Sunday, July 13, 2025
 

سوچ سے بھی آگے

 



دنیا کی سب سے بڑی کاکلیٹ ساز کمپنی جس کا ہیڈ کوارٹر امریکا کے شہر نیو جرسی میں واقع ہے‘ ملازمین کی تعدادتقریباً ڈیڑھ لاکھ ہے اور سالانہ آمدنی اربوں ڈالر ہے‘ یہ کمپنی کئی قسم کے چاکلیٹ بناتی ہے‘ یہ مصنوعات دنیابھر میں فروخت ہوتی ہیں‘ یورپ اس کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے‘ اس کا یورپی ذائقہ بنیادی وجہ ہے‘ یہ کمپنی برطانیہ میں بنی تھی‘ اس نے یورپی ذائقے کو ذہن میں رکھ کر مصنوعات بنانا شروع کی تھیں‘ یہ کمپنی بعد ازاں امریکا شفٹ ہو گئی لیکن ذائقے کی روایت اسی طرح جاری رہی۔  کمپنی نے دنیا کے مختلف ممالک میں فیکٹریاں لگا رکھی ہیں‘ مارس کی ایک فیکٹری ہالینڈ میں بھی ہے‘ یہ فیکٹری یورپ کو چاکلیٹ سپلائی کرتی ہے‘ اس کا بزنس پوری رفتار سے چل رہا تھا‘ مالکان اور کارکن دونوں مطمئن تھے‘ منافع مل رہا تھا‘ ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ بھی ہو رہا تھا اور کمپنی حکومت کو بروقت اور پورا ٹیکس بھی دے رہی تھی چنانچہ ہر طرف ’’ستے خیراں‘‘ تھیں لیکن پھر 2016ء میں ایک چھوٹا سا واقعہ پیش آیا اور91 سال پرانی کمپنی کی بنیادیں ہل گئیں۔ یہ واقعہ جرمنی میں پیش آیا‘ جرمنی اس کی مصنوعات کی بڑی مارکیٹ ہے‘ جرمنی کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کچھ اور کھائیں یا نہ کھائیں لیکن یہ اس کے چاکلیٹ ضرور کھاتے ہیں‘ یہ 8 جنوری 2016 کی بات ہے‘ ایک جرمن خاتون نے مارکیٹ سے چاکلیٹ خریدی‘ ریپر کھولا اور بار کو ’’چک‘‘ مارا‘ خاتون کو اس میں کوئی غیر معمولی چیز محسوس ہوئی‘ اس نے فوراً لقمہ ہتھیلی پر الٹ دیا۔  چاکلیٹ کے لقمے میں پلاسٹک کا چھوٹا سا ٹکڑا تھا‘ خاتون نے سمجھا یہ چاکلیٹ کے ریپر کا ٹکڑا ہے لیکن جب اس نے پلاسٹک کے ٹکڑے کو غور سے دیکھا تو پتہ چلا اس کی ہیئت اور رنگ ریپر سے مختلف ہے اور یہ چاکلیٹ میں مکس تھا‘ وہ خاتون واپس اسٹور پر گئی‘ چاکلیٹ کاؤنٹر پر رکھا‘ پلاسٹک کا ٹکڑا دکھایا اور تحریری شکایت کا مطالبہ کر دیا‘ اسٹور کی انتظامیہ نے چاکلیٹ اور پلاسٹک کا ٹکڑا قبضے میں لے لیا۔  خاتون سے تحریری شکایت لکھوائی اور سارا مٹیریل کمپنی کو بھجوا دیا‘ چند سطروں کی اس شکایت اور پلاسٹک کے اس چھوٹے سے ٹکڑے نے پوری کمپنی کو ہلا کر رکھ دیا‘ یہ نمونہ امریکا تک گیا‘ تحقیقات ہوئیں‘ پتہ چلا پلاسٹک کا یہ ٹکڑا نیدر لینڈ کی فیکٹری سے چاکلیٹ میں مکس ہوا تھا‘ یہ پیکنگ کا ٹکڑا تھا‘ یہ اڑ کر چاکلیٹ کے ڈرم میں گرا‘ بارز بننے کے عمل کے دوران چاکلیٹ میں مکس ہوا اور یہ مختلف گوداموں‘ اسٹوروں اور دکانوں سے ہوتا ہوا اس خاتون کے دانتوں تک پہنچ گیا۔ خاتون کی شکایت درست نکلی‘ کمپنی کے پاس اب دو آپشن تھے‘ یہ خاتون سے معذرت کرتی‘ اسے دس بیس ہزار یوروز دیتی‘ زندگی بھر فری چاکلیٹ کی پیش کش کرتی اور معاملہ ختم ہو جاتا یا پھر یہ دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں صارفین سے معذرت کرتی‘ مارکیٹ میں موجود اپنی تمام چاکلیٹس واپس منگواتی اور اپنا پورا سسٹم ٹھیک کر لیتی۔  کمپنی کو پہلا آپشن سوٹ کرتا تھا‘ کیوں؟ کیونکہ کمپنی نے صرف ایک غریب خاتون پر چند ہزار یوروز خرچ کرنے تھے اور بات ختم ہو جاتی جب کہ دوسرے آپشن میں جگ ہنسائی بھی تھی اور اربوں ڈالر کا نقصان بھی اور مصنوعات کی ساکھ بھی داؤ پر لگ جاتی لہٰذا پہلا آپشن عقل مندی تھی لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی۔  کمپنی نے دوسرا آپشن پسند کیا‘ اس نے دنیا کے 55 ممالک سے اپنے چاکلیٹ واپس منگوانے‘ انھیں تلف کرنے اور ان کی جگہ تازہ سپلائی بھجوانے کا اعلان کر دیا‘ کمپنی نے اپنے تمام ڈیلرز کو ہدایات جاری کر دیں ’’آپ وہ تمام ڈبے واپس بھجوا دیں جن پر 19 جون 2016 سے 8 جنوری 2017 تک کی ایکسپائری ڈیٹس لکھی ہیں‘‘۔ کمپنی کے اندازے کے مطابق دنیا کے 55 ممالک سے ایک ارب سے زائد ڈبے واپس آئے اور کمپنی کو پاکستانی روپوں میں 300 سے 500 ارب روپے ( 2016کے حساب سے) نقصان ہوا‘ ان چاکلیٹس کی واپسی اور تلفی کا کام بھی مشکل اور مہنگا ثابت ہوا‘ کمپنی کو دنیا میں کوئی ایسی جگہ تلاش کرنی پڑی جہاں چاکلیٹس کو ضایع کرتے وقت ماحولیاتی آلودگی نہ پھیلے۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں امریکا‘ یورپ اور جاپان سمیت دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملک اس کو اپنی حدود میں اس ماحولیاتی دہشتگردی کی اجازت نہیں دی ہوگی چناں چہ کمپنی کو افریقہ یا ایشیا کا کوئی ایسا ملک تلاش کرنا پڑاہو گا جس کی حکومت چند لاکھ ڈالر لے کر اپنے ملک کو گندہ کرنے کی اجازت دے دے۔  کمپنی کو یہ خدشہ بھی لاحق تھا‘ یہ واقعہ مدت تک صارفین کے ذہن میں رہے گا‘ یہ جب بھی اس کے چاکلیٹ کو چک ماریں گے‘ انھیں اپنے منہ میں پلاسٹک کا دھاگا محسوس ہو گا‘ صارفین کی اس فیلنگ کا تاوان بھی کمپنی کو ادا کرنا پڑے گا‘ کمپنی کی سیل بھی متاثر ہو گی لیکن کمپنی نے اس کے باوجود مالیاتی اور ساکھ کا نقصان برداشت کرنے کا فیصلہ کیا‘ کیوں؟ یہ کیوں دراصل وہ فرق ہے جو مغرب کو مغرب اور مشرق کو مشرق بناتا ہے‘ جو ہم مسلمان معاشرے اور کافر معاشرے کے درمیان دیوار بنتا ہے‘ یہ دیوار‘ یہ فرق کیا ہے اور ہم آج تک اس فرق کو کیوں نہیں سمجھ سکے‘ ہمیں اس طرف آنے سے پہلے ایک اور بات سمجھنی ہو گی۔ کمپنی کا کاروبار2016میں 55 ملکوں تک پھیلا تھا‘ ان 55 ملکوں میں ان کے روزانہ 21 کروڑ چاکلیٹ کھائے جاتے تھے‘ کمپنی کو ان 21 کروڑ چاکلیٹس اور ان 55 ملکوں سے صرف ایک شکایت موصول ہوئی‘ دنیا کے کسی دوسرے ملک اور کسی دوسرے صارف کی چاکلیٹ سے پلاسٹک نہیں نکلا۔ اس کا مطلب ہے‘پلاسٹک کا وہ ٹکڑا صرف ایک چاکلیٹ میں تھا‘ کمپنی کی باقی چاکلیٹس صاف تھیں‘ دوسرا یہ پلاسٹک صحت کے لیے خطرناک نہیں تھا‘ یہ جسم میں جانے کے بعد قدرتی عمل کے ذریعے خارج ہو جاتا لیکن کمپنی نے ان دونوں حقائق کے باوجود مالیاتی اور ساکھ کا نقصان برداشت کیا‘ کیوں؟ ہم اب اس کیوں کا فیصلہ کریں گے کیوںکہ ہم اس کیوں کو مغرب اور مشرق کے درمیان دیوار بھی سمجھتے ہیں اور فرق بھی!۔ یہ دیوار‘ یہ فرق اخلاقیات اور قانون ہے‘ یہ کمپنیاں صاف ستھری اور معیاری مصنوعات کو اپنی اخلاقی ذمے داری سمجھتی ہیں‘ یہ لوگ سمجھتے ہیں‘ ہم مصنوعات بیچ کر منافع تو کما لیں گے‘ ہم پیسے بھی جمع کر لیں گے لیکن ہم معاشرے میں نفسیاتی‘ جسمانی اور ماحولیاتی خرابیوں کا باعث بنیں گے اور یہ گھاٹے کا سودا ہے‘ دوسرا یہ لوگ جانتے ہیں‘ دنیا کے کسی کونے سے اگر دوسری یا تیسری شکایت آ گئی۔  اگر کوئی اور صارف ہماری چاکلیٹ کھا کر بیمار ہو گیا یا دنیا سے گزر گیا تو پھر ہمیں اور ہماری کمپنی کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکے گی‘ امریکا سے لے کر جاپان تک‘ چین سے لے کر مراکش تک اور ترکی سے لے کر اسپین تک ساری ترقی یافتہ دنیا ہم پر پابندی لگا دے گی‘ ہمارے مالکان‘ ہمارے سی ای او اور ہمارے منیجرز باقی زندگی جیلوں میں گزاریں گے‘ ان کے گھر تک بک جائیں گے۔  یہ قانون کا وہ خوف ہے جس کے ہاتھوں مجبور ہو کر معروف موٹر وہیکل کمپنی نے 2014میں دنیا بھر سے 48 لاکھ گاڑیاں واپس منگوا لی تھیں‘ ان گاڑیوں میں معمولی سا نقص تھا اور اس نقص کی وجہ سے یورپ نے اس کی گاڑیاں کلیئر کرنے سے انکار کر دیا تھا‘ کمپنی کو گاڑیاں منگوانے‘ نقص ٹھیک کرنے اور گاڑیاں واپس بھجوانے پر 5 بلین ڈالر خرچ کرنا پڑے‘ 10 بلین ڈالر کا ہرجانہ اس کے علاوہ تھا۔  یورپ اور امریکا میں ایسی معمولی غلطیوں پر اداروں کا بند ہونا معمولی بات ہے‘ ایک چھوٹی سی غلطی ہوتی ہے اور چند منٹوں میں ارب پتی فٹ پاتھ پر آ جاتے ہیں۔ جب کہ اس کے مقابلے میں آپ اپنے کاروباری طبقے کو دیکھیے‘ آپ کو خوراک اور ادویات کی زیادہ تر کمپنیوں کے اکثر مالک الحاج ملیں گے لیکن آپ جب ان کے کارخانوں میں جھانکیں گے تو آپ کو وہاں گندگی‘ بیماری اور موت کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا۔ پاکستان دنیا کی مہلک ترین بیماریوں کا گڑھ ہے‘ ہم ہیپاٹائٹس سی میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں‘ ہم شوگر میں تیسرے نمبر پر ہیں‘ ملک میں ہارٹ اٹیک‘ کینسر‘ ٹی بی اور گردے اور جگر کے امراض بھی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں‘ ہم نے کبھی ان کی وجوہات تلاش کیں؟ جی ہاں! ان کی وجہ غیر معیاری خوراک ہے‘ لیکن یہ لوگ خود کو قانون‘ معاشرے اور مذہب کے سامنے بھی جوابدہ نہیں سمجھتے‘ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو چاکلیٹ میں پلاسٹک کا معمولی ٹکڑا نکلنے اور گیئر باکس سے آواز آنے پر کھربوں روپے کا نقصان برداشت کرتے ہیں اور دوسری طرف ہم ہیں جن کے کھانوں سے چھپکلیاں نکل آئیں یا دودھ سے ڈٹرجنٹ پاؤڈر کوئی دکان تک بند نہیں ہوتی۔ کاش کوئی پاکستان کے کاروباری حضرات کو بھی بتا دے‘ جناب اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ عبادات سے نہیں نکلتا‘ انسانیت سے جنم لیتا ہے اور کافر انسانیت میںہم سے بہت آگے ہیں‘ ہماری سوچ سے بھی آگے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل