Loading
سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس کیس کی سماعت کے دوران لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل حامد خان نے دلائل مکمل کرلیے جبکہ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل شروع کردیے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔حامد خان نے دلائل میں کہا جیسے بھی حالات ہوں سویلینز کو اتنے بڑے پیمانے پر فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں کیا جاسکتا، فوجی عدالتیں آئینی ترمیم کے بغیر قائم نہیں ہوسکتیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا 26 ویں ترمیم کے بعد فوجی عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف اپیل کہاں ہوسکتی ہے۔ حامد خان نے جواب دیا ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی جاسکتی ہے مگر اسکا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیٔے ایف بی علی کیس فیصلے میں کہا گیا کہ پارلیمان اس معاملے پر 2 سال میں ریویو کر سکتی ہے،مگر آج تک پارلیمان نے اس معاملے پر کچھ نہیں کیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کیس یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کے ماتحت جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہوگا؟ آرمی ایکٹ میں درج جرائم کرنے پر اسکا دائرہ اختیار سویلینز تک بڑھایا جاسکتا ہے یا نہیں۔ عدلیہ کے ایگزیکٹو سے الگ ہونے کا ڈیکلریشن عدلیہ دے گی یا پارلیمان؟ حامد خان نے کہا آئین کے الفاظ واضح ہیں، پارلیمان کے ڈیکلریشن کی ضرورت نہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ دیگر فریقین کے دلائل میں بہت سے اہم نکات سامنے آئے ہیں۔ ہو سکتا ہے جواب الجواب میں ایک ہفتہ لگ جائے۔سماعت آج دوبارہ ہوگی۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل