Sunday, June 29, 2025
 

’’بھارت کا حکمران طبقہ کشمیریوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتا ہے‘‘

 



مقبوضہ جموں و کشمیر کے نوجوان تاریخ دانوں میں حفصہ کنجوال ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ آپ امریکی شہر، ایسٹن،پنسلوانیا میں واقع لافائیٹ کالج میں جنوب ایشیائی تاریخ کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ایک منفرد کتاب ’’کالونائزنگ کشمیر: اسٹیٹ بلڈنگ انڈر انڈین آکوپیشن( Colonizing Kashmir: State-building Under Indian Occupation) (طبع شدہ اسٹینفورڈ یونیورسٹی پریس، 2023ء) کی مصنفہ ہیں۔ یہ تحقیقی دستاویز کشمیر میں 1950-1960ء کی دہائی کے دوران بھارت ریاست کی تعمیر کے نوآبادیاتی طریقوں کا ایک تاریخی بیان اور مکمل تجزیہ پیش کرتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل امریکی وینڈربلٹ یونیورسٹی میں انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کے کشمیری طالب علم، سالک بشارت گیلانی اور یوکرین کے دارالحکومت، کئیف میں واقع یونیورسٹی، National University of Kyiv-Mohyla Academyکے شعبہ ادب سے پی ایچ ڈی کرتی یولیا کولش نے ریاست جموں و کشمیر کے ماضی و حال کے بارے میں حفصہ کنجوال سے ایک انٹرویو کیا۔اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔  یہ انٹرویو جموں و کشمیر میں بھارت کی نوآبادیاتی سیاست کی پیچیدگیوں کو بیان کرتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے ارتقا کی تفصیل کے علاوہ یہ انٹرویو بالترتیب کشمیر اور یوکرین پر بھارت اور روس کے قبضے کے طویل منصوبوں کے درمیان مماثلت اور فرق بھی واضح کرتا ہے۔ اس موازنے سے پتا چلتا ہے کہ ثقافتی، سیاسی اور نظریاتی طور پر مختلف ہونے کے باوجود کشمیر اور یوکرین سامراجی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کی نمایاں طور پر ایک جیسی تاریخ رکھتے ہیں جنہوں نے دونوں خطوں میں براہ راست تشدد کو استعمال کیا ، بشمول فوجی حملے، بڑے پیمانے پر قتل اور ساختی جبر، جیسے سنسر شپ، مقامی آبادی کی تذلیل اور پروپیگنڈا۔ ٭٭ سوال : یوکرین میں بہت کم لوگ کشمیر کی سیاسی صورتحال سے واقف ہیں اور ان کی سمجھ کی حد کا خلاصہ اس جملے میں کیا جا سکتا ہے، "وہاں انسان کی زندگی بہت زیادہ محفوظ نہیں۔" علم کی اس کمی کی وجوہ جاننے سے پہلے کیا آپ ہمیں ایک مقامی کشمیری خاتون اور مورخ کے طور پر اپنے نقطہ نظر سے جدید کشمیر کا مختصر تاریخی جائزہ پیش کر سکتی ہیں؟ کشمیری سیاست کی پیچیدہ حرکیات سمجھنے کے لیے ہمارے قارئین کو کن اہم عوامل یا واقعات کا علم ہونا چاہیے؟ جواب: میں جدید کشمیر کی کہانی1846ء میں امرتسر کے معاہدے سے شروع کروں گی۔ اس سال کشمیر کی زمین اور عوام کو برطانوی نوآبادیاتی حکومت نے ڈوگروں کو بیچ دیا، جو جموں کے علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک ہندو جنگجو خاندان تھا۔ معاہدہ امرتسر پہلی اینگلو سکھ جنگ میں ڈوگروں کی مدد کے بدلے میں تیار کیا گیا تھا جس کے ذریعے انگریزوں نے پنجاب کے پڑوسی علاقے پر قبضہ کرنے اور سکھ سلطنت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ اس وقت کشمیر وسیع تر سکھ سلطنت کے اندر ایک صوبہ تھا۔ انگریزوں کی طرف سے کشمیر کی فروخت اور ڈوگرہ کے پڑوسی علاقوں میں توسیع کے نتیجے میں ریاست جموں و کشمیر وجود میںآئی۔ ریاست کے انتظامی اصطلاحات کی بہتر وضاحت کے لیے میں آپ کو برصغیر میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت کا ایک مختصر جائزہ پیش کرتی ہوں۔ برصغیر کے کچھ حصے (جدید دور کے بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش ) جو براہ راست برطانوی راج کے تحت تھے، برٹش انڈیا کہلاتے تھے۔ اور پھر شاہی ریاستیں تھیں، ساڑھے پانچ سو سے زیادہ جن پر مقامی بادشاہوں کی حکومت تھی۔ جموں و کشمیر بھی ایک شاہی ریاست تھی اور اس کے اندر آبادی کی اکثریت مسلمان تھی۔گو اس خطے میں بلاشبہ بدھ، سکھ اور ہندو اقلیتی برادریاں بھی تھیں۔ اس شاہی سٹیٹ کی منفرد بات یہ تھی کہ کشمیر کے حکمران ڈوگرہ مہاراجا جیسے گلاب سنگھ، رنبیر سنگھ، پرتاپ سنگھ اور ہری سنگھ ہندو تھے۔گویا یہ حالت تھی کہ حکمران تو ہندو تھا اور آبادی کی اکثریت مسلمان تھی۔ جیسا کہ مریدو رائے جیسے مورخین نے دستاویز کیا ہے، ڈوگروں نے اپنے اقدامات اور احکامات سے ریاست کو ایک ہندو ریاست کے طور پر چلایا۔انھوں نے کشمیر کی مسلم آبادی کو خاص طور پر پسماندہ کردیا۔ یہ زیادہ تر ایک استخراجی سیاسی معیشت کے ذریعے کیا گیا۔ اس وقت کشمیری مسلمان زیادہ تر کسان، مزدور اور کاریگر تھے۔ ان پر بہت زیادہ ٹیکس لگایا گیا۔ وہ ان پڑھ تھے۔ انہیں بیگار یا جبری مشقت میں حصہ لینے پر مجبور کیا گیا۔ جبکہ ریاست کی طرف سے پیش کردہ کوئی بھی مراعات یا مراعات تقریباً خصوصی طور پر جموں اور وادی کشمیر میں ہندو برادریوں کو دی گئیں۔ اس جابرانہ حکومت کے خلاف کشمیری مسلمانوں نے 1920ء کی دہائی کے اوائل میں متحرک ہونا شروع کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان میں اس وقت بیشتر علاقوں میں ہندو ، مسلمان اور دیگر اقوام کے راہنما مل کر انگریزوں کے خلاف تحریک چلا رہے تھے۔ لیکن کشمیر میں مسلمانوں کی تحریک ہندو شاہی حکمرانوں کے خلاف تھی تاکہ وہ ڈوگرہ بادشاہت سے چھٹکارا پا سکیں۔چناں چہ کشمیری مسلمان متحرک ہونا شروع ہوتے ہیں۔ وہ ایسی تنظیمیں بنانے لگتے ہیں جو ابتدا میں مسلمانوں کے لیے حکومت میں بہتر نمائندگی، روزگار اور تعلیم چاہتی تھیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ ڈوگرہ بادشاہت کے بعد مستقبل کا تصّور کرنے لگیں۔ 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم ہوگئی۔بھارت اور پاکستان کی دو نئی قومی ریاستوں کو آزادی دی گئی۔ ایک شاہی ریاست کے طور پر جموں و کشمیر کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ کس ملک میں شامل ہو گا۔اس ضمن میں جغرافیہ کے ساتھ ساتھ خطے کی آبادی بھی غور کرنے کے لیے اہم عوامل تھے۔مہاراجا ہری سنگھ اپنی ریاست کو بھارت اور پاکستان ، دونوں میں شامل نہیں کرنا چاہتا تھا۔اس کی خواہش تھی، اس کا اقتدار جاری رہے۔ مہاراجا کا لیت ولعل دیکھ کر 1947ء کے موسم بہار میں ریاست جموں و کشمیر کے اندر پونچھ کے علاقے میں مسلمانوں نے بغاوت شروع کر دی۔ مہاراجہ نے بغاوت کو کچل دیا اور جموں میں خاص طور پر مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ 1947ء کا جموں قتل عام خطّے اور دور جدید میں لکھی گئی بھارت قوم پرست تاریخ کی کتب سے مٹ گیا ہے۔ اس کے بجائے جس چیز پر توجہ مرکوز کی گئی وہ یہ ہے کہ اس قتل عام اور جموں کے خطے میں مسلمانوں کے اندھا دھند قتل کی وجہ سے شمال مغربی پاکستان سے پٹھان مسلمان اپنے نقطہ نظر سے اس خطے کو ظالمانہ ڈوگرہ راج سے آزاد کرانے کے لیے کشمیر آ گئے۔ کشمیر میں پٹھانوں کی آمد کے نتیجے میں مہاراجا گھبرا جاتا اور حکومت ہند کی طرف رجوع کرتا ہے۔وہ اسی وقت فوجی امداد دینے کا وعدہ کرتی ہے جب مہاراجا فوری طور پر الحاق کی ایک دستاویز پر دستخط کر دے۔ یہ دستاویز جو’’ Instrument of Accession ‘‘کہلاتی ہے، ایک متنازع دستاویز ہے۔ مہاراجا نے کب اس پر دستخط کیے، کیا اس نے صحیح معنوں میں اس پر دستخط کیے اور کن شرائط کے تحت اس دستاویز پر دستخط کیے… ان سب سوالات پر سوالیہ نشان لگا ہے۔ اس کے باوجود انسٹرومنٹ آف ایکسیشن (جس پر 26 اکتوبر 1947ء کو دستخط کیے گئے) وہ اہم قانونی دعویٰ ہے جس کی بنیاد پر بھارت یہ دعوی کرتا ہے کہ ریاست جموں وکشمیر اس کا حصہ ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ اس وقت کے گورنر جنرل بھارت، لارڈ ماونٹ بیٹن کی طرف سے دستاویز کی منظوری کے وقت یہ کہا گیا تھا ’’ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ مقامی (کشمیری) عوام کے حوالے سے کیا جائے گا۔‘‘ الحاق کے دستاویز پر دستخط ہونے کے بعد بھارتی فوج کشمیر میں چلی گئی (کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج کی بعض رجمنٹیں پہلے سے وہاں موجود تھیں)۔ اس عمل کو بہت سے کشمیری، خاص طور پر کشمیری مسلمان کشمیر پر بھارتی قبضے کی شروعات کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ جیسے ہی بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہوتی ہے، پاکستان کی فوج بھی علاقے میں آ جاتی ہے۔یوں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے (چار میں سے پہلی)۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 47جو 21 اپریل 1948ء کو منظور کی گئی تھی، اس نے جنگ کا خاتمہ کیا۔ بھارت درحقیقت یہ سوچ کر مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے گیا تھا کہ یہ عالمی ادارہ بھارت کا ساتھ دے گا، لیکن اقوام متحدہ نے اس کے بجائے ریاست میں امن قائم ہونے کے بعد رائے شماری کرانے کا حکم دیا تاکہ جو ریاستی عوام چاہتے ہیں، اسی پر عمل درآمد ہو۔ رائے شماری کا مطالبے نے ہی بیسو یں صدی کے دوسرے نصف حصے میں مسئلہ کشمیر کو تشکیل دیا۔ اس نے کئی طریقوں سے ان متنوع سیاسی تخیلات کو بھی جنم دیا جن کا کشمیری تصّور کر سکتے تھے۔برصغیر کی تقسیم کے بعد ریاست جموں و کشمیر کا خطہ تین نئے ممالک، بھارت، پاکستان اور چین کے درمیان تقسیم ہو گیا۔ بھارت اس خطے کا50 فیصد سے کچھ زیادہ لیتا ہے۔ پاکستان تقریباً 30 فیصد اور باقی چین لے لیتا ہے۔ لہٰذا نقشے کے لحاظ سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کے زیر کنٹرول ہیں۔ جموں ، وادی کشمیر کا بیشتر علاقہ اور لداخ بھارتی کنٹرول میں ہیں۔ چین اکسائی چن کے علاقے کو کنٹرول کرتا ہے۔ بھارت کے حکمرانوں نے شروع دن سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ماتحت حکومت اور انتظامی نظام کا ڈھانچا کھڑا کر دیا۔ علاقے کے مسلمان لیڈروں کو اپنا ہم نوا بنانے کے لیے ان سے وعدہ کیا گیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے کو خودمختاری دے دی جائے گی۔ اس لیے مسلم کشمیری لیڈر بھارت کے حامی بن گئے۔ بھارت نے اپنے وعدے کو بھارتی آئین کے آرٹیکل370 میں شامل کیا لیکن یہ خودمختاری حقیقت میں نہیں دی گئی۔  بھارت نے 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں ماتحت ریاستی حکومت اور "خودمختاری کے وعدے" کا استعمال جموں و کشمیر میں اپنے قبضے کو مضبوط کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا کہ کشمیریوں کا حق خودارادیت مٹانے کی خاطر استصواب رائے (یعنی رائے شماری ) یا کسی بھی قسم کا طریقہ کار ختم کر دیا جائے۔ یہ دھوکے بازی 1980ء کی دہائی کے اواخر میں واضح ہوئی جب بھارتی حکمرانی کے خلاف کشمیریوں کی مسلح بغاوت اور عوامی تحریک آزادی کاآغاز ہوا۔ مسلح بغاوت اور اس کی طرف بین الاقوامی توجہ مبذول ہونے کے نتیجے میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی بے پناہ بڑھ گئی۔اس وقت بھی وہاں پانچ سے سات لاکھ بھارتی فوجی پاکستان کے ساتھ سرحد پر اور کشمیر کے وسطی علاقوں میں تعینات ہیں۔  خاص طور پر 1990ء کی دہائی بے حد پْرتشدد تھی۔ نتیجے میں انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیاں ہوئیں … قتل، عصمت دری، جبری گمشدگیاں، محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں، تشدد، قتل عام …یہ سب کچھ بھارتی فوج کے ذریعے ہوا جسے ریاست میں اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کی مکمل چھوٹ حاصل تھی۔ اس دوران یہ بھی ہوا کہ وادی کشمیر کی زیادہ تر ہندو اقلیتی آبادی خصوصاً کشمیری پنڈت خوفزدہ ہونے کے باعث ہجرت کر گئے۔ کشمیریوں کی مسلح بغاوت کو بنیادی طور پر 2000ء کی دہائی کے اوائل میں کچل دیا گیا تھا۔ لیکن 2008ء سے اور اس کے بعد دوبارہ وادی کشمیر میں بھارت کے خلاف وقتاً فوقتاً بڑے پیمانے پر عوامی تحریکیں چلتی رہی ہیں۔ ہر بار احتجاج کے نتیجے میں کشمیریوں کی ہلاکتیں، قتل عام اور انسانی حقوق کی اضافی خلاف ورزیاں ہوئیں۔ وقت ہمیں 2019ء میں لے آتا ہے جب بھارتی وزیراعظم، نریندر مودی نے دوسری مدت کے آغاز میں کشمیر کو آرٹیکل 370 کے تحت دی گئی نیم خود مختاری ختم کر دیا۔ آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے سے پہلے کشمیر میں تمام قسم کے مواصلات کو منقطع کر دیا گیا اور اضافی مسلح افواج کو تعینات کیا گیا۔ جب کہ کشمیریوں کو مہینوں تک باقی دنیا سے کاٹ دیا گیا۔ قوانین میں تبدیلی اس لیے کی گئی تاکہ بھارتی باشندے زمین خرید کر کشمیر میںآباد ہو سکیں۔ اس طرح کشمیر میں بھارت کے آباد کار نوآبادیاتی منصوبے کو مزید آگے بڑھایا گیا۔  اس طرح اب ریاست جموں وکشمیر میں آبادیاتی تبدیلی کے حقیقی اور شدیدخدشات جنم لے چکے جو کشمیریوں، خاص طور پر مسلمانوں کو مزید بے دخل کر دیں گے۔یہ کشمیریوں کے مستقبل کے سلسلے میں حق خود ارادیت کے کسی بھی امکان سے مکمل طور پر انکار کرنے کے طریق کار کے طور پر کام کرسکتے ہیں۔ سوال:کیا آپ کشمیرمیںآزادی کی تحریک کے اہم سنگ میلوں اور مراحل کو اجاگر کر سکتی ہیں اور اس تحریک میں شامل اہم تنظیموں اور شخصیات کی نشاندہی کر سکتی ہیں؟ جواب : میں کشمیر کی تحریک کو بنیادی طور پر حق خود ارادیت کی تحریک کے طور پر دیکھتی ہوں کیونکہ ہر لحاظ سے یہ جدوجہد مجموعی طور پر کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دینے کی جدوجہد رہی ہے۔ جہاں تک آزادی کا تعلق ہے، کشمیر کے لیے آزادی کیا ہے، اس کے مختلف تصّورات موجود ہیں۔ 1950ء کی دہائی میں آل جموں و کشمیر پلیبسائٹ فرنٹ اور دیگر چھوٹی جماعتوں نے خطے میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ رائے شماری کا مطالبہ کرنا شروع کیا۔ پھر ایک بار جب آپ 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں پہنچتے ہیں، تو کئی گروہ ابھرتے ہیں جن کے نظریات رائے شماری کے محاذ سے مختلف ہیں۔ ان گروہوں میں جماعت اسلامی کشمیر کی طرح کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے تاریخی طور پر کشمیر کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کی کوشش کی ہے۔ ۷۰ء کی دہائی میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (JKLF) کے نام سے ایک گروپ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے باہر، سرحد کے دوسری طرف اور برطانیہ میں بنایا گیا۔ یہ 90ء کی دہائی کے دوران مسلح تحریک آزادی میں نمایاں ہوا۔ جے کے ایل ایف نے کشمیر کے لیے ایک آزاد قومی ریاست کا تصّور پیش کیا اور اس گروپ کا ایک مسلح ونگ بھی تھا۔ پاکستان کا بنیادی حامی مسلح گروپ حزب المجاہدین ہے۔ آزادی کی وسیع تر تحریک کے اندر موجود مشکلات میں سے ایک یہ ہے کہ مسابقتی نظریات کے حامل آزادی پسند گروہوں نے کبھی کبھی نوآبادیاتی طاقت (بھارت) سے زیادہ ایک دوسرے کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں کشمیر میں تمام مختلف سیاسی جماعتوں نے آل پارٹیز حریت کانفرنس کے نام سے ایک متحدہ تنظیم تشکیل دی گو وقت کے ساتھ ساتھ اس میں پھوٹ پڑ گئی۔ 2016ء میں تین رہنماوں نے خاص طور پر مشترکہ مزاحمتی قیادت تشکیل دی۔ ان تین رہنماوں میں سے ایک یاسین ملک تھے جو جموں کشمیر لبریشن فرنٹ سے وابستہ تھے۔ آج وہ دہلی کی بھارتی تہاڑ جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ کانفرنس کے ایک اور رہنما سید علی شاہ گیلانی تھے جنہوں نے عزم کے ساتھ کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔ برسوں تک گھر میں نظربند رہنے کے بعد 2021ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اور پھر میر واعظ عمر فاروق ہیں جو ایک مذہبی رہنما اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے موجودہ چیئرمین ہیں۔  آزادی کی دیگر تحریکوں کی طرح زیادہ تر ریاست جموں وکشمیر میں بھی اس حوالے سے جدوجہد ہوئی ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں حقیقت میں عملی طور پر کیسے کام کر سکتی ہیں کیونکہ انہیں بھارتی ریاست نے مسلسل مجرمانہ قرار دیا ہے۔ ان گروہوں کے کئی رہنما کئی سال سے گرفتار اور قید ہیں۔ کئی قتل بھی ہو چکے۔ بھارتی ریاست کی مسلط کردہ پابندیوں کے علاوہ اس معاملے میں بھی کشمیری لیڈروں کے مابین تنازعات ہیں کہ وہ بھارت سے کس حد تک گفت و شنید کرنا چاہتے ہیں۔ سوال : مذہبی شناخت کشمیر میں مقامی سیاست پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے اور کیا وہاں کوئی غالب مذہبی اتحاد ہے جو قومی شناخت پر فوقیت رکھتا ہے؟آزادی کی جدوجہد میں مذہبی اقلیتوں کا کیا کردار ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر میں کافی سکھ اور ہندو (پنڈت) آبادی ہے۔ بھارتی ریاست کے مظالم نے ان پر کیا اثر کیا اور انہوں نے اس کا کیا جواب دیا ؟ جواب : میں سمجھتی ہوں کہ مذہبی شناخت کشمیری سیاست میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور اس میں بھی کہ نوآبادیاتی قبضہ مجموعی طور پر کیسے کام کرتا ہے۔ مذہبی شناخت کو حکمران حکومتوں نے ، وہ خواہ ڈوگروں کی ہوں یا بھارتی حکمرانوں کی ، کشمیری معاشرے میں تفرقہ پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ یقیناً نسلی شناخت کی لکیریں بھی کھینچی جاتی ہیں لیکن میرے خیال میں کشمیر میں’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی زیادہ تر مذہبی اور علاقائی خطوط پر استوار ہوئی ہے۔ اور ایسا کیوں ہے ؟اس کا ایک حصہ یہ ہے کہ ریاست کی سیاسی معیشت اور ڈوگروں کے ماتحت حقوق کا انکار بھی مذہبی اختلافات پر چلتا تھا۔ اسی طرح بعض طبقوں کو جو مراعات دی گئیں، وہ بھی مذہبی طور پر متعین تھیں۔ ریاست میں مسلمان اکثریت رکھنے کے باوجود ہندو ڈوگرہ حکومت کے مظالم کا شکار رہے۔اس لیے وہ قدرتاً بھارتی حکومت کے بھی مخالف ہیں جو بنیادی طور پر ہندو ہے۔ چونکہ اسلام میں بت پرستی کفر ہے، اس لیے کشمیری مسلمان کبھی ہندوؤں میں گھل مل نہیں سکے۔ اس عرصے میں جس پر میری تحقیق مرکوز ہے، 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں کشمیر پر حکومت کرنے والے بھارتی حکومت کے ماتحت مقامی مسلم حکمران جانتے تھے کہ کشمیری مسلمانوں کو انڈین یونین میں ضم کرنا مشکل ہو گا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ مسلم آبادی پاکستان سے متاثر ہو کر اس کی طرف جھک سکتی ہے جو نہ صرف ایک اسلامی جمہوریہ ہے بلکہ رائے شماری کے منظر نامے میں کشمیریوں کو دوسرا آپشن بھی دیتا ہے۔  پاکستان سے دور رکھنے کے لیے بھارت اور اس کی موکل ریاستی حکومتوں نے کشمیری مسلمانوں کو کچھ مراعات دیں اور ایک کمیونٹی کے طور پر انہیں بااختیار بنایا۔ مگر اس وجہ سے کشمیری مسلمانوں اور کشمیری پنڈتوں/ہندووں کے درمیان تناو پیدا ہو گیا ۔ان میں سے زیادہ تر اعلیٰ ذات کے برہمن تھے اور تاریخی طور پر اقتدار اور مراعات کے عہدوں پر رہے تھے۔ ملازمت، انتظامی خدمات اور تعلیم کے سلسلے میں جو مراعات کشمیری مسلمانوں کو دی گئیں ، اس نے مسلمانوں اور پنڈتوں کے درمیان تناو پیدا کر دیا کیونکہ پنڈتوں کو لگا ، ان کی سابقہ مراعات چھینی جا رہی ہیں۔ ماضی کی ڈوگرہ حکومتوں میں زیادہ تر پنڈتوں نے اپنی سیاسی خواہشات کو کشمیری مسلمانوں سے مختلف دیکھا تھا۔ اسی طرح نئے حالات میں بیشترکشمیری پنڈتوں نے بھارتی جمہوریہ کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ کر لیا۔ جبکہ زیادہ تر کشمیری مسلمانوں نے خود کو پاکستان یا آزادی کی تحریک کے ساتھ جوڑ دیا۔ اس لحاظ سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی زیادہ تر مسلمانوں کی رہی ہے، حالانکہ یقیناً کچھ پنڈت اور دیگر مذہبی برادریوں کے لوگ بھی اس تحریک کا حصہ رہے ہیں۔ ایک اور عمل جو حکمرانوں نے مذہبی برادریوں کے درمیان دراڑ کو برقرار رکھنے کے لیے تاریخی طور پر اختیار کیا ،وہ یہ ہے کہ انھوں نے کشمیری عوام کی وسیع تر جدوجہد کمزور کرنے کے لیے کشمیر میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کی کارروائیوں کا استعمال کیا۔ اس کی ایک مثال2000 ء کا چٹی سنگھ پورہ قتل عام ہے جس میں سکھ دیہاتیوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ چٹی سنگھ پورہ پر جو سکھوں کا اکثریتی گاوں ہے، اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے ہائی پروفائل دورے سے قبل "نامعلوم قوتوں" نے حملہ کیا تھا۔ بھارتی ریاست نے ان حملوں کا ذمہ دار ’’کشمیری باغیوں‘‘ کو ٹھہرایا لیکن سکھ برادری کے ارکان اور علاقے میں رہنے والے لوگوں نے بڑے تیقن سے کہا کہ تحریک آزادی کشمیر کمزور کرنے اور باغیوں کو عالمی سطح پر دہشت گرد کے طور پر پیش کرنے کے لیے یہ قتل عام بھارتی افواج نے کرایا ہے۔ اس طرح اقلیتوں کے مفادات کو ہوا دے کر بھارتی ریاست اکثر ان کو مزید نقصان پہنچاتی ہے۔ کشمیر میں مذہبی اقلیتوں کے درمیان عدم تحفظ پیدا کرنے کی خاطر ان کے اور مسلم اکثریت کے درمیان دشمنی کے بیج بوئے گئے۔ مذید براں یہ عمل وسیع تر عالمی اسلامو فوبیا دھارے کے پیش نظر بھی نمایاں ہو گیا۔ سوال : کیا کشمیری زبان مقامی آبادی میں سیاسی اظہار اور جدوجہد کے ایک ذریعے کے طور پر کوئی اہم کردار ادا کرتی ہے؟ جواب : میرے خیال میں آزادی کشمیر کی تحریک کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ضروری نہیں، اس نے ان خصوصیات کو پیش کیا ہو جو اکثر قومی آزادی کی تحریکوں، زبان، جھنڈا یا یہاں تک کہ دیگر ثقافتی کاموں کو متحرک کرتی ہیں۔ بلاشبہ میں سمجھتی ہوں کہ کشمیریوں کے لیے زبان اہم ہے، لیکن اسے کشمیریوں کی سیاسی جدوجہد میں نمایاں حیثیت حاصل نہیں جیسی کہ مثال کے طور پر مشرقی پاکستان کے معاملے میں بنگلہ کو مل گئی تھی اور جو بالاخر بنگلہ دیش بن گیا۔  ایک چیز جو میں نے اپنی تحقیق کے دوران نوٹ کی وہ یہ ہے کہ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں کشمیری اشرافیہ اور اعلیٰ طبقے کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں کے لوگوں کے ایک بڑے حصے نے اس نظریے کو اندرونی طور پر پیش کیا کہ کشمیری ایک پسماندہ زبان ہے اور اس میں حقیقتاً جدیدیت کا کوئی محرک موجود نہیں۔ چونکہ اس وقت کشمیری لوگوں کے ساتھ ساتھ اس خطے کا انتظام کرنے والی کلائنٹ حکومتیں ریاست کو جدید بنانے میں دلچسپی رکھتی تھیں، اس لیے انہوں نے اردو اور انگریزی کو جدید زبانوں کے طور پر دیکھا جنھیں لوگوں کو سیکھنے کی ضرورت تھی۔  کشمیریوں کو انتظامی طور پر ثقافتی دائرے میں چھوڑ دیا گیا۔ اور ہاں، کشمیری زبان میں لوک روایات کو جمع کیا گیا، اس میں تاریخ اور کچھ لٹریچر لکھا گیا لیکن اس زبان کو حقیقتاً ہندوستانی ریاست کے سیاسی خطرے کے طور پر نہیں دیکھا گیا۔ مگر یہ خیال ممکنہ طور پر تبدیل ہو سکتا ہے کیونکہ آج بھارت میں ہندو قوم پرست کشمیر میں ہندی کو مسلط کرنے اور مقامی زبانیں کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سوال : پچھلی ایک دہائی یا اس سے زیادہ عرصے کے دوران مقبوضہ کشمیر کے دائمی ظم وجبر والے ماحول میں صنفی حرکیات پر کافی علمی توجہ دی گئی۔ یہ بتائیے، خواتین اور دیگر صنفی اقلیتوں نے آزادی کی جدوجہد میں کس طرح حصہ ڈالا ؟اور خواتین نے بھارتی ظلم سے نبردآزما مردوں کی کیا مدد کی؟ جواب : تمام نوآبادیاتی دستاویز میں سیاق و سباق کے اندر، تاریخی طور پر اور یہاں تک کہ اس وقت بھیایک بہت ہی ملتے جلتے سانچے کا استعمال کیا جاتا ہے جس کے تحت نوآبادی حکومت اکثر اپنے آپ کو عورتوں اور صنفی اقلیتوں کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کرتی ہے۔ لیکن کشمیری خواتین اور صنفی اقلیتوں نے بھارت کے قبضے کو جبر کی بنیادی وجہ قرار دے کر اس نجات دہندہ ذہنیت کو مستقل طور پر چیلنج کیا ہے اور جس سے دیگر جبر بھی جڑے ہوئے ہیں۔  کشمیری خواتین نے مسلسل احتجاجی مظاہروں میں حصہ لے کر، کشمیری جنگجووں کی حفاظت کر کے اور تنظیمیں تشکیل دے کر تاریخی طور پر جدوجہدآزادی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔مثال کے طور پر لاپتا کشمیریوں کے والدین کی تنظیم جس نے بھارتی ریاست کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دی اور احتجاج کیا۔ اس نے ریاستی مظالم سے متاثر ہونے والے خاندانوں کی مدد کے ذرائع بھی تلاش کیے۔ کشمیری خواتین کو بھی ریاستی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارتی فوج نے عصمت دری اور جنسی تشدد کو نہ صرف کشمیری خواتین بلکہ کشمیری مردوں کے خلاف بھی جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ سوال : کیا بھارتی عوام کشمیر کی الگ ثقافتی شناخت کو تسلیم کرتے اور اس کی تعریف کرتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ تاثر کیسے ابھرا کہ اب وہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر ان کی سرزمین ہے جس کی حفاظت اور حفاظت کی جائے؟ جواب :1947ء میں بھارت بننے کے بعد کی دہائیوں میں سبھی اقوام کے مابین اتحاد پر یہ زوردیا گیا۔ میں سمجھتی ہوں، ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی جمہوریہ میں زبردستی شامل کیا گیا جس کے تحت کشمیر کے لیے تجویز کردہ ثقافتی شناخت کو لازمی طور پر خطرے کے طور پر نہیں دیکھا گیا۔ بلکہ بھارت یا ہندوستانی تہذیب کے عظیم تصّور کی تفہیم میں استعمال اور شامل کیا گیا۔ یہ ایک ہم آہنگ ہندوؤں پر مبنی شناخت کے حق میں کشمیر کی مسلم شناخت کا مکمل انکار تھا۔  یہ امر میرے لیے واقعی قابل ذکر ہے کہ بھارتی حکمرانوں نے کشمیر میں جگہ بنانے کے لیے بہت کام کیا ہے۔اس باعث بھارت میں کشمیر کی ملکیت کا احساس پیدا ہو گیا۔اب حال یہ ہے کہ عام بھارتی باشندے سے پوچھا جائے تو وہ یہی کہتا ہے’’ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہے۔ کشمیر ایک ایسی چیز ہے جسے بھارت جانے نہیں دے سکتا!‘‘ اور اس سے مطلب بڑی حد تک زمین ہے۔ یقیناً اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے، خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ۔ کشمیری عوام ان بھارتی باشندوں کی راہ میں حائل ہو رہے ہیں جو فطری مناظر سے لطف اندوز ہونا اور جذب کرنا چاہتے ہیں۔ بھارتی حکمران اور عام لوگ کشمیر کی زمین حاصل کرنا چاہتے ہیں …مگر وہ اس خطے کے لوگوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں اور انھیں معمولی حیثیت بھی دینے کو تیار نہیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل