Loading
دہشت گردی ایک مہلک ناسور ہے جو انسانی معاشروں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ یہ نہ صرف افراد کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتی ہے بلکہ ایک پُرامن اور ترقی یافتہ سماج کی تشکیل میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کسی ایک ریاست کا معاملہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کا مسئلہ ہے۔ اگر قرآنِ مجید، فلسفہ، اور تاریخ کے تناظر میں اس مسئلے کا جائزہ لیا جائے تو اس کی جڑیں انسانی نافرمانی، ظلم، ناانصافی اور اخلاقی زوال میں نظر آتی ہیں۔ قرآنِ کریم ظلم، فساد اور ناحق قتل و غارت کی سخت مذمت کرتا ہے۔ سورۃ المائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جس نے کسی ایک انسان کو بغیر کسی وجہ کے قتل کیا، گویا اُس نے پوری انسانیت کو قتل کردیا، اور جس نے کسی ایک جان کو بچایا، گویا اُس نے پوری انسانیت کو بچایا۔‘‘ (المائدہ: 32)۔ یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ ایک بے گناہ جان لینا پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے، جبکہ ایک جان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے برابر ہے۔ فلسفیانہ نقطۂ نظر سے، دہشت گردی کے اسباب و علل کا گہرا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ یہ مسئلہ محض مذہبی یا نظریاتی نہیں بلکہ اس کے پیچھے نفسیاتی، سماجی اور سیاسی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ سقراط کا کہنا تھا: ’’جہالت سب سے بڑا ظلم ہے، اور جب یہ ظلم طاقتور کے ہاتھ میں آجائے تو فساد کو جنم دیتا ہے۔‘‘ یہی اصول دہشت گردی پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اکثر دہشت گردی کے پیچھے جہالت، انتقام اور سماجی ناانصافی جیسے عناصر ہوتے ہیں۔ جب کسی قوم یا گروہ کے ساتھ ناانصافی کی جاتی ہے، تو ان کے اندر انتقامی جذبات پیدا ہوتے ہیں اور وہ تشدد کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ پاکستان کو دہشت گردی کے خطرے کا سامنا 1980 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کے بعد کرنا پڑا۔ اس جنگ کے دوران پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی اور مختلف گروہوں کی مدد کی، جس کے نتیجے میں انتہاپسندی نے جڑیں پکڑ لیں۔ 9/11 کے بعد، جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہونا پڑا، جس کے بعد دہشت گرد تنظیموں نے پاکستان میں اپنی کارروائیاں تیز کردیں۔ حالیہ واقعات نے قومی سلامتی پر کئی سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی جانب سے مسافر ٹرین کو یرغمال بنانا ریاستی کمزوری اور حکومتی عدم دلچسپی کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ دہشت گرد اتنے طاقتور کیوں ہوگئے ہیں؟ ریاست ان کے سامنے بے بس کیوں نظر آتی ہے؟ عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے کےلیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات محض اتفاقیہ نہیں بلکہ ریاستی کمزوری، اقتدار کی کشمکش اور حکومتی نااہلی کا واضح ثبوت ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں کی اولین ترجیح اقتدار کا حصول اور اس کی حفاظت بن چکی ہے جبکہ عوام کے جان و مال کے تحفظ جیسے بنیادی فرائض پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی کے حملے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ گروہ عسکری لحاظ سے منظم ہوچکا ہے اور اسے مقامی و غیر ملکی سرپرستی حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ ریاست کی انٹیلی جنس ایجنسیاں کہاں ہیں؟ وہ ان گروہوں کی کارروائیوں کو پہلے سے کیوں نہیں روک پاتیں؟ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمے داریوں کو نبھانے میں کیوں ناکام ہو رہے ہیں؟ حکومت کی عدم استحکام اور پالیسیوں کی کمی کی وجہ سے دہشت گرد تنظیموں کو تقویت ملتی ہے۔ فوج اور دیگر ادارے دہشت گردی کے خلاف مؤثر کارروائیاں کرنے میں ناکام کیوں ہورہے ہیں؟ کیا انٹیلی جنس نیٹ ورک میں کمزوری ہے یا جان بوجھ کر ان عناصر کو نظر انداز کیا جارہا ہے؟ پارلیمنٹ اور دیگر قانون ساز ادارے دہشت گردی کے خلاف کوئی ٹھوس پالیسی کیوں نہیں بنا پاتے؟ آج پاکستان میں اگر کوئی محب وطن شہری ریاستی ناکامیوں پر سوال اٹھاتا ہے تو اسے ملک دشمن قرار دے دیا جاتا ہے۔ لیکن اصل غدار کون ہے؟ وہ جو ریاست کی ناکامیوں کو چھپاتے ہیں یا وہ جو ان کمزوریوں کو بے نقاب کر کے بہتری کی امید رکھتے ہیں؟ یہ رویہ نہ صرف آزادیٔ اظہار کو محدود کرتا ہے بلکہ مسائل کے حل میں بھی رکاوٹ بنتا ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف مؤثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس کےلیے ایک جامع اور عملی انسدادِ دہشت گردی پالیسی ترتیب دینا ہوگی جو زمینی حقائق کے مطابق ہو۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مزید متحرک کیا جائے اور ان کے درمیان مؤثر معلوماتی تبادلہ یقینی بنایا جائے تاکہ دہشت گردوں کے منصوبوں کو ناکام بنایا جاسکے۔ سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کے خلاف متفقہ بیانیہ اپنانا ہوگا اور اقتدار کی کشمکش کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد میں فیصلے کرنے ہوں گے۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جدید تربیت فراہم کی جائے تاکہ وہ دہشت گردی کے خلاف زیادہ مؤثر کارروائیاں کرسکیں۔ فوج کو صرف دفاعی مقاصد تک محدود رکھا جائے اور سول اداروں کو مضبوط بنایا جائے تاکہ داخلی سیکیورٹی کے معاملات میں بہتری آ سکے۔ بلوچستان میں سیاسی اور معاشی اصلاحات متعارف کرانا ناگزیر ہوچکا ہے تاکہ عوام دہشت گردوں کا ساتھ نہ دیں۔ مقامی سطح پر ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ بیروزگاری اور معاشی استحصال کو روکا جاسکے۔ پاکستان کو عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف مؤثر سفارتی مہم بھی چلانی چاہیے تاکہ بین الاقوامی برادری کو دہشت گردی کے خطرے سے آگاہ کیا جا سکے اور بیرونی مدد حاصل کی جاسکے۔ بھارت اور افغانستان سمیت دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنا کر دہشت گردوں کی بیرونی مدد کو روکا جاسکتا ہے۔ پاکستان دہشت گردی جیسے سنگین مسئلے سے نبرد آزما ہے، اور اگر آج بھی حکومت اور ریاستی اداروں نے اپنی ذمے داریوں کو سمجھ کر مؤثر اقدامات نہ کیے، تو آنے والے وقت میں صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔ ریاست کو اپنی رِٹ بحال کرنی ہوگی، عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا اور دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائیاں کرنا ہوں گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی ایک پُرامن اور محفوظ پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ یا پھر ہم صرف اندھیروں میں روشنی کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں؟ اس سب کے بعد فیض احمد فیض کی صبحِ آزادی کی یاد آتی ہے، جس کا پہلا شعر ہی اس سارے مضمون کا خلاصہ ہے: یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں آج بھی یہی سوال کھڑا ہے کہ کیا ہم نے جس آزادی، امن اور ترقی کا خواب دیکھا تھا، وہ حقیقت بن سکا؟ یا پھر یہ صبح بھی اسی شب گزیدہ تاریکی کا تسلسل ہے؟ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں ایک ایسی قیادت نصیب کرے جو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں فیصلے کر سکے۔ نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل