Monday, March 17, 2025
 

چھ نسلوں سے جاری مزاحمت (قسط ششم)

 



مکمل بغاوت کا بارود تیار تھا۔اس میں چنگاری پندرہ اپریل انیس سو چھتیس کو لگ گئی جب شہید عزالدین القسام کے نظریات سے وابستگی کے دعویدار ایک مسلح گروہ نے نابلس سے تلکرم جانے والی ایک بس روک کے تین یہودی مسافر شناخت کر کے گولی مار دی۔تل ابیب میں تیس ہزار یہودیوں نے احتجاجی جلوس نکالا ، عرب املاک کی توڑ پھوڑ کے علاوہ پولیس پر بھی حملے کیے۔یہ کشیدگی قریبی قصبے جافا تک پھیل گئی۔ مسلح صیہونی ہگانہ ملیشیا نے سڑک پر سوئے دو عرب مزدور قتل کر دیے ۔اگلے چار روز میں مارکٹائی کی لہر نے فلسطین کے ہر قابلِ ذکر قصبے کو لپیٹ میں لے لیا۔ انیس اپریل کو احتجاج منظم کرنے کے لیے نابلس میں عرب نیشنل کمیٹی قائم ہوئی اور جلد ہی پورے ملک میں ایسی بیسیوں کمیٹیاں نمودار ہوگئیں۔چنانچہ اسی دن برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے شورش کچلنے کے لیے ایمرجنسی قوانین نافذ کر دیے۔اکیس اپریل کو پانچ فلسطینی سیاسی جماعتوں نے غیر معینہ مدت کے لیے ملک گیر پہیہ جام ہڑتال کا مشترکہ اعلان کر دیا۔پچیس اپریل کو کلیدی سیاسی رہنماؤں پر مشتمل عرب ہائر کمیٹی قائم ہوئی اور اس نے ہڑتال ختم کرنے کے لیے تین بنیادی مطالبات رکھے۔بیرونِ ملک سے مزید یہودیوں کی آمد پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ عرب اراضی پر یہودی قبضے اور خرید و فروِخت کو ممنوع قرار دیا جائے۔نمایندہ قومی حکومت قائم کی جائے جو ایک منتخب قومی کونسل کو جوابدہ ہو۔ ظاہر ہے کہ برطانوی انتظامیہ ان میں سے کوئی مطالبہ من و عن تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔ اس کا موقف تھا کہ بیرون سے آنے والے یہودیوں کا کوٹہ پہلے ہی محدود کیا جاچکا ہے۔عرب اراضی کی خرید و فروخت سے متعلق قوانین پہلے ہی سخت کر دیے گئے ہیں۔ ایک منتخب نمایندہ کونسل کے لیے حالات سازگار نہیں البتہ اس مطالبے پر مناسب وقت آنے پر غور ضرور ہو سکتا ہے۔ عرب ہائر کمیٹی نے مزید دباؤ ڈالنے کے لیے سول نافرمانی کا اعلان کرتے ہوئے شہریوں سے سرکاری ٹیکسوں کے بائیکاٹ کی اپیل کی۔عراق سے فلسطین آنے والی موصل حیفہ تیل پائپ لائن کو کئی بار نقصان پہنچایا گیا۔دیہی علاقوں میں یہودی آبادکاروں اور ان کی املاک پر حملے تیز ہو گئے۔چند قصبات میں یہودیوں نے مکمل طور پر اپنی املاک ترک کر دیں۔مخلوط آبادی والے قصبوں میں یہودیوں اور عربوں نے ایک دوسرے کو نشانے پر رکھ لیا۔ برطانوی انتظامیہ نے حالات سے نپٹنے کے لیے مددگار یہودی ملیشیاؤں کو مسلح ہونے کی اجازت دے دی۔مصر سمیت آس پاس کے برطانوی زیرِ تسلط علاقوں سے اضافی فوجی کمک منگائی گئی۔کیونکہ اس شورش کی روک تھام فلسطین میں پہلے سے تعینات دو فوجی بٹالینوں کے بس کی بات نہیں تھی۔ بغاوت پر کنٹرول کرنے کے لیے ہنگامی قوانین کے تحت بلا وارنٹ گھر گھر تلاشی ، علی الصبح گھروں پر چھاپے ، احتیاطی نظربندی ، دروں اور کوڑوں سے پٹائی ، املاک کی ضبطی اور علاقہ بدری سیت ہر ہتھکنڈہ حرکت میں آ گیا۔ ( بعد ازاں اسرائیل نے انھی ہتھکنڈوں کو فلسطینیوں سے اپنے سلوک کا معیار بنا کے برطانوی نوآبادیاتی نظام کے سب سے ہونہار شاگرد ہونے کا ثبوت دیا اور جو کسر رہ گئی وہ نازی جرمنی کے یہودیوں پر کیے جانے والے مظالم کو فلسطینیوں پر ڈھانے سے پوری ہو گئی )۔  جوں جوں سختیاں بڑھتی گئیں مسلح عرب گروہوں اور عام فلسطینیوں کا باہمی امدادی رشتہ اور مضبوط ہوتا چلا گیا۔دو جون کو مسلح فلسطینیوں نے مصر سے بذریعہ ریل فلسطین بھیجی جانے والی دو گورا رجمنٹوں کو روکنے کے لیے کئی مقامات پر پٹڑی اکھاڑ دی۔سرکار نے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی وسیع پکڑ دھکڑ شروع کر دی اور انھیں جزیرہ نما سینا اور نجف کے صحرا میں قائم کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔ اکیس جون کو مسلح عربوں نے مغربی کنارے پر انباطہ قصبے کے نزدیک مسافر بسوں کے ایک قافلے پر حملہ کیا جس کی حفاظت برطانوی فوجی کر رہے تھے۔یلغار کے نتیجے میں دو فوجیوں اور گیارہ عرب مسافروں سمیت تیرہ ہلاکتیں ہوئیں۔اردن اور شام سے عرب رضاکار سیکڑوں کی تعداد میں فلسطین میں داخل ہونے لگے۔ان رضاکاروں میں سابق فوجی بھی تھے جنھوں نے مزاحمت کو علاقہ وار پلٹن کی سطح پر منظم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ستمبر تک بیس ہزار برطانوی سپاہ اس مزاحمت پر قابو پانے کے لیے میدان میں تھی۔ اکتوبر میں برطانیہ نے اردن ، عراق اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک سے مزاحمت کی آگ بجھانے کے لیے مدد کی درخواست کی۔تینوں ممالک نے فلسطینی قیادت سے بات چیت کا عمل دوبارہ شروع کرنے کے لیے ایجی ٹیشن روکنے کی اپیل کی۔فلسطینی قیادت نے اس درخواست کا احترام کرتے ہوئے گیارہ اکتوبر کو چھ ماہ سے جاری ہڑتال معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس فیصلے کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ مسلسل ہڑتال کے سبب کسان معاشی طور پر نڈھال ہو چکے تھے۔ مالٹے اور سنگترے کی فصل تیار تھی اور اسپین میں جاری خانہ جنگی کے سبب ترش پھلوں کی عالمی قیمت آسمان تک پہنچ گئی تھی۔ایسے میں فلسطینی مالٹے اور سنگترے کی اچھی قیمت مل سکتی تھی۔ گیارہ نومبر انیس سو چھتیس کو لارڈ ولیم پیل کی سربراہی میں ایک چھ رکنی رائل کمیشن فلسطینی بحران کا جائزہ لینے کے لیے لندن سے یروشلم پہنچا۔ پیل کمیشن نے جاری بے چینی کے بارے میں نتیجہ اخذ کیا کہ اسے برطانوی انتظامیہ کے لیے کام کرنے والے بیشتر عرب اہل کاروں بشمول ججوں کی حمایت حاصل ہے اور اس کے پھیلاؤ میں ہمسایہ عرب ریاستوں سے آنے والے رضاکاروں نے اہم کردار ادا کیا۔پیل کمیشن کی کارروائی کا عرب ہائر کمیٹی نے بظاہر بائیکاٹ کیا مگر ایک رہنما حاجی امین الحسینی اور یروشلم کے حکومت نواز عرب مئیر نے ذاتی حیثیت میں بیانات قلمبند کروائے۔ جب کہ یہودی قیادت پیل کمیشن سے تعاون کرنے نہ کرنے کے بارے میں ابتداً بٹ گئی مگر سرکردہ رہنما بن گوریان اورخائم ویزمین کا خیال تھا کہ ہمیں کمیشن کی سفارشات صیہونی مقاصد کے حصول کے لیے ناکافی اور غیر تسلی بخش ہونے کے باوجود ایک یہودی مملکت کے قیام کا سنگِ بنیاد سمجھ کے قبول کر لینی چاہییں۔ فلسطینی قیادت نے پیل کمیشن اور پھر اس کی رپورٹ کا مکمل بائیکاٹ کیا۔کچھ مورخ اسے ایک جذباتی فیصلہ قرار دیتے ہیں جس نے آگے چل کے فلسطینیوں کو خاصا نقصان پہنچایا۔مگر اس وقت کی عرب قیادت شاید بھانپ گئی تھی کہ کمیشن کی سفارشات یہود نواز ہوں گی۔  ( کہیں انیس سو اکیاسی میں جا کے اس خدشے کی تصدیق ہوئی جب اسرائیلی آرکائیوز سے پہلی بار انکشاف ہوا کہ بن گوریان نے پیل کمیشن کے بند کمرے کے اجلاسوں کی کارروائی اسمگل کروانے کا پیشگی انتظام کر رکھا تھا۔چنانچہ صیہونی قیادت کو ممکنہ سفارشات کا پیشگی اندازہ تھا۔اسی لیے بن گوریان اور خائم ویزمین دیگر جذباتی صیہونی دھڑوں پر مسلسل زور دیتے رہے کہ جو بھی سفارشات شایع ہوں انھیں فی الحال جوں کا توں قبول کر لیا جائے )۔ جب پیل کمیشن کی سفارشات سات جولائی انیس سو سینتیس کو باقاعدہ منظرِ عام پر آئیں تو عرب اکثریت آگ بگولا ہو گئی۔چنانچہ معطل مزاحمت زور شور سے شروع ہو گئی اور تاحدِ نگاہ خاک و خون نظر آنے لگا۔پیل کمیشن کی سفارشات میں ایسا کیا تھا جس نے سلگتی راکھ کو پھر سے شعلوں میں بدل دیا۔یہ عقدہ اگلے مضمون میں کھلے گا۔   ( جاری ہے ) (وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل