Loading
آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان میں معاشی استحکام اور اصلاحات کی رفتار حوصلہ افزا ہے، ایس ڈی پی آئی میں ماہرینِ معیشت، محققین اور پالیسی ماہرین سے خطاب کرتے ہوئے نمایندہ آئی ایم ایف ماہر بینکی نے کہا کہ مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور پاکستان میں ترقی 2025 اور اس کے بعد مزید مضبوط ہونے کی توقع ہے۔ بیرونی چیلنجز کے باوجود ابتدائی پالیسی اقدامات نے میکرو اکنامک استحکام اور سرمایہ کاروں میں اعتماد سازی میں مدد دی۔ ادارہ جاتی اصلاحات پاکستان کی طویل المدت معاشی پائیداری کے لیے اہم ہیں۔ آئی ایم ایف کے نمایندے نے پاکستان کی اقتصادی اصلاحات کے حوالے سے جس مثبت رائے کا اظہارکیا ہے، وہ ملک کے معاشی سفر میں ایک نکتہ عروج ہے۔ بلاشبہ پاکستان نے میکرو اکنامک استحکام، مالیاتی نظم، سرمایہ کار اعتماد کی بحالی اور ادارتی اصلاحات میں بہترین پیش رفت کی ہے، جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف کا انتظامی بورڈ پہلے جائزے کی کامیابی کی منظوری دے سکا، یہ سنگِ میل معاشی استحکام کی علامت ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے نمایندے کے بیان سے جہاں ایک جانب معیشت کی بہتری کی اُمید جاگتی ہے، وہیں معاشی چیلنجز جیسے مہنگائی، بیرونی قرضوں کا بڑھتا بوجھ، کرنسی کی قدر میں اتار چڑھاؤ، عوامی سطح پر بے روزگاری اور محدود معاشی مواقعے، ابھی بھی ایسے معاملات ہیں جن پر فوری توجہ درکار ہے۔موجودہ صورتِ حال میں عالمی مالیاتی ادارے کا پاکستان کے بارے میں مثبت رویہ دراصل اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان نے اصلاحات کا جو سلسلہ شروع کیا، اس سے عالمی سطح پر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ آئی ایم ایف نے معاشی استحکام اور اصلاحات کو حوصلہ افزا قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستان کی موجودہ معاشی سمت سے مطمئن ہے ۔ پاکستان میں عوام کی قوت خرید پر شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ خوراک، ادویات، توانائی اور رہائش جیسے بنیادی شعبوں میں قیمتوں کا اچانک اضافہ متوسط طبقے،کم آمدنی والے خاندانوں اور شہروں کے غریب علاقوں کے رہنے والوں کے لیے زندگی مشکل بنا دیتا ہے۔ یہ صورتحال عوامی عدم اطمینان اور بے یقینی کا باعث بن سکتی ہے۔ بے روزگاری کی شرح اگرچہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کنٹرول میں دکھائی دے رہی ہے، مگر حقیقی دنیا میں نوجوانوں کے جمعیت میں شمولیت زیادہ ہے اور ملازمتیں محدود ہیں۔ ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل سروسز جیسے شعبوں میں تو مواقعے بہتر ہیں، مگر روایتی شعبوں میں روزگار کا فقدان نمایاں ہے۔ پاکستان کا ڈالر قرضوں کا حجم اور ڈیفالٹ کے نزدیک پہنچ جانے کا خطرہ ایک دہائی سے زیر بحث ہے۔ آئی ایم ایف پروگرامز، دوطرفہ ویسٹس اور ورلڈ بینک کے قرضے حالات کو بقا کی حد تک مستحکم رکھنے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں، مگر اصل نظام کی تبدیلی ادارہ جاتی اصلاحات کے بغیر ممکن نہیں۔ پاکستان نے ٹیکس نیٹ میں بہتری، ٹیکس نیٹ ورک کی توسیع اور رشوت ستانی میں اضافے والے کاروباری اداروں کے خلاف شفاف طریقے متعارف کرائے ہیں۔ یہ اقدام متعدد اداروں، بشمول نجی شعبے، آئی سی ٹی، صنعت، اور تجارت میں ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ اس سے نہ صرف ٹیکس محاصل میں اضافہ ہوا بلکہ غیر مکمل ٹیکس ڈیٹا کی خامیوں میں بھی کمی واقع ہوئی۔ آئی ایم ایف کا جائزہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مالیاتی خسارے میں کمی آئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت نے اپنے اخراجات اور آمدنی کے بیچ رکاوٹوں کو دور کیا، اور مالیاتی اداروں کے حوالے سے اعتماد بڑھا ہے۔ بجلی اور گیس کے شعبوں میں اصلاحات طے کرنے میں کمی بیشی رہی، لیکن ہدف یہ تھا کہ نظام میں شفافیت لائی جائے، ناقابلِ وصول بیلنس میں کمی ہو اور توانائی کا موثر استعمال یقینی بنایا جائے۔ اگر یہ ہدف نتیجہ خیز رہے، تو سرمایہ کاری کی مزید راہیں کھل سکتی ہیں۔ آئی ایم ایف خاص طور پر ادارہ جاتی اصلاحات پر زور دیتا ہے، چونکہ پاکستان میں محکموں، کمیشنز اور سروسز کے حوالے سے بے ضابطگیاں، ناقابلِ انسدادی عمل، اور کرپشن موجود ہیں، اس لیے اصلاحات کا یہ پہلو انتہائی اہم ہے۔ یہ اصلاحات صرف رسمی نہیں بلکہ عملی طور پر نافذ ہونی چاہئیں تاکہ ادارے منصوبوں میں مزید شفاف اور بے لچک ہوں۔آئی ایم ایف کا مثبت رویہ سرمایہ کاروں کو ایک خوشخبری دیتا ہے۔ جب مالیاتی ادارے، اسٹاک ایکسچینجز اور کرنسی منڈی میں خوشگوار توقعات پیدا ہوں، تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ روپیہ مستحکم ہو سکتا ہے، شرح سود میں توازن آ سکتا ہے، اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانی خصوصاً فنانس یا کرپٹو مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی جانب بڑھیں گے۔ جب بین الاقوامی سطح پر کوئی اہم تنظیم پاکستان پر اعتماد کا اظہار کرتی ہے، تو یہ مؤثر طور پر اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کے اعتماد اور بھروسے کو تقویت دیتا ہے۔ اسٹاک کی قیمتیں زیادہ درست ردعمل کے ساتھ حرکت کرتی ہیں، مالیاتی ادارے اس سسٹم میں سرمایہ کاری میں دلچسپی لیتے ہیں اور یہ تسلسل کامیابی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ پاکستان کو اگلے چند سالوں میں مثبت اصلاحات اور معاشی شفافیت کو جاری رکھنا ہوگا۔ خصوصاً وہ شعبے جن میں سرمایہ کار اعتماد کم نظر آتا ہے، جیسے پٹرولیم، توانائی، مواصلات اور ڈسٹری بیوشن چین۔ ان شعبوں میں خصوصی اصلاحاتی پیکیجز ہو سکتے ہیں، مثلاً پیپیکو یا ڈسکوز جیسے اداروں میں شفاف انتظامی تبدیلیاں، ہیڈ آف سروس کے تبادلے کے طریقے، قرضوں کا مناسب انفلاجمنٹ اور ماحولیاتی ذمے داری کا نفاذ۔ اگر اصلاحات جاری رہیں اور مالیاتی اخراجات کم ہو، تو حکومت کو سوشل فیلٹر کی ابتری کا خود بھی توڑنا ہو گا۔پاکستان میں حالیہ برسوں میں آئی ٹی اور اسٹارٹ اپ کلچر میں بے شمار مواقعے ہیں۔ اربوں ڈالر کا خارجی سرمایہ اس شعبے میں آ رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ٹیکس میں چھوٹ، قانونی تحفظ، سرکاری اداروں کے ڈیجیٹلائزیشن، ڈیٹا سیکیورٹی اور ڈیجیٹل نوکریاں پیدا کرنے پر خصوصی توجہ دے تاکہ نوجوانوں کو روزگار ملے اور ملک کی برآمدی معیشت مضبوط ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان میں زراعت اب بھی بہت پیچھے رہ گئی ہے جس کی وجہ سے استحکام، منافع اور شفاف ڈیٹا کی کمی ہے۔ مائیکرو فنانس، زرعی انشورنس اور تحقیق و ترقی کے لیے سرمایہ کاری ضروری ہے۔ اس کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی مثلاً ڈرپ ایریگیشن، ڈیجیٹل زرعی ڈیٹا پروگرامز اور موسمیاتی پیشن گوئی کا نظام فعال ہونا چاہیے۔ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے ذریعے فنڈنگ کی کارکردگی بہتر ہو رہی ہے، مگر ان کے استعمال میں شفافیت مزید بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ذرایع غیر مقصدی اخراجات میں ضایع نہ ہوں۔ پبلک سیکٹر انرجی ڈسٹری بیوشن کمپنیز میں تنظیمی تبدیلیاں اور نان ڈسکوز، بہتر فنڈ مینجمنٹ اور ٹیکنالوجی کے اضافے کی تلقین کی گئی ہے۔ کمپریڈ اکاؤنٹنگ، ڈیجیٹل میٹرنگ اور ریگولیٹری فریم ورک مضبوط کرنے سے توانائی کا غیر مصنوعی استعمال کم ہو سکتا ہے اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوسکتا ہے، اگر معیشت مضبوط ہوتی ہے تو حکومت کو تعلیم اور صحت جیسے شعبوں پر زیادہ سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ حکومتی تعلیم بجٹ اس وقت بھارت اور بنگلہ دیش سے نمایاں طور پرکم ہے، اس میں اضافہ عوامی بہبود کو یقینی بنیادوں پر مضبوط کرے گا۔سرکاری شعبوں میں شفافیت لائیں تاکہ عوام کا اعتماد بڑھے اور بدعنوانی میں کمی ہو۔ حکومتیں بدلتی رہیں مگر اصلاحاتی پالیسیوں میں تسلسل ہونا چاہیے۔ مہنگائی میں کمی، روزگار کے مواقعے میں اضافہ، معاشی پیکیجز میں کمی، تعلیم، صحت میں سرمایہ کاری پر توجہ دی جائے۔ بیرونی سرمایہ کاری، دو طرفہ معاہدات، ریمیٹنس میں سہولت اور سہولیات کو فروغ دیا جائے۔ صحت، تعلیم، سائبر سیکیورٹی، ڈیجیٹل بینکنگ میں حسن انتظام اور معیار کی بہتری کی جائے۔ زرعی شعبے میں موسمیاتی تبدیلی کے لیے نئے ٹیکنالوجی، انشورنس اسکیم، موسم کی پیشگوئی پر زور دیا جائے۔ پاکستان کی موجودہ معاشی حکمتِ عملی مثبت سمت میں جا رہی ہے، اور آئی ایم ایف کی حمایت اس کا ثبوت ہے، مگر یہ ایک آغاز ہے، حقیقی کامیابی کے لیے تمام طبقوں، شعبوں اور اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ روزمرہ زندگی میں بہتری آئے، معاشی مشکلات کم ہوں اور ہر فرد کو معاشی انصاف اور ترقی کے مساوی مواقعے ملیں۔اگر یہ لائحہ عمل شفافیت، ادارتی اصلاح اور سیاسی استحکام کے ساتھ جاری رہے، تو پاکستان 2030 تک sustainable growth حاصل کر سکتا ہے اور ایک’’ ہائی مڈل انکم ملک‘‘ کے درجے میں پہنچنے کا راستہ کھل سکتا ہے۔ مستقبل کی راہیں روشنی سے منورکی جاسکتی ہیں، مگر یہ صرف ایک پروگرام کے بعد مطمئن ہونے کی وہ لذت نہیں بلکہ مسلسل محنت، استقامت اور قربانی کا تقاضا کرتی ہیں۔ اسی طرح ملک کے نوجوان، سرمایہ دار، مزدور، کسان اور تاجران ایک مشترکہ اقتصادی عروج کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں، تو پاکستان نہ صرف معاشی طور پر مضبوط ہوگا بلکہ عالمی اقتصادی اداروں میں اپنی جگہ بھی مستحکم کرے گا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل