Loading
وزیراعظم شہباز شریف نے جمعے کو اسلام آباد میں اعلیٰ سطح کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزارتوں کی کارکردگی بڑھانے اور نظام کی تبدیلی کے لیے بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ یہ ماہرین اور کنسلٹنٹس جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اصلاحات سے نئی سوچ اور گورننس کے طریقہ کار کو رائج کرنے میں معاون ہوں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سات دہائیوں سے اس ملک کو جس نظام سے چلانے کی کوشش کی گئی، اس سے پاکستان کی ترقی ممکن نہیں۔ فرسودہ نظام کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیے بغیر معاشی ترقی اور خوش حالی نہیں آسکتی۔ پاکستان میں نظام کی تبدیلی کے حوالے سے برسوں سے مطالبات چلے آ رہے ہیں۔ بہرحال وزیراعظم پاکستان نے پاکستان کے نظام کی فرسودگی کا اعتراف کر کے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اس میں تبدیلیوں اور اصلاحات کیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔ برصغیر پاک وہند میں جو ریاستی اور حکومتی سسٹم چل رہا ہے، اس کی داغ بیل برٹش حکومت نے ڈالی تھی۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد جو ملک وجود میں آئے، انھیں یہ نظام ورثے میں ملا۔ پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش آج بھی اسی نظام کے تحت چل رہے ہیں۔ برٹش حکمرانوں نے اپنے مفادات کے حوالے سے قوانین بنائے اور ان قوانین پر جو نظام تشکیل پایا، وہ کالونیل پاور کی فیور میں تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تقسیم کے بعد اس سسٹم میں فوری اصلاحات لائی جاتیں اور نظام کو عوام دوست یا پروپیپل (Pro-people) بنایا جاتا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ بھارت میں کسی حد تک سسٹم میں اصلاحات کی گئی ہیں تاہم وہاں بھی ابھی ایسے قوانین موجود ہیں جو مقتدر طبقے کو سہولتیں فراہم کرتے ہیں اور ریاستی اور سرکاری عہدیداروں کو مراعات اور استثنیٰ کی سہولت دیتے ہیں۔ پاکستان کی صورت حال ذرا مختلف ہے۔ پاکستان میں سسٹم میں اصلاحات کے نام پر جو کچھ کیا گیا ہے اس کی وجہ سے پاکستان کا ریاستی اور گورننگ سسٹم زیادہ پیچیدہ، مبہم اور ظالم بن گیا ہے۔ پاکستان کے نظام میں طاقتور ریاستی عہدوں کو بے جا مراعات فراہم کی جاتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں جوابدہی سے بھی استثنیٰ فراہم کیا جاتا ہے۔ آج پاکستان کے نظام میں بہت سے ریاستی عہدے ایسے ہیں جن کی سسٹم کے اندر جوابدہی کا کوئی مؤثر میکنزم یا قانون موجود نہیں ہے۔ اس وجہ سے یہ عہدے ایک طرح سے آئین اور قانون سے بالاتر نظر آتے ہیں کیونکہ ان کا احتساب کرنا سسٹم میں تقریباً ناممکن ہے اور اگر کہیں کوئی میکنزم موجود بھی ہے تو وہ بھی ان عہدوں کی اپنی زیرنگرانی کام کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ خود ہی جزا اور سزا کے مالک بن جاتے ہیں۔ پاکستان کے نظام میں جمہوریت کو جس طریقے سے متعارف کرایا گیا ہے، اس کی وجہ سے پارلیمانی جمہوریت سوفیصد عوامی مفادات کے تابع ہو کر کام نہیں کرتی۔ آج پاکستان کے پارلیمنٹیرینز اپنے حق میں قانون سازی کراتے نظر آتے ہیں۔ اپنے استحقاق کو یقینی بناتے ہیں۔ حالانکہ ان کا مینڈیٹ عوام کے مفادات کی حفاظت کے لیے ریاستی سسٹم اور گورننگ سسٹم کی نگرانی کرنا اور جہاں کہیں ضرورت محسوس ہو، عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے قانون سازی کو یقینی بنانا ہوتا ہے لیکن عملاً دیکھنے میں آتا ہے کہ پارلیمان چاہے وہ قومی اسمبلی ہو، سینیٹ ہو یا صوبائی اسمبلیاں، سب کی توجہ کا مرکز تنخواہیں، مراعات اور دیگر الاؤنسز، رہائشی فلیٹس کی الاٹمنٹس، ملازمتوں اور ترقیاتی فنڈز کے کوٹے کا حصول ہے۔ یوں عوام سب سے کم توجہ حاصل کر پاتے ہیں۔ وزیراعظم نے نظام میں تبدیلی لانے کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کی جو بات کی ہے، اس حوالے سے دیکھنا ہو گا کہ کیا یہ ماہرین پاکستان کے مختلف صوبوں کے رسم ورواج، قوموں اور برادریوں، ان کے مزاج اور زبان اور کلچر سے پوری طرح واقف ہوں گے؟ کیا ان ماہرین کا کام پاکستان پینل کوڈ سے لے کر آئین میں موجود خامیوں وخرابیوں کی نشاندہی کرنا اور متبادل تجاویز دینا ہو گا؟ اصولی طور پر تو پاکستان کے پارلیمنٹیرینز کو خود ہی سسٹم کی اتنی آگاہی ہونی چاہیے کہ وہ اس میں موجود خرابیوں کو سمجھ سکیں اور انھیں دور کرنے کی تجاویز دے کر قانون سازی کرا سکیں۔ پاکستان میں پارلیمان کے رکن بننے کے لیے سسٹم کا علم ہونا کوئی ضروری نہیں ہے حالانکہ یہ ایک بنیادی چیز ہے۔ اگر ایک رکن پارلیمنٹ کو پاکستان پینل کوڈ، کریمنل پروسیجر کوڈ اور آئین پاکستان وغیرہ کی بنیادی معلومات نہیں ہوں گی تو وہ سسٹم کو کیسے سمجھ پائے گا۔ اگر وہ سسٹم کو ہی نہیں سمجھتا تو اس میں اصلاحات کی تجاویز کیسے دے سکتا ہے۔ اسی طرح بیوروکریسی جو محکمہ جاتی ایس او پیز وغیرہ بناتی ہے، ان میں بھی بہت سی خرابیاں موجود ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ کو ان ایس او پیز کی خوبیوں اور خامیوں کا بھی پورا علم ہونا چاہیے تاکہ انھیں پتہ چل سکے کہ بیوروکریسی کس طرح اپنے اختیارات کو خود ہی بڑھا لیتی ہے اور اپنے آپ کو ذمے داری سے الگ کر لیتی ہے۔ سیاسی کارکنوں کو بھی نظام کا کوئی علم نہیں ہے۔ اس وجہ سے پاکستان میں سیاسی کارکن لیڈرشپ کے غلام کی شکل میں کام کرتا ہے۔ وہ بھی چھوٹی موٹی مراعات حاصل کرنے کے لیے سیاسی پارٹیاں جوائن کرتا ہے۔ ملک کے بیوروکریٹک سسٹم کو سمجھے بغیر جمہوری سسٹم کامیاب نہیں ہوسکتا۔ قوانین کی باریکیاں بیوروکریسی کا بنیادی اور مہلک ہتھیار ہے۔ جب تک سیاسی ورکر اور پارلیمنٹیرینز ان باریکیوں کو نہیں سمجھیں گے، وہ اپنا رہنما کردار نہیں کر سکیں گے۔ برطانوی پارلیمانی سسٹم کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ پارلیمنٹیرینز کو سسٹم کی خرابیوں اور خوبیوں کا پتہ ہے۔ بیوروکریسی کے یکطرفہ قسم کے محکمانہ قواعد وضوابط اور اختیارات کے بارے میں بھی پارلیمنٹیرینز کو پوری آگاہی ہے۔ اسی وجہ سے وہاں کے پارلیمنٹیرینز سسٹم پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ بیوروکریسی چالاکی یا ہوشیاری نہیں دکھا سکتی جب کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے اجلاس میں یہ درست کہا ہے کہ پاکستان وسائل سے مالامال ہے، پاکستان کی نوجوان افرادی قوت پاکستان کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے، باصلاحیت پاکستانی پوری دنیا میں ملک و قوم کا نام روشن کررہے ہیں ، حکومت کی اوّلین ترجیحات میں فرسودہ نظام کو جدید، ڈیجیٹل اور موثر گورننس کے نظام میں تبدیل کرنا ہے۔ وزیراعظم نے بہترین افرادی قوت کی بھرتی، وزارتوں کو جدید نظام سے ہم آہنگ کرنے اور اصلاحات سے گورننس کی بہتری کی تجاویز کے حوالے سے کمیٹی کے قیام کی بھی ہدایت کر دی ہے۔کمیٹی وزارتوں و اداروں کی تنظیمِ نو کے حوالے سے قابل عمل تجاویز کو حتمی شکل دے گی۔ پاکستان کے نظام میں تبدیلی اور اصلاحات کا عمل آئین پاکستان سے شروع کرنے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ آئین کے مختلف آرٹیکلز اور ذیلی شقوں میں موجود ابہام کو ختم کرنا اہم ترین ہے۔ آئین کے آرٹیکلز مکمل، واضح اور دوٹوک الفاظ پر مبنی ہونے چاہئیں تاکہ مطلب واضح اور شفاف ہو جائے۔ چونکہ چنانچہ کی اضافت اور ابہام کے بعد تشریح کا اختیار شروع ہو جاتا ہے۔ اکثر اوقات دیکھنے میں آتا ہے کہ تشریح اصل آرٹیکل سے مختلف ہو جاتی ہے۔ یوں ایک نیا پنڈورا بکس کھل جاتا ہے۔ اسی طرح بیوروکریسی کے قواعد وضوابط کے حوالے سے بھی ایک میکنزم ہونا چاہیے تاکہ افسر کو بے جا قسم کے اختیارات حاصل نہ ہو سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے احکامات کا ذمے دار اور جواب دہ بن سکے۔ ریاستی عہدوں یا سرکاری افسروں اور دیگر آئینی عہدوں کے آئینی اور قانونی استثنیٰ کے حوالے سے بھی کوئی فول پروف میکنزم ہونا چاہیے تاکہ ان طاقتور اور بااختیار عہدوںکو بھی اپنے ایکشنز اور بزنسز کے حوالے سے ذمے دار اور قابل احتساب ٹھہرایا جا سکے۔ عوامی جمہوریت کے لیے ایسا کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ ان طاقتور اور بااختیار عہدوں کو خطیر رقم تنخواہوں اور مراعات کی مد میں دی جاتی ہے، یہ رقم عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھی ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے ملک کو جو قرضہ دیتے ہیں وہ بھی پاکستان کے عوام کے نام پر دیتے ہیں۔ سرکاری افسروں اور ملازمین کو جو مراعات ملتی ہیں، وہ بھی عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھے ہونے والے پیسوں سے ملتی ہیں۔ پارلیمنٹیرینز جو مراعات اور تنخواہیں حاصل کر رہے ہیں وہ بھی عوام کے ٹیکسوں سے ادا کی جا رہی ہیں۔ اگر پاکستان کے ہر صوبے، ہر ضلع، ہر شہر، ہر قصبے اور ہر گاؤں کے رہنے والے شہری حکومتوں کو ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز اداکرتے ہیں تو آئین اور قوانین کو بھی عوام کے حق میں ہونا چاہیے نہ کہ ریاستی اور حکومتی عہدیداروں، سرکاری ملازموں اور پارلیمنٹیرینز کے حق میں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل