Monday, April 07, 2025
 

تعلیمی بورڈز کی تلاش کمیٹی اور چیئرمینز کی تقرری مشکوک ہوگئی

 



وزیر اعلی کی تحقیقاتی کمیٹی اور تلاش کمیٹی میں سے کون درست ، انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ کے ذریعے صوبے میں چیئرمین بورڈز کی تقرری کا عمل ہی مشکوک کردیا۔  ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف منسٹر انسپیکشن انکوائریز اینڈ ایمپلیمینٹیشن ٹیم ڈپارٹمنٹ ( CMIEandITD) کے نام سے معروف وزیر اعلی سندھ کی تحقیقاتی کمیٹی کے تحت  جاری ایک رپورٹ نے تعلیمی بورڈز کی "تلاش کمیٹی" search committee کی حیثیت انتہائی مشکوک کردی ہے۔  تلاش کمیٹی نے حال ہی میں سندھ بھر کے تعلیمی بورڈز میں چیئرمینز کی تقرری کے لیے امیدواروں کے انٹرویوز کرکے ان کے نام بطور چیئرمینز 7 مختلف بورڈز کے لیے وزیر اعلی کو بھجوائے اور ان ہی مجوزہ ناموں کی منظوری کے بعد بورڈز میں چیئرمینز کے عہدوں پر تقرری کا سلسلہ شروع ہوا جبکہ وزیر اعلی سندھ کی ہی تحقیقاتی کمیٹی نے حیدرآباد آباد بورڈ کے خلاف ہونے والی تحقیقات میں اسی تلاش کمیٹی  کے ایک اہم ترین رکن ڈاکٹر محمد میمن کے بھی دیگر افسران کے ساتھ ساتھ نتائج میں رد وبدل کا ذمے دار ٹھہرایا گیا اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی سفارش کی گئی۔ دوسری جانب ڈاکٹر محمد میمن کے تجاویز پر سندھ کے تعلیمی بورڈز میں چیئرمینز کا تقرر کیا جارہا ہے، وزیر اعلی سندھ کی تحقیقاتی کمیٹی کے اس عمل سے ناصرف تلاش کمیٹی متنازعہ ہوگئی ہے بلکہ سندھ میں چیئرمینز کی تقرری کا سارا عمل بھی سوالیہ نشان بن گی ہے اور عمومی طور پر سوال کیا جارہا ہے کہ وزیر اعلی کی تحقیقاتی کمیٹی اور تلاش کمیٹی میں سے آخر کون صحیح ہے کس کی تجاویز میرٹ پر ہیں۔ سندھ میں چیئرمینز بورڈز میرٹ پر لگائے گئے ہیں یا حیدرآباد بورڈ کے خلاف انکوائری درست خطوط پر ہوئی یے معاملہ صرف یہی نہیں رکا بلکہ تعلیمی بورڈز کے چیئرمینز کی تقرری کے لیے حکومت سندھ کے جس ڈپارٹمنٹ محکمہ  ہونیورسٹیز اینڈ بورڈ نے سمری وزیر اعلی سندھ کو منظوری کے کیے بھیجی۔ بعد ازاں  ازاں بعد اس سلسلے میں بیک وقت کئی چیئرمینز کی تقرری کے نوٹفکیشنز جاری کیے اس محکمے نے وزیر اعلی سندھ کی انکوائری کمیٹی کی سفارش پر عملدرآمد شروع کرتے ہوئے تلاش کمیٹی کے رکن ڈاکٹر محمد میمن کے خلاف کارروائی بھی شروع کردی اور محکمہ اینٹی کرپشن کو اس سلسلے میں ایف آئی آر درج کرنے کے لیے خط و کتابت کی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ تلاش کمیٹی کے رکن ڈاکٹر محمد میمن حیدرآباد بورڈ کے سابق چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ ایکسپریس نے اس سلسلے میں جب ان سے رابطہ کیا تو ان کی جانب سے حیرت اور افسوس کا اظہار کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’جب مجھے اس کمیٹی نے  بلایا تو بظاہر امتحانی نتائج میں رد وبدل کے ثبوت دکھائے لیکن کمیٹی نہیں ملی تھی بلکہ محض ایک شخص نے بطور رکن تحقیقاتی کمیٹی اپنا تعارف کرایا تھا۔‘‘ ڈاکٹر محمد میمن کا کہنا تھا کہ انکوائری 10 سال کی گئی جبکہ میں 6 سے 7 سال تک چیئرمین رہا میرے بعد مزید 3 چیئرمینز آئے لیکن کمیٹی نے میرج سوا کسی کا نام تجویز نہیں کیا۔ واضح رہے کہ وزیر اعلی سندھ کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں حیدرآباد تعلیمی بورڈ کے سابق چیئرمین محمد میمن، ناظم امتحانات  مسرور احمد زئی، آئی ٹی منیجر اعجاز خان اور جونیئر کلرک جاوید جام کے خلاف  نتائج میں تبدیلی اور ایوارڈ لسٹ اور مینوئل ٹیبلیشن کے برعکس کمپیوٹر ڈیٹا تیار کرنے پر ایف آئی  آر درج کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس کی منظوری وزیر اعلی سندھ کی جانب سے دی جاچکی ہے۔ اس رپورٹ میں آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس مزید تفتیش کے لیے نیب کراچی کو بھیجنے کی بات بھی کی گئی ہے جبکہ محکمہ بورڈز اینڈ یونیورسٹیز نے انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کے لیے چیئرمین، انکوائریز اینڈ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ ڈیپارٹمنٹ کو خط لکھ دیا ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل