Monday, March 17, 2025
 

پنجاب میں مقامی حکومتوں کا نیا نظام

 



پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ نظام سے وابستہ افراد خود اسے کمزور کرنے کے عمل میں شریک ہوتے ہیں۔ کسی بھی نظام میں جمہوریت کو جانچنے و سمجھنے کے لیے بنیادی نقطہ ہی مقامی حکومتوں کا نظام ہوتا ہے۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے ریاستی اور حکومتی نظام کی ترجیحات میں خود مختار مقامی حکومتوں کا نظام موجود نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس ملک کا نظام مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی یا کمزور طرز کے مقامی نظام کی مدد سے چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک کمزور اور مفلوج مقامی حکومتوں کا نظام بنا کر تمام اختیارات صوبائی سطح تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پنجاب اسمبلی نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025 منظور کیا ہے۔یہ بل منظوری کے بعد لوکل گورنمنٹ اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے اور ان کی تجاویز کے بعد اسے حتمی طور پر اسمبلی سے منظور کیا جائے گا۔آئین کا آرٹیکل 140 اے بنیادی طور پر صوبائی حکومتوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ سیاسی انتظامی اور مالی اختیارات عوام کے منتخب نمایندوں کو منتقل کریں ۔لیکن اگر ہم نئے مجوزہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ پنجاب 2025 کو دیکھیں تویہ مجوزہ نظام مقامی حکومت نہیں بلکہ میونسپلیٹی کا نظام ہے ۔ ضلعی حکومت کا تصور نہیں ہے۔ حکومت نے ضلع کونسل یا میٹرو پولیٹن کوختم کرکے میونسپل کارپوریشن ،میونسپل کمیٹی ،تحصیل کونسل اور ٹاون کارپوریشن تک نظام کو محدود کیا ہے۔ اس نظام کے تحت میونسپل کارپوریشن شہری علاقوں تک، ٹاون کارپوریشن بڑے شہروںتک اور میونسپل کمیٹی چھوٹے شہروں تک اور تحصیل کونسلیں دیہی علاقوں میں قائم کی جائیں گی۔جب کہ مقامی سطح پر یونین کونسل کا نظام ہوگا۔ایک یونین کونسل کل 13 ممبران پر مشتمل ہوگی جن میں نو جنرل ممبرز ہوں گے اور چار مخصوص نشستوں پر منتخب ہوں گے ان میں ایک خاتون، ایک کسان یا مزدور، ایک نوجوان، اور ایک غیر مسلم ہوگا۔اس لیے اس مجوزہ نظام کو مقامی حکومت کا نظام کہنا درست نہیں ہوگا ۔ ضلعی سطح پر موجود چیف ایگزیکٹو آفیسرسربراہ ہونگے اور محکمہ کا سربراہ اس کا ممبر ہوگایعنی ضلع کا مکمل کنٹرول منتخب نمایندوں کے مقابلے میں بیوروکریسی کے ماتحت کردیا گیا ہے۔یہ بحث نئی نہیں ہے اور پہلے بھی بیوروکریسی خود مختار مقامی حکومت کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی تھی اور اس بار بھی اس نے اپنی بالادستی کی اہمیت کو تسلیم کروایا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ ضلع کے تمام اختیارات ڈپٹی کمشنر کے ماتحت ہوں گے لیکن ساتھ ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ڈپٹی کمشنر وزیراعلیٰ کے ماتحت ہوتے ہیں تو عملی طور پر موجودہ مقامی حکومتوں کا پنجاب کا نظام براہ راست وزیراعلی کے کنٹرول میں رہے گا اور وہ ان معاملات کو ڈپٹی کمشنر کی مدد سے چلائیں گی۔ اس نظام کی ایک خرابی یہ ہے اس میں یونین کونسل کی سطح سے لے کراوپر کی تمام سطح تک چیئرمین یا وائس چیئرمین یا میئر و ڈپٹی میئر سمیت مخصوص نشستوں کا انتخاب براہ راست نہیں بلکہ ان ہاوس ہوگا جو مقامی لوگوں محروم رکھنا ہے کہ اپنے ووٹ کی مدد سے ان لوگوں کو منتخب کرسکیں ۔ان ہاوس انتخاب میں کونسلرز پر بیوروکریسی اور سیاسی قیادت دباو ڈال کر ان سے اپنی مرضی کے چیرمین، وائس چیرمین اور میئر و ڈپٹی میئر کو منتخب کرسکتے ہیں۔براہ راست انتخاب سے ہی عوام اپنی مرضی اور منشا کے مطابق اپنی مقامی قیادت کا انتخاب شفافیت کی بنیاد پر کرسکتے ہیں ۔ پاکستان میں مقامی حکومتوں سے متعلق ایک بڑے قانونی ماہر قاضی مبین ایڈوکیٹ کے بقول ہمارا آئین مقامی حکومتوں کی تشکیل کی بات کو یقینی بناتا ہے اور ان مقامی حکومتوں کو سیاسی انتظامی اور مالی اختیارات دینے کی بات کرتا ہے۔ان کی بقول آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ ہم نے مقامی حکومتوں کے مقابلے میں میونسپل کمیٹیاں، میونسپل کارپوریشنز یا تحصیل کونسلیں بنانی ہیں۔اس لیے اس نئے مجوزہ قانون میں مقامی حکومت کے اصول کوہی نظر انداز کیا گیا ہے۔ اسی طرح قاضی مبین کے بقول جب سیاسی انتظامی اور مالی اختیارات کی تقسیم کا فارمولا عوام کے منتخب نمایندوں کے بجائے بیوروکریسی کی بنیاد پر چلایا جائے گا تو یہ خود مختار مقامی حکومتوں کی نفی کرتا ہے۔جب ضلع میں لوکل گورنمنٹ کا سربراہ ڈپٹی کمشنر ہوگا تو پھر عوام کے منتخب نمایندے کو با اختیار بنانے کی بات پیچھے رہ جاتی ہے۔ اسی طرح ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ اس نظام کے تحت کونسلیں فقط بجٹ کی سفارش کر سکتی ہیں حتمی منظوری میں صوبائی حکومت کے اختیار کو ہی حرف آخر مانا گیا ہے ۔ اسی طرح ہر ضلع میں ضلعی اتھارٹیاں قائم ہوں گی جن کے سربراہ ڈپٹی کمشنر ہوں گے اور جن محکموں کو نچلی سطح پر تقسیم کیا گیا ہے اس میں سی ای او ضلعی سطح پر متعلقہ محکمہ کا سربرا ہ بطور ممبر ہونگے یعنی تمام سرکاری افسران شامل ہیں ۔پنجاب حکومت کا یہ طرز عمل بنیادی طور پر اٹھارویں ترمیم کی بھی نفی کرتا ہے اور یہ عمل صوبائی خود مختاری کے اصول کی بھی نفی کرتا ہے اور اس سے گورننس کا بحران حل نہیں بلکہ اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہوگا۔ اصل میں ہماری صوبائی حکومتیں ابھی بھی عدم مرکزیت کے بجائے مرکزیت پر مبنی نظام چاہتی ہیں جہاں سیاسی انتظامی اور مالی کنٹرول صوبائی حکومتوں کے پاس ہو۔یہ ہی وہ سوچ ہے اور فکر ہے جو اس ملک میں مقامی حکومتوں کی مضبوطی اور خود مختاری کی نفی کرتا ہے۔یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ پہلے ہی پنجاب سمیت مختلف صوبوں میں صوبوں کو مختلف کمپنیوں اور اتھارٹیز کی بنیاد پر چلایا جا رہا ہے اور یہ عمل متبادل مقامی حکومت کے نظام کی عکاسی کرتا ہے۔ اس مجوزہ نظام میں بڑے شہروں کے نظام کو کمزور کردیا ہے اور میٹروپولیٹن سٹی حکومت کا تصور ہی ختم کردیا ہے حالانکہ ہمیں بڑے شہروں کے نظام کو ایک مختلف طرز سے چلانا چاہیے ۔مگر پنجاب کی موجودہ حکومت نے میٹروپولیٹن مقامی حکومت کا تصور ختم کر کے چھوٹے اور بڑے شہروں میں میونسپل کارپوریشن یا میونسپل کمیٹیاں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو بڑے شہروں کی گورننس کو درست نہیں کرسکتا ۔لاہور جیسے بڑے شہر کو بھی سٹی کارپوریشن کے ماتحت کیا گیا ہے اور ان کو مختلف زون میں تقسیم کیا جائے گا یعنی مختلف ٹاؤن کی صورت میں اور اس کا سربراہ بھی ڈپٹی کمشنر ہوگا۔عورتوں کی نشستوں میں بھی جہاں براہ راست انتخاب کی نفی کی گئی ہے وہیں 33فیصد نمایندگی کے اصول کو نظر انداز کرکے ان کی نشستوں کو کم کیا گیا ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل