اس وقت سو رہی تھیں۔ میری والدہ تھیں ، میری دادی تھیں اور میری چاچی جو کہ اس وقت حمل سے تھیں اور باقی گھر کے افراد بھی اس وقت سو رہے تھے۔ میرے بڑے بھائی یہ بتاتے تھے کہ میری والدہ کے ہاتھوں سے ان ڈاکوؤں نے سونے کی چوڑیاں اتروائیں، ہماری چاچی نے جب مزاحمت کی تو ان کے پیٹ پر لاٹھیاں ماریں۔ اتفاقا میرے والد گھر پر موجود نہ تھے اور یہ بہتر ہی ہوا کیونکہ وہ میرے والد کو ہی مارنے آئے تھے۔ ہماری چاچی کیونکہ حاملہ تھیں ان کو ایمرجنسی میں اسپتال پہنچایا گیا جہاں ان کا حمل ضایع ہوا پھر میرے والد کو اپنا گاؤں چھوڑنا پڑا۔ وہ نوابشاہ منتقل ہوئے پھر اس تحریک نے زور پکڑا۔ نوابشاہ کے قریب رئیس بروہی کے گاؤں میں ہاری کانفرنس ہوا کرتی تھی اور ان کانفرنس میں باچا خان، مولانا بھاشانی، اچکزئی، مینگل صاحب ، خیر بخش مری، میجر اسحاق اور میاں افتخار جیسے لوگوں نے شرکت کی۔ اب وڈیرہ اپنی ماہیت اور بھی وسیع کر گیا ہے۔کل تک یہ لوگ آمریتوں کی گودوں میں پلتے تھے۔ان کا اقتدار کے بغیر جینا محال تھا۔ اقتدار سے ان کا تعلق چولی دامن جیسا ہے۔ پھر آئے بھٹو صاحب۔ ان میں سے کچھ لوگ جمہوریت پسند بنے۔مگر بھٹو کا زمانہ بھی عتاب کا تھا۔ اب اس دور میں بھینس چوری کرنے کے الزام میں نہیں لیکن سائیکل چوری کرنے کے الزام ایف آئی آر کٹنے لگیں اور انھوں نے DPR کا قانون متعارف کروایا جس میں ضمانت کی کلاز ہی نہیں تھی۔ (جاری ہے)
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل