Tuesday, July 15, 2025
 

تنازعات سے بھرپور’’ میوزک نائٹ ‘‘

 



تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کا آغاز ہی تنازعات سے ہوا ہے۔ ویسے تو تحریک کا آغاز لاہور میں مرزا آفریدی کے ایک بڑ ے فارم ہاؤس میں قوالی نائٹ سے ہوا ۔ جس پر بھی تنازعات سامنے آئے ہیں۔ بہر حال وزیر اعلیٰ گنڈا پور ،کے پی کے اسمبلی ارکان اور قومی اسمبلی کے ارکان کے ساتھ لاہور آئے۔ جہاں پنجاب اسمبلی کے ارکان بھی موجود تھے۔ سب مرزا آفریدی کے فارم ہاؤس پر اکٹھے ہوئے۔ مرزا ٓافریدی نے سب مہمانوں کے لیے پر تکلف کھانے اور قوالی نائٹ کا اہتمام کیا۔ پہلے تو یہ بتایا گیا تھا کہ اس موقع پر احتجاجی تحریک کے خدو خال اور اس کے پروگرام کا اعلان ہوگا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس کھانے کے حوالے سے سب سے بڑ اتنازعہ علیمہ خان اور عالیہ حمزہ کا اس موقع پر موجود نہ ہونا تھا۔ بعدازاں عالیہ حمزہ اور شیخ وقاس اکرم کے آڈیو پیغامات میڈیا میں لیک ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تقریب میں میڈیا نے عالیہ حمزہ کی غیر موجودگی پر سوالات اٹھائے تو تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے میڈیا کو بتایا کہ ان کی پہلے سے کوئی اہم مصروفیات طے تھیں۔  اس لیے وہ اس تقریب میں شریک نہیں ہوئیں، اس میں اختلاف والی کوئی بات نہیں۔ لیکن بعد ا زاں عالیہ حمزہ نے میڈیا کو ایک وضاحت جاری کی جس میں انھوں نے کہا کہ انھیں بھی نہیں معلوم وہ کہاں مصروف تھیں اور ایسی کونسی مصروفیات ہیں جس کی وجہ سے وہ اس تقریب میں شریک نہیں ہو سکی ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے میڈیا کو بتایا کہ وہ کہیں مصروف نہیں تھیں۔ بعدازاں میڈیا میں شیخ وقاص اکرم کی وہ آڈیوز بھی لیک ہو گئی ہیں جن میں وہ عالیہ حمزہ کو شرکت سے روک رہے تھے۔  عالیہ حمزہ کو یہ کہہ کر اس تقریب میں شرکت سے روکا گیا کہ یہ صرف ارکان پارلیمنٹ کی میٹنگ ہے، چونکہ وہ رکن پارلیمنٹ نہیں ہیں، ا س لیے وہ شریک نہ ہوں۔ لیکن اس تقریب میں تو کئی ایسے لوگ موجود تھے جو رکن پارلیمنٹ نہیں ہیں۔ سب سے بڑی مثال سلمان اکرم راجہ کی تھی۔ اس کے علاوہ اور بھی ایسے لوگ اس تقریب میں موجود تھے جو رکن پارلیمنٹ نہیں ہیں۔ بانی تحریک انصاف کی بہن علیمہ خان بھی اس تقریب میں موجود نہیں تھیں۔ ان کے اور علی امین گنڈا پور کے اختلافات کا سب کو علم ہے۔ شاید اسی لیے وہ بھی شریک نہیں ہوئیں۔ اس بات پر بھی سب حیران تھے کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اسلام آباد سے براستہ جی ٹی روڈ تین سو گاڑیوں کے قافلہ میں لاہور آئے۔ انھیں راستہ میں کہیں نہیں روکا گیا۔ اس طرح یہ علی امین گنڈا پوراور ’’دوستو ں ‘‘کے درمیان ایک فکس میچ نظر آیا۔ گنڈا پور اور ان کا قافلہ جی ٹی روڈ میں راستہ میں کہیں نہیں رکا۔ کسی شہر پر کوئی استقبال نہیں ہوا۔ کہیں رک کر کوئی تقریر نہیں کی گئی۔ اسلام آباد سے لاہور تک کا سفر جی ٹی روڈ پر خاموشی سے کیا گیا۔ وہ سیدھے فارم ہاوس پر آئے اور قوالی نائٹ انجوائے کر کے چلے گئے۔ نہ انھیں روکا گیا۔ نہ انھوں نے ایسی کوئی بات کی جس سے کوئی ناراض ہوتا۔ ورنہ پہلے تو راستے میں کنٹینرز لگا دیے جاتے تھے، رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی تھیں۔ لیکن اس بار ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔ تقریب میں گنڈا پور نے میڈیا سے بات بھی کی۔ انھوں نے نوے روز کی تحریک اک اعلان کیا۔ لیکن اس کے خدو خال اور اس کے پروگرامات کا کوئی اعلان نہیں کیا۔ بلکہ انھوں نے فیصلہ سازوں کو مذاکرات کی دعوت بھی دی۔ انھوں نے کہا کہ آئیں بیٹھیں اور دلائل سے بات کریں۔ دوسری طرف اس تحریک کے اعلان کے وقت ہی بانی تحریک انصاف نے ہر قسم کے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بلکہ ان کی طرف سے واضع اعلان کیا گیا تھا کہ اب کوئی مذاکرات نہیں ہوںگے۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ اس سے پہلے کوٹ لکھپت میں قید اسیران نے ایک خط کے ذریعے مذاکرات شروع کرنے کا کہا تھا۔ لیکن اس خط کو مسترد کر دیا گیاتھا۔ بانی کی بہن نے گنڈا پور کی جانب سے دوبارہ مذاکرات کی بات کرنے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ جب بانی مذاکرات کا دروازہ بند کر چکے ہیں تو پھر گنڈا پور مذاکرات کی بات دوبارہ کیسے کر سکتے ہیں۔ اس لیے گنڈاپور کا دورہ لاہور شدید تنازعات کا شکار ہو گیا ہے۔ ان کے اوپر ان کی پارٹی میں سے ہی تنقید ہو رہی ہے۔ مرزاآفریدی کے فارم ہاؤس پر تقریب منعقد کرنے پر بھی اختلاف سامنے آیا ہے کیونکہ انھوں نے نو مئی کی نہ صرف مذمت کی تھی۔ بلکہ وہ غیر فعال بھی ہوگئے تھے۔ اب وہ دوبارہ سینیٹ کے امیدوار ہیں۔ اور ان کے ٹکٹ کو لے کر بھی بہت تنازعہ ہے۔ ایسے میں ان کے فارم ہاؤس پر تحریک انصاف کی ساری قیادت کا جمع ہونا اپنی جگہ سوالات پیدا کر رہا ہے۔ ویسے تو یہ کہا گیا تھا کہ یہ تقریب یا آپ کہہ لیں یہ میٹنگ یا آپ کہہ لیں یہ قوالی نائٹ تحریک کے آغاز پر منعقد کی گئی تھی۔اور تحریک بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے ہے۔ لیکن اس تقریب میں گنڈا پور نے ساری گولہ باری مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف کر دی۔ ان کا بنیادی ہدف حکومت یا اسٹبلشمنٹ نظر نہیں آئے۔ اب یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ حکومت کے خلاف تنقید کرنے اور اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کرنے کے بجائے گنڈا پور نے مولانا کے ساتھ محاذ کھولنا کیوں مناسب سمجھا۔ اس کا تحریک انصاف کو کیا فائدہ ہے؟ کیا مولانا بانی تحریک انصاف کی رہائی کی راہ میں رکاوٹ ہیں؟ گنڈا پور نے یہ اعلان بھی کیا کہ یہ نوے روز کی تحریک ہے۔ عالیہ حمزہ، علیمہ خان سمیت سب سوال کر رہے ہیں کہ ایک طرف تو یہ کہا جا رہا ہے کہ پانچ اگست کو یہ تحریک اپنے عروج پر ہو گی۔ پھر نوے دن کہاں سے آگئے۔ نوے دن کا اعلان کب ہوا۔ پھر یہ اعلان کب ہوا کہ اگر نوے دن میں اہداف حاصل نہیں ہوئے توسیاست چھوڑ دی جائے، فیصلہ کب ہوا۔ کیا نوے دن بعد بانی تحریک انصاف بھی سیاست چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کیونکہ سیاست چھوڑنے کا اعلان کافی معنی خیز نظر آیا۔ اگر نوے دن میں کچھ نہ ہوا تو سیاست نہیں کریں گے۔ سب سوال کر رہے ہیں کہ گنڈا پور نے یہ اعلان کیسے کر دیا۔ انھیں اس کا مینڈیٹ کس نے دیا؟ کیا واقعی تحریک انصاف کے اندر سیاست ختم کرنے کی کوئی بحث چل رہی ہے؟ کیا بانی تحریک انصاف نے کہا ہے کہ اگر آپ نے مجھے اب نوے دن میں رہا نہیں کروایا تو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ لاہور کی قوالی نائٹ تنازعات سے بھر پور رہی ہے۔  

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل