Saturday, July 12, 2025
 

کیا عنوان دوں؟

 



’’ارے بھائی! آج ایک گورے سے میری ملاقات ہوئی تھی، وہ بار بار بلیک سیڈ آئل کے بارے میں کہہ رہا تھا، بہت تعریفیں کر رہا تھا اور بتا رہا تھا کہ آپ کے پاکستان سے آتی ہے، وہ ایک چھوٹی سی تیل کی بوتل پاکستان کے اسٹور سے لی تھی، بہت مہنگی ملتی ہے، اکیاسی یورو کی وہ بوتل اور اس سے اسے بہت فائدہ ہوا تھا، بلڈ شوگر وغیرہ کو، تو میں نے سوچا پتا نہیں یہ بلیک سیڈ کیا ہے پھر میں نے ایک پاکستانی آنٹی سے پوچھا کہ یہ بلیک سیڈ کیا ہے؟ تو انھوں نے بتایا کہ یہ کوئی ایسی خاص چیز نہیں ہے، ہمارے پاکستان میں یہ ہر گھر میں ہوتی ہے، اسے کلونجی کہتے ہیں، تو پھر میں نے اسے گوگل پر سرچ کیا تو میں تو اس کے فوائد جان کر حیران رہ گیا، ہمیں تو بھائی کوئی قدر ہی نہیں۔ تو سب کو چاہیے کہ کلونجی استعمال کریں بھائی۔‘‘ کلونجی کی اہمیت سے ہم سب واقف ہیں، لیکن استعمال کی حد تک بات بہت مختلف ہے، حدیث نبویؐ ہے کہ ’’ کلونجی کے دانے میں سوائے موت کے ہر مرض کا علاج ہے۔‘‘ اس سے پتا چلتا ہے کہ قدرت نے سیاہ رنگ کے چھوٹے چھوٹے دانوں میں کس قدر افادیت رکھی ہے۔ بچپن میں اچار میں کالے رنگ کے ان دانوں کی کبھی سمجھ ہی نہ آئی کہ یہ کیا ہیں۔ وقت کے ساتھ پتا چلتا گیا اور صبح نہار منہ چٹکی بھر دانے ضرور پھانکے جاتے تھے کہ سنت بھی اور افادیت بھی، لیکن پھر ان دانوں میں جالے بنتے گئے۔ بچپن میں ان دانوں میں ایک ہلکی سی مرچ محسوس ہوتی تھی چبانے میں، لیکن آج بھی کھا کر دیکھیے کیسی مرچ اور کہاں کی مرچ۔ یہ تو تیل فری سوکھی بے سواد کلونجی ہے۔ بازار میں دستیاب عام کلونجی اسی طرح کی ہوتی ہے جس سے فیکٹری والے تیل نکال لیتے ہیں، پہلے یہ عمل صرف بڑے معروف ادارے کرتے تھے، پر آج ہر چھوٹے بڑے دکان دار نے کلونجی کے سونے جیسے تیل سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہ عمل شروع کر رکھا ہے اور خالی پھوک بھی مہنگے دام بیچتے ہیں، جو ہم جیسے معصوم خرید کر استعمال بھی کر لیتے ہیں۔ ذرا سوچیے ایک چھوٹی سی بوتل اکیاسی یورو کی، گویا پاکستانی چھبیس ستائیس ہزار روپے کی ایک چھوٹی شیشی، جب کہ ڈھائی سو یا تین سو روپے کا پھوک۔ کلونجی پھوک بازار میں دستیاب ہے۔ اس کے فوائد حیرت انگیز ہیں جن میں ایک اہم بلڈ شوگر ہے جو ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھرکا مسئلہ ہے۔ بس صبح نہار منہ ایک چٹکی کلونجی جو بہ مشکل پانچ چھ دانوں پر مشتمل ہے، اس بڑے مرض کے لیے کافی ہے، صرف یہی نہیں بلکہ دل کی صحت، دانتوں، بالوں،کیل مہاسوں، نظام ہاضمہ سمیت نجانے کیا کیا متوازن کرتی ہے۔ اس میں قدرتی طور پر امائنو ایسڈ، فیٹی ایسڈ، پوٹاشیم،کیلشیم، آئرن، سوڈیم، الکلائیڈ سمیت پروٹینز شامل ہیں۔ قدرتی طور پر پائے جانے والے ان اہم عناصر کی بہترین کیمسٹری اسے بظاہر سیاہ رنگ کا ہلکا سا بیج بناتی ہے جو اپنے اندر انسانی صحت کے حوالے سے انتہائی اہم اور صحت بخش ہیں۔ ہم صحت کے حوالے سے مغرب کی جانب دیکھنا پسند کرتے ہیں کیوں کہ ہمارے خیال میں ان کے یہاں ریسرچ اعلیٰ درجے کی اور علاج اس سے بھی اعلیٰ درجے کا ہوتا ہے، یہ سچ بھی ہے کہ ریسرچ کا کام تو وہاں چلتا ہی رہتا ہے۔ حکومتی سطح پر بھی ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تو نجی حوالے سے دوائیاں بنانے والی کمپنیاں اپنے تحقیقی سیکشن پر بہت توجہ دیتی ہیں تاکہ ان کی بنائی گئی ادویات میں نقص نہ رہ جائے کیوں کہ ذرا سی کمی بیشی انسانی جان کی ہلاکت کا ذمے دار ہو سکتی ہے۔ ہمارے یہاں کی ذمے داری کی تو بات ہی کیا کریں، اس شعبے پر جتنی بھی بحث کی جائے بے سود ہی رہے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے یہاں ذہانت کی کمی نہیں، گھریلو خواتین جو دیسی ٹوٹکوں پر عمل کر کے اور کروا کے ہزاروں سے لاکھوں روپے کما رہی ہیں، ان کے علاوہ اطباء حضرات کی بھی چاندی ہو رہی ہے، اگر لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے تو نقصان بھی ہو رہا ہے، لیکن قدرتی طور پر پائے جانے والے اجزا کا استعمال انسانی صحت پر ہمیشہ ہی مثبت اثر ڈالتا ہے لیکن سونا بنانے والے اسے ملک میں پھوک بنا کر باہر جھونک رہے ہیں، اب ان کو کون پوچھے۔ ارے بھائی جتنا دل چاہے تیل نکالو۔ پر اس کے پھوک کو بازار میں مہنگے دام تو نہ بیچتے، جس کے استعمال کا کوئی فائدہ بھی نہیں۔ ’’میری بچی (شادی شدہ دو بچوں کی ماں) کی نی کیپ ٹوٹ گئی، وہ اتنی اذیت میں تھی کہ بس۔ گھر میں بچوں نے ذرا سا پانی گرا دیا تھا، بس اسے صاف کرنے بیٹھی اورکیسے پھسلی کہ گھٹنے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اب یہاں (مشی گن، امریکا) میں پاکستان کی طرح نہیں ہوتا، بہرحال اس کے سوجن آئی، وہ ڈاکٹر کے پاس گئی کیوں کہ تکلیف تو تھی ہی لیکن سوجن نے تو تکلیف دوچند کر دی۔ اس ڈاکٹر نے دوائیاں وغیرہ دیں، ایکسرے وغیرہ کیا، اب پتا چلا کہ ہڈی ٹوٹی ہے اور اس کا آپریشن ہونا ہے، اس کا پرائمری ڈاکٹر کہیں چلا گیا، میری بچی نے کسی نہ کسی طرح آرتھوپیڈک کو قائل کیا، اب بچوں کا ساتھ، وہ تو میری چھوٹی وہاں تھی، اس نے گاڑی ڈرائیو کی، اب بچے بھی ساتھ، تو اس نے کہا تم رکو میں خود جاتی ہوں۔ ڈاکٹر کے پاس اس حالت میں وہ اتنے زینے چڑھ کر گئی، وہاں گئی تو اس کا سانس پھول رہا تھا، وہاں نرسز اسے فوراً ہارٹ کے سلسلے میں آئی سی یو لے جانے لگیں تو بچی نے چیخ چیخ کر کہا کہ’’ میں سیڑھیوں سے آئی ہوں، ظاہر ہے میرا سانس پھولنا ہی تھا، مجھے کوئی دل کا ایشو نہیں ہے، خدارا! مجھے آرتھوپیڈک سے ملنے دیں۔‘‘ (جس سے بڑی دقتوں سے اپائنمنٹ لیا تھا) وہ جانتی تھی کہ اس طرح ایک بار پھر اس کا گھٹنے کا آپریشن ٹل جائے گا، پھر جناب ایک چیخ پکار مچی، آرتھوپیڈک بھی آ ہی گیا، اس نے بچی کی ساری بات سنی، اس نے بتایا کہ میرا پرائمری ڈاکٹر گیا ہوا ہے، اس لیے مجھے خود یہ قدم اٹھانا پڑا۔ ڈاکٹر نے دیکھا تو اس نے کہا کہ ’’تم بالکل ٹھیک وقت پر  آئی ہو، تمہارے گھٹنے کی ہڈی تو چھلکے کی طرح  ٹوٹی ہے اور اس میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔‘‘ ڈاکٹر سمجھ دار تھا اس نے فوراً آپریشن کرنے کو کہا اور شکر ہے کہ میری بچی کا آپریشن ہوا۔ سب کہتے ہیں کہ امریکا میں مریضوں کی اچھی دیکھ بھال ہوتی ہے، بالکل ہوتی ہے لیکن پاکستان کی طرح یہاں نہیں ہوتا، یہاں پہلے پرائمری ڈاکٹر کو دکھانا لازمی ہوتا ہے۔‘‘ وہ بول رہی تھیں اور ذہن میں کچھ اور باتیں بھی چل رہی تھیں۔ ’’ذرا سی دیوار لگی اور ہڈی ٹوٹ گئی، پتا بھی نہ چلا، بعد میں تکلیف ہوئی اور سوجن بڑھی تو فلاں (ہڈیوں کا اسپتال) لے کر بھاگے، فوری ایکسرے ہوا اور پتا چلا کہ آپریشن ہوگا۔ دوسرے دن ہی آپریشن ہوا، ورنہ نجانے کتنی تکلیف برداشت کرنا پڑتی، دل تک پر اثر ہوتا ہے درد کا۔‘‘ سچ ہے کم سہولیات کے باعث ہم بہت پیچھے ہیں لیکن پھر بھی قدرت کے بنائے گئے نظام کے تحت چل رہے ہیں، ورنہ رکاوٹوں اور پیر کھینچنے والے تو بہت ہیں بس جسے اوپر والا رکھے اسے کون چکھے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل