Sunday, July 13, 2025
 

زبیدہ مصطفی بھی چلی گئیں

 



کل شام جب یہ خبر ملی کہ زبیدہ مصطفی رخصت ہوئیں، تو ان سے ہوئی بہت سی ملاقاتیں آنکھوں میں گھوم گئیں جب بھی ملاقات ہوئی بڑی گرم جوشی سے ملیں۔ انتہائی سادہ مزاج کی دلیر انسان جو سچ لکھنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں۔  ان کی شخصیت میں کوئی بناوٹ نہ تھی، جو بات دل میں ہوتی وہی لب پر آتی، مگر انداز ہمیشہ شائستہ، بات میں نرمی اور لہجے میں ایسا وقار ہوتا کہ اختلاف بھی ادب کے دائرے میں رہتا۔ وہ اُن معدودے چند افراد میں سے تھیں جو دلیل سے بات منواتی تھیں، شور سے نہیں۔ ان کے جملوں میں تلخی نہ تھی لیکن کڑوا سچ ضرور ہوتا تھا اور یہی ان کی تحریرکی خاص بات تھی کہ وہ پڑھنے والے کو صرف آگاہ نہیں کرتی تھیں، متحرک بھی کرتی تھیں۔ صحافت میں ان کی موجودگی ان عورتوں کے لیے مشعلِ راہ بنی جو صرف باورچی خانے اور بچوں کے کمروں سے باہر نکل کر کسی مقصد کے لیے جینا چاہتی تھیں، وہ عورتوں کے حقوق کی وکیل تھیں لیکن صرف نعرے کی حد تک نہیں۔ انھوں نے عملی طور پر ثابت کیا کہ عورت کی ذہانت، بصیرت اور پیشہ ورانہ دیانت مردوں کے مساوی نہیں بلکہ بعض اوقات بہتر ہو سکتی ہے۔ ان کے ادارتی فیصلے، رپورٹنگ کے اصول اور خبروں کا انتخاب اس بات کی گواہی دیتے تھے کہ وہ اپنی صحافت کو صرف پیشہ نہیں فرض سمجھتی تھیں۔ ان کے کالم صرف خبرکا تجزیہ نہیں ہوتے تھے وہ سماج کا آئینہ ہوتے تھے۔ ان میں تاریخ کے سرے بھی ملتے اور آنے والے دنوں کی جھلک بھی۔کبھی وہ تعلیم کے نظام پر لکھتیں،کبھی مادری زبانوں کی اہمیت پر،کبھی بچوں کے حقوق پر لڑکیوں کی تعلیم پہ اورکبھی پسماندہ علاقوں کی محرومیوں پر۔ ہر موضوع پر ان کی گرفت ایسی تھی جیسے وہ برسوں سے اسی ایک مسئلے پر کام کر رہی ہوں۔ زبیدہ مصطفی نے زبان کو محض ابلاغ کا ذریعہ نہیں بنایا، وہ زبان کے تہذیبی و ثقافتی پہلوؤں کو بھی اجاگرکرتی تھیں۔ ان کے نزدیک زبان صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک زندہ روایت، ایک پہچان ایک ورثہ تھی۔ انھوں نے انگریزی زبان میں لکھا لیکن ان کی تحریرکا مزاج ہمیشہ پاکستانی رہا۔ وہ الفاظ کے پیچھے چھپے ہوئے احساسات کو سمجھتی تھیں۔ کچھ لوگ شعلہ ہوتے ہیں، چمک کے بجھ جاتے ہیں۔ کچھ لوگ چراغ ہوتے ہیں دیر تک جلتے ہیں، راستے دکھاتے ہیں اورکچھ لوگ خوشبو ہوتے ہیں جو مرنے کے بعد بھی فضا میں باقی رہتے ہیں۔ زبیدہ مصطفیٰ ان خوشبوؤں میں سے تھیں۔ ان کا کام ان کی تحریریں اور ان کا طرزِ زندگی ایسے لوگوں کے لیے مثال ہے جو صحافت کو محض روزگار نہیں ایک اخلاقی ذمے داری سمجھتے ہیں۔ آج جب ہم ماضی کی طرف دیکھتے ہیں توکچھ چہرے روشن ستاروں کی مانند نظر آتے ہیں۔ ان چہروں میں زبیدہ مصطفی کا چہرہ سب سے نمایاں ہے۔ وہ ہمارے لیے صرف ایک صحافی نہیں تھیں، وہ ضمیر کی آواز تھیں۔ ان کی غیر موجودگی ہمیں ہر روز اس کمی کا احساس دلاتی رہے گی کہ اب سچ بولنے والے کم ہوگئے ہیں اور سچ لکھنے والے نایاب۔ ان کے جانے کے بعد صحافت کا آسمان کچھ اور سونا ہوگیا ہے۔ اب جب بھی کوئی نوجوان صحافی صحافت کے اصول اخلاقیات یا دیانت کی بات کرے گا تو کہیں نہ کہیں زبیدہ مصطفی کا حوالہ ضرور دے گا۔ انھوں نے صحافت کو وہ وقار بخشا جو اس عہد میں خواب لگتا ہے جہاں قلم اور لفظ بکاؤ ہوگیا ہے۔ یاد آتا ہے وہ زمانہ جب روزنامہ ڈان کے صفحات پر ان کا نام چمکتا تھا۔ انگریزی اخبار مردوں کا قلعہ اور اس میں ایک عورت نہ صرف موجود بلکہ نمایاں۔ وہ صرف اداریہ لکھنے والی خاتون نہ تھیں وہ ادارے کی روح تھیں۔ ان کی تحریر میں نہ نعرے تھے نہ بلند بانگ دعوے مگر پھر بھی وہ تحریریں دل کی تہوں تک اتر جاتی تھیں۔ انداز سادہ مگر مفہوم گہرا وہ ان کہی باتیں کہہ جاتی تھیں جن پر اکثر لوگ چپ سادھ لیتے ہیں۔کئی بار وہ آواز بنی ان لوگوں کی جن کے پاس نہ آواز تھی نہ کوئی ذریعہ تعلیم ہو صحت ہو یا عورتوں کے حقوق زبیدہ مصطفی نے کبھی آنکھیں نہیں چرائیں۔ ان کا قلم رکا نہیں، ڈرا نہیں اور جھکا نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ لکھنے والوں میں الگ پہچانی گئیں۔ ان کی صحافت وہ صحافت تھی جسے کسی ایجنڈے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ وہ سچ سے جڑی تھیں۔ مجھے یاد ہے ایک تقریب میں انھوں نے کہا تھا ’’ ہم لکھنے والے لوگ ہیں اور ہماری وفاداری صرف قلم سے ہونی چاہیے۔‘‘ اس جملے میں ان کی پوری زندگی سمٹ آتی ہے۔ نہ کسی جماعت سے وابستگی نہ کسی مصلحت کا شکار۔ وہ لکھتی تھیں کیونکہ وہ دیکھتی تھیں، محسوس کرتی تھیں اور ان کا ضمیر انھیں خاموش رہنے نہیں دیتا تھا۔ ایسے لوگ کم ہوتے جا رہے ہیں اور جب وہ چلے جاتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے ایک چراغ بجھ گیا ہو اور روشنی کا دائرہ کچھ اور تنگ ہوگیا ہو۔  زبیدہ مصطفی کی موت صرف ایک فرد کی موت نہیں، یہ ایک عہد کی موت ہے، وہ عہد جس میں صحافت خدمت تھی تجارت نہیں۔ وہ عہد جس میں الفاظ کا وزن ہوتا تھا اور تحریر کی حرمت ہوا کرتی تھی۔ اب جب ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں تو صرف شور نظر آتا ہے، سچائی کہیں گم ہوگئی ہے اور ایسے میں زبیدہ مصطفیٰ کی غیر موجودگی اور بھی شدت سے محسوس ہوگی۔ انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی داد و تحسین کی طلب نہیں کی لیکن ان کے جانے کے بعد ہم سب پر فرض ہے کہ ہم ان کے اصولوں کو زندہ رکھیں۔ ان کا سب سے بڑا سرمایہ ان کا کردار تھا اور کردارکبھی مٹی میں دفن نہیں ہوتا۔ وہ زندہ رہتا ہے ان کہے لفظوں میں اور ان دلوں میں جو سچائی کے متلاشی ہوں۔کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ عظیم لوگ مر کر بھی زندہ رہتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ہم انھیں یاد رکھیں۔ زبیدہ مصطفیٰ کی زندگی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ عورت ہونا کمزوری نہیں، صحافت عبادت ہوسکتی ہے اور قلم اگر سچا ہو تو دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن سکتا ہے۔ انھوں نے ہمیں دکھایا کہ ایک فرد بھی تبدیلی لا سکتا ہے اگر اس کے اندر دیانت ہو، حوصلہ ہو اور سچائی سے عشق ہو۔اپنے آخری دنوں میں وہ بیماری کی حالت میں بھی لوگوں کی خیر خبر لیتی رہیں اور دوسروں کا سہارا بنی رہیں۔ ایسی ہی تو ہوتی ہیں وہ عورتیں جنھوں نے اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر جینا سیکھا ہو۔ ان کا جانا ایک خلا چھوڑ گیا ہے ایسا خلا جو شاید کبھی پُر نہ ہو سکے،کیونکہ ایسے لوگ بار بار پیدا نہیں ہوتے۔ آج کے اس ہنگامہ خیز زمانے میں جب ہر سچ جھوٹ لگتا ہے اور ہر جھوٹ کو سچ بنا دیا جاتا ہے، زبیدہ مصطفی کی یاد ایک امید کی مانند ہے۔ وہ ہمیں بتاتی ہیں کہ سچ لکھنا ممکن ہے کہ صحافت کو ضمیر کے ساتھ نبھایا جا سکتا ہے کہ عورت اگر چاہے تو وہ تاریخ کا رخ موڑ سکتی ہے۔ان کی موت پر تعزیت کے لفظ چھوٹے لگتے ہیں۔ زبیدہ مصطفی صرف ایک صحافی نہ تھیں، وہ ایک ادارہ تھیں ایک تحریک ایک روشن مثال۔ وہ چلی گئیں مگر ان کے لکھے لفظ زندہ ہیں اور جب تک لفظ زندہ ہیں وہ بھی زندہ رہیں گی۔  

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل