Wednesday, April 23, 2025
 

ارتھ ڈے اور پاکستان

 



دنیا بھر میں کرہ ارض کا عالمی دن منایا گیا، اس دن کو ’’ انٹرنیشنل مدر ارتھ ڈے‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ عالمی یومِ ارض منانے کا بنیادی مقصد زمین کو درپیش ماحولیاتی چیلنجز کی جانب توجہ دلانا اور لوگوں میں قدرتی وسائل کے تحفظ کا شعور اجاگرکرنا ہے۔  دنیا کو موسمیاتی تبدیلی، بڑھتی ہوئی آلودگی، جنگلات کی کٹائی، پانی کی قلت اور قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے، جو نہ صرف انسانی زندگی بلکہ جنگلی حیات اور پورے ماحولیاتی نظام کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ دنیا میں صنعتی ترقی اور قدرتی وسائل کے استعمال میں بے احتیاطی نے موجودہ دور میں زمین پر رہنے والے ہر جاندار کی زندگی داؤ پر لگا دی ہے۔ چاہے وہ جانور ہوں یا پودے۔ 33فیصد سے زائد زمین پہلے ہی انحطاط کا شکار ہوچکی ہے اور اگر یہ انحطاط 2050 تک اسی رفتار سے جاری رہا تو 90 فیصد زمین اپنی فطری طاقت اور زرخیزی کھو دے گی۔ زمین کی فطری طاقت اور زرخیزی تباہ ہونے کی صورت میں فصلوں کی پیداوار میں 50فیصد تک کمی ہوسکتی ہے۔  زمین پر موجود تمام جانوروں اور پودوں کی موجودگی، اس زمین اور خود انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کسی ایک جانور یا پودے کی نسل بھی اگر خاتمے کو پہنچی تو اس سے پوری زمین کی خوراک کا دائرہ (فوڈ سائیکل) متاثر ہوگا اور انسانوں سمیت زمین پر موجود تمام جانداروں پر بدترین منفی اثر پڑے گا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ گزشتہ 50برسوں میں دنیا بھر میں مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔ مزید برآں، معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں میں پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں، سمندروں سمیت ہر مقام کے جانور اور ہاتھی، گوریلا سے لے کر گدھ تک شامل ہیں۔ درختوں اور جنگلات کی صورتِ حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں، جن کے بارے میں اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال 1 کروڑ 87لاکھ ایکڑ رقبے پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔ اسی تناظر میں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ممالک میں ہوتا ہے۔ ہم نے تباہ کن سیلابوں، شدید گرمی کی لہروں اور طویل خشک سالی کا سامنا کیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہماری حکومت فعال طور پر ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے جو تمام شعبوں میں موسمیاتی عمل کو مربوط کرتی ہیں، ریچارج پاکستان جیسے پروگرام ماحولیاتی نظام کو بحال کر رہے ہیں۔  درحقیقت پاکستان کو نہ صرف واٹر سیکیورٹی کے خطرات لاحق ہیں بلکہ زراعت، توانائی اور معمولات زندگی پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں گلیشیئرز جیسے اہم قدرتی ذخائر کا تحفظ ضروری ہے۔ پاکستان، جو قدرتی حسن، بلند پہاڑوں اور متنوع ماحولیاتی نظام کا حامل ملک ہے، شدید ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ آلودگی میں گھرے ہوئے شہر، تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز اور پانی کی قلت جیسے مسائل ایک تلخ حقیقت بن چکے ہیں۔ گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں صرف ایک فیصد کا حصے دار ہونے کے باوجود بھی پاکستان، گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق ماحولیاتی بحران کا شکار ہونے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں یہ ماحولیاتی بحران ایک دن میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ دہائیوں سے جاری تیز شہری ترقی، جنگلات کی کٹائی، اور صنعتی آلودگی نے فضائی اور آبی معیار کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی نے ان مسائل کو مزید سنگین بنا دیا ہے، جس کے باعث شدید موسمی تغیرات جیسے سیلاب، طویل خشک سالی اور شدید گرمی کی لہریں عام ہو چکی ہیں، لیکن ان مشکلات کے باوجود، پاکستان خاموش تماشائی نہیں ہے۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ پاکستانی حکومت اور پاک فوج ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے بھرپور اقدامات کر رہی ہے تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور پائیدار مستقبل یقینی بنایا جا سکے۔ دریائے سندھ کے ماحولیاتی نظام کو بحال کرنے کے لیے Living Indus Initiative منصوبہ شروع کیا گیا ہے، جو اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ فلیگ شپ پراجیکٹس میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ پلاسٹک کی آلودگی کم کرنے کے لیے حکومت نے پلاسٹک کے استعمال پر بتدریج پابندی اور صنعتی فضلے کے سخت قواعد و ضوابط متعارف کرائے ہیں۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں گرین اسپیس کو بڑھانے کے لیے اربن فاریسٹری (Urban Forestry) کے منصوبے متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ لاہور میں میاوا کی فارسٹ (Miyawaki Forest) کے طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے کئی چھوٹے جنگلات لگائے گئے ہیں، جو کم جگہ میں زیادہ درخت اگانے کا ایک موثرطریقہ ہے۔ ان سب اقدامات کے ساتھ ساتھ زمین کو مستقل طور پر کچرے اور آلودگی سے محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ ماحولیاتی آلودگی اور کچرے کے بڑھتے مسائل کے پیش نظر، دنیا بھر میں زیرو ویسٹ مینجمنٹ کا تصور فروغ پا رہا ہے، جس کا مقصد کچرے کی پیداوار کو کم کرنا، قدرتی وسائل کے تحفظ اور ماحول کو صاف رکھنے میں مدد دینا ہے۔ بے تحاشا کچرا، خاص طور پر پلاسٹک، زمین، پانی، اور ہوا کو آلودہ کرتا ہے، جس سے انسانی صحت اور جنگلی حیات متاثر ہوتی ہے۔ Land Fills  اور کچرے کو جلانے سے خطرناک گیسیں خارج ہوتی ہیں جو گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کا باعث بنتی ہیں۔ کئی ممالک کچرے سے توانائی اور کھاد بنا رہے ہیں، جب کہ پاکستان میں، خاص طور پر کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں، یہ مسئلہ شدت اختیار کر رہا ہے۔ زیرو ویسٹ حکمتِ عملی کے ذریعے ہم کم اشیا خرید کر، ری سائیکلنگ اور دوبارہ استعمال کو فروغ دے کر کچرے کی مقدار کم کر سکتے ہیں، جیسے پلاسٹک کی جگہ اسٹیل اور مٹی کے برتنوں کا استعمال کرنا اور فاضل صنعتی مواد کو دوبارہ قابل استعمال بنانا۔ اسی سلسلے میں حکومت نے پلاسٹک بیگز پر پابندی بھی لگائی ہے۔ تاہم، ان کوششوں کی کامیابی عوامی تعاون پر منحصر ہے۔ نصاب میں ماحولیاتی تعلیم شامل کرنے کی اشد ضرورت ہے، اشیا کو دوبارہ قابل استعمال بنانے، ری سائیکلنگ، فضلہ مینجمنٹ اور پائیدار وسائل کے استعمال کے بارے میں آگاہی سمیت قابل تجدید توانائی کے استعمال اور ماحول موافق تعمیرات کو فروغ دیا جاتا ہے۔ یہ اقدامات ملکی سطح پر ماحول دوست رویوں کے فروغ دینے اور پائیدار ترقی میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔زمین ہماری آیندہ نسلوں کی امانت ہے اور اگر ہم نے آج اس کی حفاظت کے لیے اقدامات نہ کیے تو آنے والے وقت میں ہمیں ناقابلِ تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل