Sunday, July 13, 2025
 

کراچی میں عمارتیں کیوں گرتی ہیں؟

 



کراچی میں عمارتوں کا گرنا معمول بن چکا ہے، اگرکوئی پرانی عمارت اپنی خستہ حالی اور مدت کو پورا کرنے کے بعد گرے تو اس کا متعلقہ سرکاری اداروں پرکوئی الزام عائد نہیں کیا جا سکتا مگر لیاری کے علاقے بغدادی میں زمین بوس ہونے والی عمارت کو محض تیس سال قبل ہی تعمیرکیا گیا تھا۔ تیس سال کے عرصے میں کوئی بھی عمارت پرانی نہیں کہلائی جا سکتی۔ اس عمارت کا گرنا یہ بتاتا ہے کہ اس کی تعمیر انتہائی ناقص میٹریل سے کی گئی تھی، تعمیرات سے متعلق صوبائی حکومتی ادارے نے بھی اس کی تعمیر کے وقت اس کا انسپکشن کرنے کی شاید زحمت ہی نہیں کی۔  یہ بھی پتا چلا ہے کہ جب 2022میں اس عمارت کو خطرناک قرار دیا گیا تھا، اس وقت سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے اس کی تین منزلوں کو گرا کر اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی تجویز دی گئی تھی مگر اس تجویز پر کیا عمل ہوتا، اس کی کمزوری کے باوجود اس پر مزید دو منزلیں تعمیر کر دی گئیں۔ ظاہر ہے یہ غیرقانونی کام متعلقہ سرکاری محکموں کے افسران اور اہلکاروں کی ملی بھگت سے ہی انجام پایا ہوگا۔ 2023سے 2025 تک یہ عمارت سرکاری ریکارڈ میں تین منزلہ ہی دکھائی جاتی رہی۔ متعلقہ ادارے کی بدانتظامی، نااہلی کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ کراچی میں عمارتوں کے گرنے کا کبھی کوئی علاج نہیں ہو سکے گا، کیوں کہ بیوروکریسی کی نااہلی اور کرپشن نے بلڈرزکو من مانی کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ یہ بے ہنگم سلسلہ صرف اس علاقے تک محدود نہیں ہے، پورے شہر کراچی میں ہی تقریباً ایسے ہی حالات ہیں۔ اسی لیے کراچی میں کئی برس پہلے بھی چھ سو کے قریب مخدوش عمارات تھیں اور آج بھی وہی صورت حال ہے۔ کراچی میں ایسی مخدوش عمارتوں میں 1940سے 1950میں بننے والی زیادہ عمارات شامل ہیں مگر ان میں تیس اور چالیس سال پرانی عمارتوں کا شامل ہونا خطرناک رجحان ہے جس کی ذمے داری سراسر متعلقہ سرکاری اداروں کی بیوروکریسی اور ملازمین پر عائد ہوتی ہے۔  آزادی سے بہت پہلے تعمیر ہونے والی عمارات اگر مخدوش حالت میں ہیں تو ان کی تعمیر کو یقینا سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، ان کا مخدوش ہونا سمجھ میں آتا ہے مگر وہ عمارتیں جو 30 سے 35 سال قبل تعمیر ہوئی ہیں، ان کی حالت کا خراب ہونا تشویش ناک ہے اور ان کی تعمیر پر سوالات کا اٹھنا بجا بھی ہے کہ ان کی عمریں اتنی کم کیسے ہو سکتی ہیں۔ اگر اچھا میٹریل استعمال کیا جاتا اور انجینئرنگ کے اصولوں پر عمل کیا جاتا تو ان کے اتنی جلدی مخدوش ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر بدقسمتی سے سرکاری تعمیر کا شعبہ بھی کرپشن کی بیماری میں مبتلا ہے جو دیمک کی طرح عمارتوں کو کھوکھلا کر کے انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بن رہا ہے۔  سابق ایڈمنسٹریٹر بلدیہ کراچی رؤف اختر فاروقی نے کراچی میں عمارتوں کے گرنے اور ان میں لوگوں کی ہلاکت پر کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی بے حسی پر افسوس ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایسے واقعات بہت کم ہوتے تھے کیونکہ مخدوش عمارتوں کے سروے کیے جاتے تھے اور ان میں رہائش پذیر افراد سے عمارات کو خالی کرایا جاتا تھا اگر وہ ٹال مٹول کرتے تھے تو سختی کی جاتی تھی اور عمارت کو تعمیر کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جاتی تھی، ایسی مخدوش عمارتوں کو گرا کر انھیں پھر سے تعمیر کرایا جاتا تھا اور ان میں رہائشیوں کو پھر سے آباد کرایا جاتا تھا۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس نے مذکورہ عمارت کے رہائشیوں کو عمارت خالی کرانے کے پہلے سے نوٹسز جاری کر دیے تھے مگر وہاں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ انھیں کوئی نوٹس نہیں ملا، اس سے بھی متعلقہ ادارے کے افسران کی نااہلی کا پتا چلتا ہے۔ متعلقہ ادارے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ نوٹسز ملنے کے بعد بھی لوگ عمارتوں کو خالی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں، اس کارروائی میں کافی وقت ضایع ہوجاتا ہے اور پھر تب تک حادثہ رونما ہو جاتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے بھی اس سانحے پر سخت صدمہ ظاہر کیا ہے اور متعلقہ ادارے پر تنقید کی ہے۔ سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے رہنما علی خورشیدی نے درست ہی کہا ہے کہ ’’ کہاں تک صبرکریں اور کہاں تک کرپشن کو برداشت کریں، اس وقت پورا شہر ہی مشکل میں پھنسا ہوا ہے۔‘‘ ایک اور سیاسی رہنما آفاق احمد نے بھی سندھ حکومت کی کراچی کے مسائل پر غفلت برتنے پر کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ’’ جس طرح حکومت اپنی جان چھڑانے کے لیے تحقیقاتی کمیٹیاں بنانے میں تیزی دکھاتی ہے کاش! کہ مخدوش عمارتوں میں مقیم لوگوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے میں بھی تیزی دکھائے تو کئی لوگوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔‘‘ کراچی کے عوام کا کہنا ہے کہ یہ وہ بد قسمت شہر ہے جس کے مسائل اور رونما ہونے والے حادثات پر سب ہی مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں مگر جو لوگ صاحب اقتدار ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کراچی کا انتظام ہوتا ہے، وہ اپنی ذمے داریاں ادا کرنے سے چشم پوشی کرتے ہیں اور مختلف قسم کے مافیاز کے سہولت کار بن جاتے ہیں تو یہاں کے مسائل کیسے حل ہوں گے اور عمارتوں کا گرنا کیسے رُکے گا؟  

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل