Loading
برطانیہ میں ڈی این اے ٹیکنالوجی کی مدد سے 58 سال پرانے جنسی زیادتی کے کیس کو حل کرلیا گیا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانیہ میں 92 سالہ رائلینڈ ہیڈلی نامی شخص کو 1967 میں 75 سالہ خاتون لوئیسا ڈن کے ساتھ زیادتی اور قتل کے مقدمے میں قصوروار قرار دے دیا گیا۔ یہ فیصلہ بریسٹل کراؤن کورٹ نے دیا، جس کے ساتھ ہی تقریباً 58 سال پرانے قتل کیس کا باب بند ہوا۔ متاثرہ خاتون لوئیسا ڈن کی لاش جون 1967 میں ان کے گھر (ایسٹن، بریسٹل) سے ملی تھی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ دم گھٹنا بتایا گیا تھا جب کہ ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی بھی تصدیق ہوئی تھی۔ اُس وقت بھی کیس کو حل کرنے کے لیے ایون اور سمرسیٹ پولیس نے 19 ہزار مردوں کے ہتھیلیوں کے نشانات لیے، 13 ہزار کے بیان قلم بند کیے اور 8 ہزار گھروں پر دستک دی۔ تاہم جنسی زیادتی اور قتل کے اس اندھے مقدمے کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا تھا۔ ملزم اور محرک کے بارے میں کوئی سراغ نہ لگایا جا سکا تھا۔ اس کیس کی 2023 میں دوبارہ چھان بین اُس وقت شروع ہوئی جب جدید ڈی این اے تکنیک کی مدد سے لوئیسا کے پہنے ہوئے اسکرٹ سے قاتل کا مکمل ڈی این اے پروفائل حاصل کیا گیا۔ اسکرٹ سے لیا گیا یہ ڈی این اے 1977 میں جنسی زیادتی کے دو دیگر مقدمات میں ملوث ملزم رائلینڈ ہیڈلی سے حاصل کردہ نمونوں سے میچ کر گیا۔ جس پر نومبر 2024 میں اسے گرفتار کر لیا گیا۔ ملزم کی گرفتاری کے بعد اس کے ہتھیلی کا پرنٹ بھی دوبارہ جانچا گیا اور چار ماہرین نے تصدیق کی کہ وہ پرنٹ ہیڈلی کے ہاتھ سے مطابقت رکھتا ہے۔ کیس کی دوبارہ سماعت کی گئی جس میں پرانے گواہوں کے بیانات پڑھے گئے کیونکہ تقریباً تمام گواہ وفات پا چکے تھے۔ خیال رہے کہ ملزم ہیڈلی کو ماضی میں دو عمر رسیدہ خواتین کے گھروں میں گھس کر زیادتی کرنے کے الزام میں عمر قید سنائی گئی تھی تاہم پھر سزا 7 سال کر دی گئی تھی۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل