Monday, July 14, 2025
 

غذائیں! جو خطرناک ثابت ہو سکتی ہے

 



جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے خوراک انسان کی بنیادی ضرورت ہے لیکن اس کا تعلق صرف پیٹ کی آگ بجھانے، ذائقے، تسکین جسمانی قوت سے نہیں بلکہ بعض صورتوں میں زندگی اور موت سے بھی ہوسکتا ہے۔ ہم روزمرہ زندگی میں جو کچھ کھاتے ہیں، وہ اکثر بظاہر محفوظ اور فائدہ مند محسوس ہوتا ہے، لیکن ماہرین خوراک اور طبی ماہرین اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ کچھ غذائیں اپنی اصل حالت یا ناقص تیاری کے باعث نہایت خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔ ان غذاؤں میں ایسے مہلک جراثیم، الرجی پیدا کرنے والے اجزا یا زہریلے مادے شامل ہو سکتے ہیں جو انسانی صحت کو فوری یا طویل مدتی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اور یہ مضمون ایسی ہیم غذاؤں کے متعلق ہے، جو دنیا بھر میں ماہرین طب کے نزدیک ’’سب سے زیادہ خطرناک‘‘ تصور کی جاتی ہیں۔ اس فہرست میں نہ صرف کچی غذائیں شامل ہیں بلکہ وہ بھی جو ہماری روزمرہ خوراک کا حصہ ہوتی ہیں، جیسے گوشت، دودھ، مونگ پھلی اور خشک میوی جات وغیرہ۔ ان خطرات سے آگاہی نہ صرف صحت مند زندگی کے لیے ضروری ہے بلکہ خاص طور پر بچوں، بزرگوں اور الرجی کے مریضوں کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ آئیے جانتے ہیں وہ کون سی غذائیں ہیں جنہیں کھاتے وقت ہمیں احتیاط برتنی چاہیے۔ گوشت اور چکن خوراک کے حصول کا یہ حصہ اپنی افادیت کے اعتبار سے اگرچہ نہایت وسیع ہے لیکن امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کے اعداد و شمار کے مطابق، غذا سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہونے والی اموات میں 29 فیصد کا تعلق گوشت اور مرغی سے ہوتا ہے۔ درحقیقت، خوراک میں موجود جراثیم الرجی یا کیمیکل زہریلے مادوں سے کہیں زیادہ جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں اگرچہ ناقص غذا کی وجہ سے ہونے والی الرجی یا دیگر کیمیائی مرکبات کی وجہ سے نہایت کم ہے، لیکن بہرحال یہ ایک ایسا طبی مسئلہ ہے، جو آپ کی پوری زندگی کا نقشہ ہی بدل سکتا ہے، دوسری طرف امریکی ادارے کے مطابق اندازاً ہر چھ میں سے ایک امریکی شہری ہر سال خوراک کی وجہ سے بیمار ہوتا ہے اور ان میں سے تقریباً 3,000 افراد موت کا شکار بن جاتے ہیں۔ اس لیے گوشت اور مرغی کو مناسب درجہ حرارت پر پکانا ضروری ہے، یعنی؛ گائے کا گوشت: 145 ڈگری فارن ہائیٹ قیمہ: 160 ڈگری فارن ہائیٹ مرغی: 160 ڈگری فارن ہائیٹ کچا دودھ اور دیگر ڈیری مصنوعات امریکن یونیورسٹی آف میساچوسٹس کی پروفیسر امانڈا کنچلا کہتی ہیں کہ ’’میں ذاتی طور پر کچا دودھ نہیں پیتی، دودھ کو پیسچورائز (اچھی طرح گرم کرنا) کرنے سے اس میں موجود خطرناک جراثیم ختم ہو جاتے ہیں۔‘‘ اگرچہ کچھ افراد کچے دودھ کو زیادہ ذائقہ دار اور جلدی بیماریوں مثلاً ایگزیما کے لیے مفید قرار دیتے ہیں، مگر سی ڈی سی کے مطابق 1993ء سے 2012ء تک تقریباً 2,000 افراد کچے دودھ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہوئے اور ان میں سے 144 کو اسپتال میں داخل کروانا پڑا۔ کچے دودھ کے ساھ نرم پنیر، آئس کریم اور دہی جیسی اشیاء میں جراثیم کی افزائش کا امکان زیادہ ہوتا ہے، اس لیے ان سے پرہیز ضروری ہے۔ سپروٹس سب سے پہلے تو ہمارے عام قارئین کے لئے یہاں سپروٹس کی وضاحت ضروری ہے۔ سپروٹس سے مراد مختلف بیجوں، جیسے مونگ، ماش، چنے یا دیگر دالوں کی وہ ننھی کونپلیں ہیں جو نمی اور حرارت سے اْگتی ہیں۔ جب ان کونپلوں کو بغیر پکائے یعنی کچا کھایا جائے تو انہیں کچے سپروٹس کہا جاتا ہے۔ امریکن کلیمسن یونیورسٹی میں فوڈ سائنس کے پروفیسر پال ڈاسن کے مطابق اگر وہ یہ نہ جانیں کہ کوئی سپروٹس کہاں سے آئے ہیں تو وہ انھیں نہیں کھاتے۔ اگرچہ سپروٹس کو صحت مند خوراک سمجھا جاتا ہے، لیکن وہ ایسی گرم اور نم جگہوں پر اْگائے جاتے ہیں جو جراثیم کے لیے بھی نہایت موزوں ہوتی ہیں۔ سرکاری تحقیقاتی کی فراہم کردہ رپورٹس شائع کرنے والی امریکن ویب سائٹ فوڈ سیفٹی ڈاٹ گوو کے مطابق بچے، بزرگ اور حاملہ خواتین کے لیے یہ خاص طور پر خطرناک ہو سکتے ہیں۔ مونگ پھلی پروفیسر ڈاسن کے مطابق خوراک سے متعلق الرجی سے ہونے والی اموات کے اعداد و شمار دنیا بھر میں مختلف ہوتے ہیں، مگر  سی ڈی سی کے مطابق امریکہ میں ہر سال تقریباً 11 اموات کھانے سے پیدا ہونے والی الرجی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اگرچہ یہ اموات گوشت میں موجود جراثیم سے کم ہوتی ہیں، لیکن جن افراد کو الرجی ہو، انھیں خوراک اور ماحول کے بارے میں بے حد محتاط رہنا پڑتا ہے۔ مونگ پھلی کی الرجی میں معمولی مقدار سے بھی علامات پیدا ہو سکتی ہیں، جیسے ناک بہنا یا شدید صورت میں گلے کی سوجن جو سانس لینے میں رکاوٹ بن سکتی ہے، جسے اینیفائلیک شاک کہا جاتا ہے۔ امریکن بیسٹ تحقیقاتی طبی ادارہ و ہسپتال ’’میو کلینک‘‘ کے مطابق مونگ پھلی الرجی خوراک سے متعلق اینیفائلیک شاک کی سب سے عام وجہ ہے۔ ایسے افراد عام طور پر اس مرض سے متعلق دوا ’’ایپی نیفرین انجیکٹر‘‘ ساتھ رکھتے ہیں۔ خشک میوے امریکن کالج آف الرجی، دمہ و امیونولوجی کے مطابق وہ افراد جو مونگ پھلی سے الرجی رکھتے ہیں، ان میں سے 25 سے 40 فیصد کو درختوں کے میوہ جات (جیسے بادام، کاجو، اخروٹ، اور پائن نٹس) سے بھی الرجی ہو سکتی ہے۔ مونگ پھلی، درختی میوے اور شیل فِش (چھلکے والی مچھلی) وہ اہم غذائیں ہیں جو شدید الرجی یا اینیفائلیک شاک کا باعث بن سکتی ہیں۔ شیل فِش (سخت خول والے آبی جانور) سخت خول والے آبی جانور یعنی جھینگے، کیکڑے، لابسٹر، کلام، مسلز، سیپیاں اور اسکیلپس نہ صرف الرجی کا سبب بنتے ہیں بلکہ بنا پکائے استعمال کی صورت میں خوراک سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا بڑا ذریعہ ہیں۔ خاص طور پر کچی سیپیاں (Oysters) خطرناک بیکٹیریا ’’ویبریو‘‘ سے آلودہ ہو سکتی ہیں، جو معدے کی خرابی، خون میں انفیکشن، جلد پر چھالے اور بعض صورتوں میں موت کا سبب بن سکتی ہیں۔ یاد رکھیں کہ مرچ یا لیموں بیکٹیریا نہیں مارتے، صرف مناسب پکانے سے ہی حفاظت ممکن ہے۔ چیری کے بیج چیری ایک مزیدار اور مقبول پھل ہے جو دنیا بھر میں مختلف انداز میں کھایا جاتا ہے، چاہے وہ تازہ پھل ہو، میٹھوں میں استعمال ہو یا بطور جوس۔ تاہم اس پھل کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جس سے عام لوگ لاعلم ہوتے ہیں، اور وہ ہے چیری کے بیج۔ ان بیجوں میں قدرتی طور پر ایسے کیمیائی مرکبات پائے جاتے ہیں جو انسانی جسم میں جا کر "سائنائیڈ" جیسا زہریلا مادہ پیدا کر سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق چیری کے بیجوں میں ایمیگڈالِن (amygdalin) نامی مرکب موجود ہوتا ہے، جو جسم میں جا کر ہائیڈروجن سائنائیڈ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ہائیڈروجن سائنائیڈ ایک مہلک زہر ہے جو خلیات کو آکسیجن جذب کرنے سے روکتا ہے اور اگر زیادہ مقدار میں جسم میں داخل ہو جائے تو سانس رکنے، بے ہوشی یا حتیٰ کہ موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ تاہم، یہاں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ عام طور پر چند چیری کے بیج نگل لینے سے جسم پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا، کیونکہ ان کا خول بہت سخت ہوتا ہے اور نظامِ ہضم میں مکمل طور پر نہیں ٹوٹتا۔ اصل خطرہ اس وقت ہوتا ہے جب یہ بیج چبا لیے جائیں یا ان کا سفوف بنا کر استعمال کیا جائے۔ امریکی ماہر غذائیت ڈاکٹر کارل کے ونٹر کے مطابق ’’غذا کا زہریلا پن ہمیشہ مقدار سے مشروط ہوتا ہے، تھوڑی مقدار میں کوئی چیز نقصان دہ نہیں، لیکن اگر یہی چیز حد سے زیادہ استعمال کی جائے تو وہ زہر بن جاتی ہے‘‘ لہٰذا چیری کھانے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ وٹامنز، اینٹی آکسیڈنٹس اور فائبر سے بھرپور پھل ہے۔ مگر اس کے بیجوں سے پرہیز کرنا عقلمندی ہے، خاص طور پر بچوں کے لیے، جو نادانستہ طور پر بیج چبا سکتے ہیں۔ سیب اور ناشپاتی کے بیج چیری کی طرح سیب اور ناشپاتی کے بیج بھی ایسے مرکبات رکھتے ہیں جو جسم میں جا کر سائنائیڈ بناتے ہیں۔ اگرچہ یہ بیج عام طور پر نقصان نہیں دیتے، مگر ان کا مسلسل یا زیادہ استعمال خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ کچی ایلڈر بیریز کچی ایلڈر بیریز، اور ان کے پودے کے دیگر حصے جیسے پتے، چھال اور جڑیں، ایک زہریلا مرکب رکھتے ہیں جسے سیمبونِن (Sambunigrin) کہا جاتا ہے۔ یہ مرکب جسم میں داخل ہونے کے بعد سائنائیڈ میں تبدیل ہو سکتا ہے، جو کہ ایک مہلک زہر ہے۔ اگر ان بیریز کو بغیر پکائے کھایا جائے تو یہ متلی، قے، چکر آنا، پیٹ میں مروڑ، کمزوری، سن ہونا، ذہنی سستی اور دیگر جسمانی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتی ہیں۔ ماہرینِ صحت کی متفقہ رائے یہ ہے کہ ایلڈر بیریز کو ہمیشہ اچھی طرح پکا کر ہی استعمال کریں، کیونکہ حرارت ان میں موجود زہریلے مادے کو ختم کر دیتی ہے۔ جنگلی مشرومز اگر آپ ماہر نہیں تو کسی بھی جنگلی مشروم کو کھانے سے گریز کریں کیوں کہ کچھ مشروم جیسے ’’ڈیتھ کیپ‘‘ میں زہریلے مادے ہوتے ہیں جو پکانے کے باوجود ختم نہیں ہوتے اور چند گھنٹوں میں شدید بیماری، کوما اور بعض صورتوں میں موت کا سبب بن سکتے ہیں۔ کئی کم درجے کے زہریلے مشرومز جگر یا گردوں کو بھی دیرپا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ سبز آلو اگر آلو کو روشنی یا گرم ماحول میں رکھا جائے تو اس میں "سولانین" نامی زہریلا کیمیکل پیدا ہو جاتا ہے، جو سر درد، متلی اور اعصابی مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ آلو کا سبز رنگ بتاتا ہے کہ وہ سولانین پیدا کر چکا ہے، ایسے حصے کاٹ کر علیحدہ کر دینا چاہیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل