Tuesday, July 01, 2025
 

’’آپ کو کیا تکلیف ہے۔۔۔؟‘‘

 



رات کے ساڑھے دس بجے کا وقت تھا۔ فرح باورچی خانے میں بیٹھی چائے کی پیالی تھامے کسی گہری سوچ میں گم تھی۔ اس کی دو سالہ بیٹی سو چکی تھی، گھر کے ماحول میں گہری خاموشی تھی، لیکن اُس کے ذہن میں کچھ سوالات مسلسل شور مچا رہے تھے: ’’کیا یہ سب میرے فیصلے تھے۔۔۔؟‘‘ ’’یا میں نے صرف وہ کیا جو لوگ چاہتے تھے؟‘‘ اُسے یاد آیا وہ وقت، جب اُس کی تعلیم مکمل ہوئی تھی اور وہ کیریئر بنانے کے خواب بُن رہی تھی، لیکن رشتہ آیا، اور ساتھ ہی خاندان، محلے داروں اور عزیزوں کا دباؤ ’’اب تو عمر ہو گئی ہے، کہیں اچھا رشتہ ہاتھ سے نہ نکل جائے۔۔۔!‘‘ سو اس دباؤ میں آ کر اُس نے شادی کر لی۔ شادی کے بعد ابھی نئی زندگی کی شروعات  ہوئی ہی تھی کہ لوگوں نے اولاد کے حوالے سے سوالات اور اندازے قائم کرنے شروع کردیے اور جب اس کو اللہ نے بیٹی جیسی خوب صورت رحمت سے نوازا تو اس کو خوشی منانے کا موقع ہی نہ ملا، بلکہ اکثر چہروں پر مایوسی اور زبانوں پر ’دلاسے‘ تھے ’’چلو ان شا  اللہ اگلی بار بیٹا ہو گا۔‘‘  وہ اپنی بیٹی کو دیکھ کر بار بار یہ سوچتی کہ آخر  یہ فیصلہ میرے اختیار میں کب آیا۔۔۔؟ اور کچھ ہی عرصے بعد پھر وہی سوالات شروع ہو گئے ’’اس کا کوئی بہن بھائی ہونا چاہیے۔ بہن بھائی ہوں گے، تو بچے کی شخصیت متوازن ہو گی۔ اکیلی ہے، اسی لیے شرارتی ہے۔‘‘ اگر بچہ خاموش طبیعت ہے، توکہا جاتا ہے کہ کوئی بات کرنے والا نہیں۔ اس لیے سنجیدہ اور تنہائی پسند ہو رہا ہے۔‘‘ اگر بچہ اپنے کھلونے اپنی چیزیں دوسرے بچوں کو نہیں دیتے، جیسے کہ عموماً بچوں کی فطرت ایسی ہوتی ہی ہے، تو کہا جاتا ہے بچے میں مل بانٹنے کی عادت نہیں ہے، کیوں کہ اکیلا رہتا رہتا ہے، کوئی بہن بھائی نہیں، جب کہ در حقیقت بچے میں اپنی چیزیں/ کھلونوں کے حوالے سے ملکیت پسند یا حساس ہوتے ہیں، اس لیے وہ انھیں کسی کو دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔پھر یہ عادت عمر اور وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوجاتی ہے، بڑے ہوتے کے ساتھ ہی بچے مل بانٹنا سیکھ بھی جاتے ہیں۔ ’سماجی دباؤ‘ دراصل ایک خاموش اذیت ہے، جو نہ صرف ہمارے ذہنی سکون کو شدید متاثر کرتی ہے، بلکہ ہمارے فیصلوں، رشتوں اور خود اعتمادی کو بھی دیمک کی طرح چاٹتی ہے۔ ہمیں ہر وقت کسی نہ کسی معیار پر پرکھا جاتا ہے۔ اگر آپ نے جلدی شادی کر لی، تو کہا جاتا ہے ’اتنی کیا جلدی تھی۔۔۔؟‘ اگر تاخیر ہو گئی، تو کہا جاتا ہے ’اب تو عمر نکل گئی!‘ اگر اولاد نہیں ہے، تو الگ طرح کے مشورے اور باتیں۔ اگر بیٹی ہو جائے، تو چہروں پر عجیب افسوس نظر آتا ہے، جیسے کوئی کمی رہ گئی ہو۔ گویا ہم جیسے بھی فیصلے کریں، ہمیں ہمیشہ سماج کی کسوٹی پر تولنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ نجی زندگی ہر ایک فرد اور ہر ایک جوڑے کا حق ہے۔ اس لیے شادی کرنے نہ کرنے سے لے کر اس کے بعد تک زندگی کا ہر مرحلہ اور فیصلہ سراسر ان کی نجی زندگی کا معاملہ ہے۔ ان میں مداخلت بدتہذیبی اور جہالت والی باتیں ہیں۔ ان کی ذاتی زندگی اور نجی امور میں مداخلت اُن کے ذہنی سکون اور رشتے کی بنیادوں کو ہلا دینے والی بات ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ جو سوالات ہم کسی سے اپنی عادت اور ہنسی مذاق میں کر لیتے ہیں، وہ شاید اُن کے دل پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ ہم کسی کی زندگی کے مسائل اور ترجیحات  کے بارے میں بہت تھوڑی سی معلومات رکھتے ہیں، اس لیے ہمیں اپنی محدود معلومات کی بنیاد پر کوئی اندازہ قائم کرنا چاہیے اور نہ ہی کوئی سوالات کھڑے کرنے چاہئیں۔ پھر اولاد ہونا نہ ہونا، بیٹا یا بیٹی ہونا یہ حکم ربی سے جڑی ہوئی چیزیں بھی ہیں۔ اگر کسی کے ہاں بیٹی ہو، تو وہ اللہ کی رحمت ہے، نہ کہ کوئی معاشرتی کمی! ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ نہ تو ہر سوال پوچھنا ہمارا حق ہے، اور نہ ہی ہر خاموشی ہماری اجازت کی منتظر ہے۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ شادی ایک انتہائی نجی معاملہ ہے، اور زوجین کے معاملات انھی تک محدود رہنے چاہئیں۔ انھیں اپنے خاندان اور اپنی زندگی کے ہر فیصلے خود کرنے کا حق ہے۔ یہ سب فیصلے اُن کی باہمی سمجھ بوجھ اور ان کے حالات زندگی پر مبنی ہوتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ہر دوسرا شخص ہمارے اِن فیصلوں پر اپنی رائے دینے، سوال کرنے اور باقاعدہ دباؤ ڈالنے کو اپنا بنیادی حق سمجھ لیتا ہے۔ حقیقت میں، یہ صرف مداخلت نہیں، بلکہ زوجین کی ذاتی زندگی کی کھلی اور شرم ناک خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ ہر انسان کا اس کی زندگی پر مکمل اختیار ہے۔ ہر فرد کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی ذہنی، جسمانی، اور جذباتی اور صورت حال کے مطابق فیصلے کرے۔ کسی کو بھی یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ آپ کے ذاتی فیصلوں پر کوئی سوال بھی اٹھائے۔ ہمیں اپنی بیٹیوں کو یہ سکھانا ہو گا کہ وہ صرف لوگوں کو خوش کرنے کے لیے فیصلے نہ کریں، بلکہ اپنے دل، دماغ اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے زندگی گزاریں۔ اگر کوئی آپ سے ایسے نجی سوالات پوچھے، تو آپ یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں، کہ ’آخر آپ کو کیا تکلیف ہے؟ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔‘ اگر کوئی بیٹے یا بیٹی کے درمیان فرق کرے تو اس موقعے پر بھی خاموش نہ رہیں، بلکہ اس کی صنفی تفریق کی سوچ پر سوال اٹھائیں  اور اگر کبھی آپ کسی ایسے شخص کے ساتھ ہوں، جو سماجی دباؤ میں زندگی گزار رہا ہو، تو اُس کا ساتھ دیں، اْس کے فیصلوں کی قدر کریں، نہ کہ اُس پر مزید دباؤ ڈالیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل