Monday, March 17, 2025
 

نیشنل ایکشن پلان ٹو کے خد و خال

 



آج کل دہشت گردی کی لہر تیز ہو گئی ہے۔ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کے بعد سیکیورٹی اداروں کے قافلے پر نوشکی میں بھی حملہ ہوا ہے۔خیبرپختونخوا میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ میں سیاسی قیادت کی بات نہیں کر رہا لیکن سب پاکستانی دہشت گردی سے تنگ ہیں۔ وہ کسی بھی حال میں اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔مجھے پاکستان کے عوام میں دہشت گردی کی لہر کے خاتمہ کے لیے ایک قومی یکجہتی اور یکسوئی نظر آئی ہے۔لوگ حکومت اور پاک فوج سے امید رکھتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدام کریں گے۔حالیہ دہشت گردی کی لہرکے بعد پارلیمان کا قومی سلامتی کا اجلاس بلایا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے ایک اے پی سی بلانے کا بھی اعلان کیا ہوا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ قومی سلامتی کے اجلا س کے بعد اے پی سی بھی ہو جائے گی۔ ویسے یہ بھی ایک اندازہ ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے اے پی سی میں پارٹی بانی کی شرکت کی شرط رکھنے کی وجہ سے بھی قومی سلامتی کا اجلاس بلایا گیا ہے تا کہ معاملات وہیں حل کیے جائیں۔ لیکن پھر جو جماعتیں پارلیمان میں نہیں ہیں لیکن ان کا سیاسی اثر ہے انھیں بھی اعتماد میں لینا ہوگا۔ بلاول بھٹو نے نیشنل ایکشن ٹو کی بات کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ اگر سانحہ اے پی ایس کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سب جماعتوں کو اکٹھا کر کے نیشنل ایکشن پلان بنا سکتے ہیں تو آج جب صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے تو وزیر اعظم شہباز شریف نیشنل ایکشن پلان ٹو کیوں نہیں بنا سکتے۔ مجھے لگتا ہے کہ بلاول کی بات میں وزن ہے اور معاملات جلد نیشنل ایکشن پلان ٹو کی طرف جانے چاہیے۔ اس ضمن میں ایک ایک دن کی تاخیر کی ملک و قوم کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ ایک سوال ہے کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر سے نبٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان ٹو کیا ہو سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں آج ملک میں دہشت گردی جس نہج پر پہنچ گئی ہے،اس سے نمٹنے کے لیے ملٹری کورٹس دوبارہ قائم کرنا ہوں گی۔ ملٹری کورٹس کے دائرہ اختیار کے بارے میں بہت خدشات رہتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں اب ان خدشات کو ختم کر کے یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کو روکنے کے لیے آج ملٹری کورٹس دوبارہ ناگزیر ہیں۔ ہمیں سیکیورٹی فورسز پر ہر قسم کے مقدمات کو ملٹری کورٹس میں لے جانا ہوگا۔ ویسے بھی دہشت گردی کے واقعات کے تمام مقدمات کو ملٹری کورٹس میں جانے کا طریقہ کار نکالنا ہوگا۔مجھے لگتا ہے کہ اس ضمن میں 27ویں آئینی ترمیم کے لیے سیاسی راہ کافی حد تک ہموار ہو چکی ہے۔ مجھے اس ضمن میں کوئی خاص رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ صرف تحریک انصاف چاہے گی کہ نو مئی کے مقدمات ملٹری کورٹس میں نہ چلے جائیں۔ انھیں اپنی فکر ضرور ہوگی۔ لیکن اس کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ پاکستان کا نظام عدل دہشت گردی کے سنگین مقدمات سننے کے قابل نہیں ہے۔ ان عدالتوں سے تو عام مجرم بچ نکلتا ہے، دہشت گردوں کی کیا بات ہے۔ اس لیے آج ملک میں دہشت گردی کی لہر جس نہج پر پہنچ گئی ہے ہمیں اس دہشت گردی کو روکنے کے لیے ملٹری کورٹس دوبارہ بنانا ہوں گی۔ پہلے ہم نے جب ملٹری کورٹس بنائی تھیں۔ اس کا فائدہ ہوا تھا۔ لیکن عام عدالتوں سے اپیلوں میں دہشت گردوں کی رہائی پھر دیکھنے میں آئی تھی۔ اس بار مجھے لگتا ہے کہ دہشت گردوں کی اپیلیں بھی ملٹری کورٹس میں ہی سنی جانی چاہیے، اس لیے ترمیم کو ایسے بنانا چاہیے۔ دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں جن میں بلوچستان اور کے پی کے علاقہ شامل ہیں وہاں دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے فوج کو مزید اختیارات دینے کی ضرورت ہے۔ یہ علاقے اور وہاں کا امن و امان فوج کے حوالے کرنا ہوگا۔ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر نہیں چل سکتا۔ آپ خود کچھ نہ کریں‘ فوج کو مکمل اختیارات بھی نہ دیں اور ان سے امن قائم کرنے کی توقع بھی کریں۔ یہ ایک دہری حکمت عملی ہے۔ فوج کو آئین کے تحت مکمل اختیارات دینا ہوںگے تا کہ کوئی ابہام نہ رہے۔ افغانوں کی واپسی کے لیے پارلیمان کی منظوری ضروری ہے تاکہ انھیں جبراً نکالنے کے لیے بھی اختیارات دیے جا سکیں۔ اس وقت تحریک انصاف، پاکستان سے افغانوں کو نکالنے کی مخالفت کر رہی ہے۔ کے پی کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اس ضمن میں ایک پریس کانفرنس بھی کی ہے۔ لیکن یہ کوئی صوبائی معاملہ نہیں ہے۔ کس نے پاکستان میں رہنا ہے اور کس نے پاکستان میں نہیں رہنا ‘یہ اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے۔ اس لیے وفاقی حکومت کو انھیں نکالنے کے لیے ایک مربوط پالیسی بنانا ہوگی جس میں فوج کو خصوصی اختیارات دیے جائیں۔ اب جو آئینی ترمیم کی جائے اس میں افغانوں کو نکالنے کا روڈ میپ بھی شامل ہو۔ افغانستان کے حوالے سے بھی پاکستان کو بڑ ے فیصلے کرنا ہوںگے۔ ہمیں افغانستان کے حوالے سے واضح فیصلے کرنا ہوں گے۔ایک ایسی افغان پالیسی جس کو صرف مقتدرہ کی ہی نہیں بلکہ پارلیمان کی منظوری بھی حاصل ہو۔ اب جو آئینی ترمیم کی جائے اس میں جن افغانوں نے کسی بھی طرح پاکستان کی شہریت حاصل کر لی ہے، اس کو بھی ختم کرنے کاآئینی اور قانونی راستہ نکالا جائے۔ہم امریکا میں دیکھیں وہ غیر قانونی طور پر مقیم لوگوں کو کیسے نکال رہے ہیںبلکہ قانونی دستاویزات رکھنے والوں کو بھی نکال رہے ہیں۔صدر ٹرمپ اپنے خصوصی اختیارات استعمال کر رہے ہیں‘ ہمیں بھی پارلیمان سے ان تمام افغان مہاجرین کو ایک مقررہ ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد غیر قانونی کا درجہ دے دینا چاہیے اور ان کے ساتھ غیر قانونی کا ہی سلوک کرنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں پارلیمان کو فوج کو اختیار دینا چاہیے کہ وہ افغانستان میں موجود دہشت گردی کے اڈوں کو نشانہ بنائے۔ اس ضمن میں سرجیکل اسٹرائیکس کی باقاعدہ پالیسی بنانا ہوگی۔اب تو کافی حد تک یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ افغان حکومت ان دہشت گردوں کے اپنے ملک میں موجود ٹھکانوں کو بھی ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس لیے پاکستان کو خود انھیں ختم کرنے کے لیے تیاری کرنا ہوگی۔ کیونکہ جب تک ہم اٖفغانستان میں ان ٹھکانوں کو ختم نہیں کریں گے تب تک پاکستان میں جتنے بھی اقدامات کر لیں سو فیصد نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ اشرف غنی حکومت نے اگر ان دہشت گردوں کو ہمارے حوالے نہیں بھی کیا تھا تو ان کو جیلوں میں قید ضرور کر لیا تھا۔ افغانستان میں ان کی پناہ گاہیں ختم کرنے کے لیے کارروائیاں کی گئی تھیں۔ لیکن افغان طالبان نے اقتدار میں آکر ان کو رہا کیا اور مسائل دوبارہ پیدا ہو گئے۔لہٰذا افغانستان میں مسائل حل کرنے کے لیے بھی ایکشن کی منظوری ہونی چاہیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل