Loading
پی ٹی آئی مزاحمتی سیاست کا نیا راستہ تلاش کررہی ہے ۔بانی پی ٹی آئی ایک دفعہ پھر حکومت اور بالخصوص اسٹیبلیشمنٹ پر دباو بڑھا کر او رکچھ عالمی قوتوں کی حمایت کے ساتھ سیاسی اور قانونی ریلیف چاہتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی مفاہمت ہونی ہے تو اس کا سیاسی راستہ بھی عملی طور پر مزاحمت کی سیاست کی بنیاد پر ہی نکلے گا۔پی ٹی آئی حکومت کے مقابلے میں براہ راست اسٹیبلیشمنٹ سے مذاکرات کی حامی ہے مگر وہاں سے بھی فی الحال کو ئی راستہ ایسا نہیں نکل رہا جو بانی پی ٹی یا پی ٹی آئی کے حق میں ہو۔حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کی مشترکہ حکمت عملی میں ہمیں کہیں بھی پی ٹی آئی کے لیے ا ن کی اپنی شرائط پر سیاسی راستے کے دروازے بند ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بانی پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی پانچ اگست کو ملک بھر میں کوئی بڑی سیاسی تحریک عملی بنیادوں پر پیدا کرسکیں گے؟ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے اس دفعہ تحریک آر ہوگی یا پار ہوگی او راگر ہمیں کامیابی نہیں ملتی اور ہمیں سیاسی راستہ نہ دیا گیا تو پھر ہم کچھ نئے کے ساتھ نیا فیصلہ کریں گے جو ایک بڑا سرپرائز ہوگا۔علی امین گنڈا پور نے 90روز کا الٹی میٹم دیا ہے اور اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ہی بات چیت پر زورد یا ہے۔ پی ٹی آئی کی ایک سیاسی حکمت عملی بانی پی ٹی آئی کے دونوں بیٹوں قاسم اور سلیمان کی واپسی اور تحریک کی قیادت کے طور پر سامنے آئی ہے ۔اول تو اس کے امکانات بہت کم ہیں اور اگر ان کی آمد ہوتی ہے تو یہ آمد اپنے والد سے ملاقات تک ہی محدود وہوگی اور اگر وہ دونوں بیٹے سیاست یا والد کی رہائی کو بنیاد بناکر آنا چاہتے ہیں تو پھر ا ن کی یہ آمد سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگی اور جب وہ امریکی کانگریس یا دیگر ملکوں کے پارلیمانی ارکان ، سینٹرز، میڈیا ، تھنک ٹینک ، قانونی ماہرین ، انسانی حقوق سے وابستہ افرادکو ساتھ لے کر آتے ہیں تو اس کا یہ ہی مطلب ہے کہ ان کی آمد کو ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت ہی تیار کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے اسیر رہنماؤں نے سیاسی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے جو خط لکھا تھا اسے بھی بانی پی ٹی آئی کی طرف سے کوئی بڑی پزیرائی نہیں مل سکی اور معاملات مذاکرات سے باہر نکل کر مزاحمت کی سیاست کی طرف جارہے ہیں۔ پی ٹی آئی کا المیہ یا اس وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہی یہ ہے کہ اس کا حتمی مزاحمت کی تحریک سے قبل ہی داخلی انتشار مسلسل بڑھتا جارہا ہے اور سب ہی جماعت کے اندر ایک دوسرے سے باہمی ٹکراو اور بداعتمادی کا شکار ہیں۔پنجاب کی چیف آرگنائزر عالیہ حمزہ نے سوال یہ اٹھایا ہے کہ علی امین گنڈا پور نے جس 90روز کا الٹی میٹم دیا ہے وہ کہاں سے آیا ہے، علی امین گنڈا پور نے لاہور آمد سے پہلے پنجاب کی تمام قیادت کو اعتماد میں کیوں نہ لیا،ایک مخصوص فرد کے ڈیرے پر سیاسی دربار کیوں سجایا گیا اور اس کے کیا سیاسی مقاصد تھے اور علی امین کس کے حکم یا خوشنودی پر لاہور تشریف لائے۔ علیمہ خان جن کے پاس کوئی پارٹی عہدہ نہیں ان کی سیاسی جماعت اور ان کے فیصلوں میں سیاسی طور پر مداخلت بڑھتی جارہی ہے اس پر موجودہ باہر بیٹھی قیادت کو بھی تحفظات ہیں ۔ علی امین گنڈا پور کو اپنے ہی صوبہ میں پارٹی کے اندر سے اپنی حمایت پر کافی مشکلات کا سامنا ہے ۔پارٹی کی ساری قیادت جو باہر بیٹھی ہے وہ نہ تو پارٹی کو متحد رکھ سکی ہے اور نہ ہی داخلی معاملات میں جو بھی ٹکراو یا بدمزگی ہے اسے ختم کیا جا سکا۔پی ٹی آئی کے ارکان پارلیمنٹ اس لڑائی کی تقسیم کا بھی شکار ہیں اور اسی طرح مزاکرات یا مفاہمتی سیاست سمیت اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکراو میں بھی تقسیم ہیں ۔ کئی پی ٹی آئی کے ارکان پارلیمنٹ اور موجودہ قیادت براہ راست اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکراو کی حامی نہیں اور وہ کوئی درمیانی راستہ بنا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔جو لوگ اسٹیبلیشمنٹ یا حکومت کی سطح پر بیٹھ کربانی پی ٹی آئی کو عملا مائنس کرکے کسی من پسند کو آگے لانا چاہتے ہیں وہ کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہوگا۔بانی پی ٹی آئی ایک طرف اپنی ہی جماعت کے ارکان پارلیمنٹ یا پارلیمانی پارٹی سے خوش نہیں کیونکہ وہ کوئی بڑے دباو کی مزاحمت پارلیمانی سیاست میں نہیں کرسکے اور دوسری طرف ان کو یہ بھی گلہ ہے کہ ارکان پارلیمنٹ سڑکوں پر کوئی بڑ ی تحریک پارٹی کے حق میں کرسکے ہیں۔اسی بنیاد پر بانی پی ٹی آئی کو کہنا پڑا کہ جو لوگ پارٹی میں مزاحمت کی سیاست کے لیے تیار نہیں وہ اپنا متبادل راستہ اختیار کرلیں ۔ اگرچہ بہت سے سیاسی پنڈت بانی پی ٹی آئی کو مفاہمت اور اپنے سخت گیر موقف میں لچک پیدا کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں اور ان ہی کے بقول ڈیڈ لاک بھی ان ہی کا پیدا کردہ ہے۔اول تو مفاہمت اور سیاسی یا جبری ڈکٹیشن میں ہمیں فرق کو سمجھنا ہوگا۔ویسے بھی پی ٹی آئی اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان جتنی زیادہ دوریاں یا عدم اعتماد ہوگا تو اس کابراہ راست فائدہ حکومت کو ہی ہوگا ۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کیونکر مزاحمت کی سیاست کا راستہ دوبارہ اختیار کررہے ہیں ان کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ کیا وجہ ہے کہ حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کی طرف سے بھی کسی بھی طور پر پی ٹی آئی کو سیاسی راستہ نہیں دیا جارہا ۔جب سیاسی جماعتوں کے لیے سیاسی راستے بند کیے جاتے ہیں تو اس صورت میں سیاسی جماعتیں مزاحمت کے علاوہ کیا کرسکتی ہیں ۔ موجودہ حالات میں کیا پی ٹی آئی کوئی بڑی سیاسی تحریک چلانے کی صلاحیت رکھتی ہے تو اس جواب اتنا سادہ نہیں جتنا پی ٹی آئی کے لوگ سمجھ رہے ہیں۔ آج بھی جب جب بانی پی ٹی آئی ایک بڑی سیاسی تحریک کا اعلان کررہے ہیں تو ایسے میں پی ٹی آئی ہی کے داخلی معاملات میں موجود خرابیاں بڑی تحریک میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔بانی پی ٹی آئی اور باہر بیٹھی پی ٹی آئی کے پیغام میں کافی مسائل دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ایسے میں پی ٹی آئی کے سیاسی کارکنوں میں بددلی کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔اس لیے پی ٹی آئی ضرور تحریک چلائیں مگر خود اپنا داخلی احتساب بھی کریں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور جو سیاسی حکمت عملیاں اب تک اختیار کی گئی ہیں وہ کیونکر کسی بھی طور پر مطلوبہ نتائج نہیں دے سکے ۔کیونکہ بغیر تیاری کے سیاسی میدان میں کودنا سیاسی خود کشی کے زمرے میں بھی آتا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل