Tuesday, July 15, 2025
 

کراچی کے مسائل

 



جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ سندھ حکومت نے کراچی تباہ کردیا ہے ، شہر میں لاتعداد مافیازکام کر رہی ہیں ،شہر کو ہر طرف سے لوٹا جا رہا ہے اور عوام کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ کراچی میں قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی اور کرپشن عام ہے۔ جے یو آئی سندھ کے امیر مولانا عبدالقیوم اور سیکریٹری جنرل علامہ راشد محمود سومرو نے بھی کہا ہے کہ سندھ حکومت کی توجہ کراچی کے مسائل کے بجائے صرف ٹریفک جرمانے بڑھانے پر ہے، انسانی جانوں سے تو حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں ، کراچی میں خستہ حال عمارتیں جانی نقصانات کا باعث بن رہی ہیں۔ مذہبی اسکالر مفتی نعمان نعیم کا کہنا ہے کہ کراچی میں غیر قانونی تعمیرات روکی جائیں اور حال ہی میں گرنے والی عمارت کے متاثرہ خاندانوں کو ریلیف دیا جائے۔ سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے قائد حزب اختلاف نے کہا ہے کہ کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کا ذمے دار ایس بی سی اے ہے جس کے افسران غیر قانونی تعمیرات کراتے ہیں جس کی وجہ سے عمارتیں گرنے کے واقعات مسلسل ہو رہے ہیں اور قیمتی جانیں ضایع ہو رہی ہیں۔ ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی نے کہا ہے کہ کراچی شہر کی سڑکیں کھنڈرکا منظر پیش کر رہی ہیں۔ حکومت کے ٹرانسپورٹ کے تمام دعوے زبانی جمع خرچ ثابت ہوئے۔ شہر میں جگہ جگہ گڑھے اور ٹوٹی پھوٹی شاہراہیں شہریوں کے لیے عذاب بن چکی ہیں ۔ کراچی میں غیر فعال ٹریفک نظام اور ناقص ٹرانسپورٹ شہریوں کے لیے انتہائی پریشانی کا باعث ہیں۔ یہ تمام اہم رہنماؤں کے بیانات صرف ایک روز شایع ہوئے جب کہ کراچی کے دیگر مسائل پر دیگر تنظیموں کے بیانات الگ ہیں ۔ لیاری میں جو عمارت گری جس میں 13 لوگ جاں بحق اور 8 زخمی ہوئے۔ اسی تناظر میں جی ڈی اے، جماعت اسلامی، سندھ یونائیٹڈ پارٹی سمیت دیگر نے عمارت گرنے کے سانحے کا ذمے دار سندھ حکومت کو قرار دیا جس کے جواب میں وزیر بلدیات سعید غنی نے کہا کہ ’’ مخدوش عمارتوں کے مکین جگہ چھوڑنے پر تیار نہیں اور عمارتیں خالی کرنے کے نوٹسوں پر بھی لوگ عمل نہیں کرتے، جس سے جانی نقصان ہوا ہے۔‘‘ کراچی میں 590 عمارتیں مخدوش قرار دی گئی ہیں جن سے ہزاروں افراد کی جانوں کو خطرہ ہے اور شہر میں 6 ہزار عمارتیں مخدوش اور ساٹھ ہزار عمارتیں غیر قانونی قرار دی گئی ہیں مگر ناقابل رہائش عمارتوں کو خالی کرانے کے لیے حکومت نے سخت اقدامات نہیں کیے اور شہر میں گزشتہ دنوں میں چار مخدوش عمارتیں گرنے سے 55 ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ کراچی میں عمارتیں گرنے کے زیادہ واقعات ضلع جنوبی میں ہوئے جو پرانا شہر،گلیاں تنگ اورگنجان آبادی کا علاقہ ہے جہاں کرائے کے لیے رہائش انتہائی مہنگے داموں بھی دستیاب نہیں، جس کی وجہ سے رہائشی فقدان کراچی کا اہم مسئلہ بن چکا ہے اور ضلع جنوبی میں شہرکی ہول سیل مارکیٹیں بھی ہیں اور مہنگا علاقہ ہے تنگ گلیاں،گنجان آبادی پرانی اور خستہ عمارتیں اور شکستہ گھر بھی ضلع جنوبی میں زیادہ ہیں۔ اہم سرکاری دفاتر،گورنر، وزیر اعلیٰ ہاؤس، سٹی کورٹس اور ریڈ زون بھی کراچی کے پرانے ضلع جنوبی میں ہے جہاں مسائل کی بھی بھرمار ہے اور فراہمی و نکاسی آب، بجلی،گیس پانی و دیگر بلدیاتی مسائل کراچی کے سات اضلاع میں جنوبی ضلع میں سب سے زیادہ ہیں اورکئی سالوں سے کراچی کے تمام ہی علاقوں میں لوگ بنیادی سہولتوں سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں، انھوں نے کراچی کے لیے دعوے زیادہ اورکام برائے نام کیا۔ ہر ایک نے جی بھی کسر نکالی ہے۔ ان کراچی کے 60 لاکھ موٹرسائیکل سواروں کو نئی نمبر پلیٹں لگانے کا کہا گیا ہے۔ اس فیصلے سیکراچی والوں کو مزید مالی بوجھ برداشت کرنا ہوگا۔ حکومت نے حکم جاری کیا ہے کہ تمام موٹرسائیکلوں پر نئی اجرک والی پلیٹیں لگائیں اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانے بڑھا دیے گئے ہیں اور یہ مہربانی پورے سندھ کے لیے نہیں صرف کراچی کے لیے ہے حالانکہ اگر ایسا کرنا ضروری ہے تو اس کا اطلاق پورے سندھ پر ہونا چاہیے۔ سندھ حکومت کو کراچی کی تباہ حال سڑکوں، بجلی،گیس، پانی فراہمی و نکاسی آب کے مسائل کو حل کرنے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل