Tuesday, July 15, 2025
 

تقریریں نہیں کام بولتے ہیں

 



قطع نظر اس کے کہ موجودہ حکومت سے کچھ غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں لیکن ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ اس ڈیڑھ سالہ حکومت نے بہت سے اچھے کام بھی کیے ہیں جس کی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔ جن سخت معاشی حالات میں شہباز شریف نے عنان حکومت سنبھالا تھا کسی کو بھی اُمید نہ تھی کہ وہ دس ماہ سے زیادہ چل پائیں گے۔ ہمارے بہت سے سیاسی تبصرہ نگار ، فروری 2024 کے انتخابات کے بعد ہر ٹاک شو میں یہ کہتے سنے جا رہے تھے کہ نئی حکومت زیادہ سے زیادہ دس ماہ چل پائے گی، مگر ان سارے تجزیوں، تبصروں اور اندیشوں کو میاں شہباز شریف نے مکمل طور پر غلط ثابت کر کے دکھا دیا۔ یہ درست ہے کہ ہمارے جیسے بہت سے لوگوں کو اس سے بھی زیادہ توقع تھی کہ شاید اس دور میں حالات بہت جلد سنور جائیں گے جو نہ ہوسکا مگر اُمید کی جاسکتی ہے کہ آگے جا کے کچھ نہ کچھ مزید بہتری آئے گی۔ ہمیں وہ دور بھی یاد ہے جب ایک صاحب کو ٹی وی پر آکے قوم سے درخواست کرنا پڑتی تھی کہ خان صاحب کی حکومت کوکچھ مزید مہلت دی جائے اور میڈیا اُن کی مثبت رپورٹنگ کرے تو حالات یقینا بہتر ہوجائیں گے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حالات سدھرنے کے بجائے بد سے بدتر ہوتے چلے گئے اور اپریل 2022 ء میں عدم اعتماد کی تحریک اگر نہیں لائی جاتی تو عوام کا غیظ غضب خود انھیں فارغ کردیتا، مگر جس طرح ہمارے یہاں ہمیشہ مظلومیت اور محرومیت کا فیکٹر سیاستدانوں کی مقبولیت میں بڑا کارگر ہوا کرتا ہے۔  اس نے یہاں بھی کام کر دکھایا اور خان صاحب کی مقبولیت میں اس تحریک عدم اعتماد نے بہت بڑا اضافہ کردیا۔ خود شیخ رشید یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد سے پہلے ہماری مقبولیت ختم ہوچکی تھی اور ہم عوام کا سامنا کرنے سے کترا رہے تھے لیکن اس تحریک عدم اعتماد نے ہمیں پھر سہارا دے دیا۔ جس طرح ہمارے یہاں کے تمام غیر جمہوری ادوار میں ایوب خان کا دور ترقی و خوشحالی کے اعتبار سے سب سے اچھا دورکہلاتا ہے، اسی طرح تمام جمہوری ادوار میں پاکستان مسلم لیگ نون کا دور دیگر تمام سیاسی جماعتوں میں سب سے اچھا سمجھا جاتا ہے۔ اس کے تینوں ادوار جو ماضی میں گزرے ہیں، مدت کے لحاظ سے پندرہ سالوں کے بجائے دس سال سے بھی کم رہے مگرکارکردگی کے لحاظ سے منفرد دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ نو دس سال اگر تسلسل کے ساتھ مل جاتے تو نتائج کچھ مختلف ہوتے۔ بار بار حکومت کے توڑے جانے سے ترقی کا سفر نہ صرف رک جاتا ہے بلکہ زوال پذیر ہوجاتا ہے۔ چھوڑے ہوئے اور ترک کردیے گئے کاموں کو پھر سے شروع کرنے میں اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں اور مشکلیں بھی۔ مگر مسلم لیگ نون اپنی فطرت سے باز نہیں آتی وہ جب پھر سے اپنا سفر شروع کرتی ہے تو اسی جذبے اور ولولے کے ساتھ۔ پنجاب کی وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز ہی کو دیکھ لیجیے، وہ جس دن سے اس عہدے پر فائز ہوئی ہیں، ایک دن بھی چین اور سکون سے نہیں بیٹھیں۔ اُن کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے تمام پیشرو وزراء اعلیٰ سے بڑھ کر کام کرکے دکھائیں۔ پنجاب کے بجٹ میں فراہم کردہ فنڈز کو استعمال کرتے ہوئے وہ ہر سال کچھ نہ کچھ نئے ترقیاتی منصوبوں کو شروع کرتی ہیں اور انھیں جلد مکمل بھی کرتی ہیں۔ یہ تیز رفتاری اور جانفشانی ہمیں دیگر صوبوں میں دکھائی نہیں دیتی۔ پی ٹی آئی کے دور کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار بھی کبھی اس منصب پر فائز رہے اور انھیں اپنے قائد کی بھرپور آشیرواد بھی حاصل تھی اور شاید اُن کے پاس بھی یہی تمام مالیاتی فنڈز اور وسائل حاصل تھے جو آج مریم نواز کو حاصل ہیں لیکن انھوں نے پنجاب کی کوئی خدمت نہ کی۔ سمجھ نہیں آتا جو فنڈز مریم نواز خرچ کر رہی ہیں، وہی فنڈز عثمان بزدار کو بھی حاصل تھے تو انھوں نے انھیں کہاں خرچ کیا۔ جب کوئی کام نہیں ہوا تو وہ پیسے کہاں چلے گئے۔ یہی سوال قوم کو دیگر صوبوں کے وزراء اعلیٰ سے بھی کرنا چاہیے۔ ہمارے تمام عہدیدار اگر قوم کی یہ امانت ایمانداری سے خرچ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ ملک بہت جلد ایک ترقی یافتہ بن جائے۔ ہمارے یہاں قوم کے پیسوں پر عیاشی کی جاتی ہے ۔ تقریباً نصف پیسہ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جوکام بھی کیے جاتے ہیں، اُن کا معیار اتنا ناقص ہوتا ہے کہ ایک دو سال میں ہی وہ انھیں دوبارہ تعمیر کرنا پڑ جاتا ہے۔ کراچی ہی کو لے لیجیے یہاں اس شہرکا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اندرونِ شہر تمام سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہوئی ہیں اور ایک عرصہ سے کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں مگر کوئی توجہ نہیں ہے۔ یہ شہر وفاق اور صوبے کو سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے، اگر اس کے لیے تفویض کیا جانا والا فنڈز ہی اس پر ایمانداری سے خرچ کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ ایک مثالی شہر بن جائے۔ صفورا گوٹھ سے نمائش تک بنائی جانے والی میٹرو لائن تین سالوں سے سست رفتاری سے جاری ہے اور ابھی مکمل ہونے میں مزید دو سال درکار ہیں۔ اسی لمبائی کی لاہور کی ایک میٹرو لائن میاں شہباز شریف نے اپنے دور میں ایک سال میں مکمل کر لی تھی۔ یہی فرق ہے کاموں کی سر انجام دہی میں۔ ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر سے مسائل اور مصائب بڑھ جاتے ہیں۔ اُن کی لاگت اور تخمینہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح K4 کا منصوبہ بھی گزشتہ دس برس سے تاخیر کا شکار ہے اور اب اس کی لاگت بھی حد سے تجاوز کرگئی ہے۔  مسلم لیگ نون پر تنقید کرنے والے کہا کرتے ہیں کہ وہ انفرا اسٹرکچر کے بڑے بڑے منصوبے اس لیے شروع کرتی ہے کہ اس میں کمائی کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں، مگر ایسے لوگ اُن لوگوں کو کیا کہیں گے جو کوئی کام بھی نہیں کرتے ہیں اور صوبے کا سارا فنڈز بھی ہڑپ کر جاتے ہیں۔ کام کرنے والوں پر تو ہم بڑی آسانی سے الزام لگا دیتے ہیں لیکن جس نے ایک کام بھی نہیں کیا اور صوبے میں کوئی ایک بڑا پروجیکٹ بھی نہیں لگایا اس سے سوال نہیں کرتے کہ تم نے سارا بجٹ کہاں خرچ کیا؟ ہم موٹر ویز اور انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں پر کرپشن کے الزام لگا کر کام کرنے والوں کو بدنام کرکے انھیں پابند سلاسل بھی کردیتے ہیں لیکن سو ارب روپوں میں بنائی جانے والی پشاور میٹرو کا حساب طلب نہیں کرتے۔ ایک شخص لاہور میٹرو کو جنگلہ بس کہکر صبح و شام تنقید کیا کرتا تھا، جب اس نے وہی جنگلہ بس سروس پشاور میں بنائی تو لاگت سو ارب روپے سے بھی بڑھ گئی۔ لاہور اس وقت پاکستان کے تمام شہروں میں سبقت لے جاچکا ہے، وہاں اورنج ٹرین اور دیگر منصوبے اس کی گواہی دے رہے ہیں، جب کہ باقی صوبوں کے دارالحکومتوں کا حال بہت ہی برا ہے۔ وہاں کے شہریوں کو لاہورکے شہریوں کا سامنا کرتے ہوئے بڑی شرم اور خفت کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد بھی ہم مریم نواز یا مسلم لیگ نون پر تنقید کرتے ہوئے ایک لمحے کے لیے یہ سوچتے کہ کس جماعت نے اس ملک میں عوام کی خوشحالی پر زیادہ توجہ دی۔ ہمیں تبصرہ کرتے ہوئے اس حقیقت کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے۔ عثمان بزدار جسے اس کا قائد وسیم اکرم پلس کہا کرتا تھا، ساڑھے تین سال سے زیادہ برسر اقتدار رہا لیکن ا س دور کا ایک کام بھی ایسا نہیں ہے جس کی مثال دیکر ہم مریم نواز سے اس کا موازنہ کرسکیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل