Monday, July 21, 2025
 

جنگ اور جادو

 



’’اسرائیل نے گزشتہ ماہ ایران کے ساتھ ہونے والی جنگ کے دوران ماورائے فطرت قوتوں اور جنات کو استعمال کیا۔‘‘ یہ ایک حیرت انگیز انکشاف تھا یا دعویٰ، یا کچھ اور، لیکن اسے پیش کرنے والے ایک اخبار کے سابق ایڈیٹر عبداللہ گنجی ہیں جو پاس داران انقلاب سے وابستہ تھے۔ ایران کے اس سینئر عہدیدار کے دعوے کے مطابق بارہ روزہ جنگ کے دوران ایک عجیب و غریب منظر سامنے آیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ حالیہ واقعات کے بعد تہران کی سڑکوں پر کچھ کاغذات ملے جن پر یہودی علامات کے حامل تعویذ موجود تھے۔‘‘ کیا واقعی اسرائیل یا اس کے شہریوں کی جانب سے ایران پر جادو کیا گیا یا تعویذ ڈالے گئے۔ کیا واقعی جنگوں کے بیچ جادو ٹونے کارآمد ہوتے ہیں۔ ’’جب دو ملکوں کے درمیان لڑائی ہوتی ہے یعنی جنگ ہوتی ہے تو اس سے پہلے دونوں ممالک کے جناتوں میں جنگ ہوتی ہے۔‘‘ بچپن میں جب یہ بات کسی بابے نے کہی تھی تو حیرت سے ہمارا منہ کھل گیا تھا۔ ’’کیا ایسا بھی ہوتا ہے؟‘‘ ’’بالکل ہوتا ہے جیسے ہم انسان رہتے ہیں، اسی طرح جنات بھی رہتے ہیں۔ جیسے ہم کہتے ہیں کہ یہ ہمارا ملک ہے، اسی طرح وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ہمارا ملک ہے۔ جس طرح ہمارے یہاں اردو، پنجابی، سندھی زبانیں بولی جاتی ہے، اسی طرح وہ بھی مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ جنات انگریز یعنی عیسائی بھی ہوتے ہیں، یہودی بھی ہوتے ہیں، ہندو اور مسلم بھی ہوتے ہیں۔ ان کو پہلے سے سن گن لگ جاتی ہے، لڑائی کی جنگ کی اور وہ دونوں جنگ لڑتے ہیں، بس وہ ہم کو نظر نہیں آتے۔‘‘ خدا جانے اس بابا کے بابے نے ان کو کیا بتایا تھا، پر بعد میں ان کی کہی بہت سی باتیں ناول کی صورت میں پڑھنے کو ملیں۔ انتہائی سائنٹیفک انداز کی یعنی اعداد کے اسرار اور جناتوں کے رموز وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔ ان بابا کے کہے اور ان عہدیدار کے مطابق کیا واقعی ایران اور اسرائیل کے جناتوں کی جنگ ہو رہی ہے یا یہ تعویذ گنڈوں تک کی کہانی ہے۔ ہمارا مذہب ہمیں اس بارے میں کیا بتا رہا ہے۔ ’’دراصل وہ (جادوگر) بغیر اللہ کی اجازت کے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔‘‘ (سورۃ البقرہ۔آیت نمبر 102) قرآن میں واضح لکھا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ جادو اثر انداز ہوتا بھی ہے تو رب العزت کے حکم سے۔ نہ یہ کسی کو خود سے فائدہ پہنچا سکتا ہے، نہ ہی نقصان۔ یہ بھی واضح ہے کہ انسان کی زندگی میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ مشیت اللہ کے مطابق ہوتا ہے نہ کہ کسی جادوگر کی مرضی سے۔ لیکن ہم میں سے بہت سے سادہ لوح اپنی زندگی کی ناکامیوں کا الزام جادو ٹونے پر ڈالتے ہیں۔ یہ بات سمجھنے میں جتنی مشکل لگتی ہے اسی قدر آسان ہے۔ مرکزیت ایک ہی اعلیٰ ہستی کی ہے کہ جس کے حکم سے دن اور رات بدلتے ہیں۔ آسمان زمین سے جدا ہے اور دریا، سمندر اپنے اپنے راستوں میں بہتے ہیں، زمین کی گردش سے دریاؤں سمندروں کا پانی اچھل کر کہیں نہیں گرتا، سوائے اس بڑی ذات کے حکم سے، جو طوفانوں، زلزلوں اور قدرتی آفات کو جنم دیتا ہے۔ ان قدرتی آفات کو کوئی ماہر جادوگر کنٹرول نہیں کر سکتا، انسانی بساط سے سب کچھ باہر ہے۔ ماسوائے انسانی چالوں کے جو شیطان کے چیلے بن کر زمین پر فساد برپا کرتے ہیں اور یہ چالیں بھی ایک حد تک چلتی ہیں پھر ہوتا وہی ہے جو وہ چاہتا ہے۔ ’’یقینا شیطان کی چال کمزور ہے۔‘‘ (سورۃ النسا،76) اب اسرائیل کی چال کیا روپ اختیار کرتی ہے یہ دیکھنا ہے۔ ہمیں کچھ اندازہ نہیں کہ اسرائیل اور ایران کے جناتوں کی جنگ کا کوئی حتمی نتیجہ سامنے آیا ہے یا ابھی بھی جاری ہے، لیکن اسرائیل کے کچھ پہنچے ہوئے ان کے اپنے بابوں کے مطابق انھیں فلسطین کی جنگ جیتنے کے لیے مسلمانوں سے جیتنے کے لیے مزید روحانیت درکار ہے۔ اب روحانیت کا مطلب یہودیت میں کیا لیا جاتا ہے یہ تو اوپر والا ہی جانتا ہے اور یہودیت بھی آج کے دور کی، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے وہ نفسیاتی طور پر الجھا بھی سکتے ہیں۔ سوال اپنی جگہ بدرجہ اتم موجود ہے کہ ’’ کیا جنگوں کے بیچ جادو ٹونے کارآمد ہوتے ہیں؟‘‘ یہ تو طے ہے کہ جادو ٹونے شیاطین کے عملیات ہیں، گویا ان کا دائرہ اختیار ایک حد تک ہے، یعنی محدود ہے۔ اب اس حد میں کتنے دن کتنے سال یا گھنٹے لگ سکتے ہیں، اس کا علم بھی ہم جیسے کم علموں کو نہیں، لیکن اس سے بہت آگے اور مصمم حقیقت یہ ہے۔ ’’وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا، اور وہ ہو جاتی ہے۔‘‘ (سورۃ یٰسین۔آیت نمبر82) بات سوچنے کی ہے کہ کائنات ہماری سائنس کے مطابق شدید تیزی سے وجود میں آئی، اب دنیا کے بننے میں کروڑوں سال کیوں لگے؟ دراصل یہ سارے سوال ہمارے ہیں اور اس کا جواب اوپر دی گئی آیت میں مسلم ہے جس کی تصدیق بگ بینگ تھیوری نے کی۔ وہ کہتا ہے ’’کُن‘‘ اور ہو جاتا ہے۔ ایران، اسرائیل، فلسطین، شام، یمن، بھارت، جاپان، چین، امریکا یہ خطے اس دنیا کے نقشے پر نظر آ رہے ہیں تو ان کے حکم کی بدولت، انسان چالیں چل رہا ہے، اپنے تئیں عقل مندی کے فیصلے کر رہا ہے، پر اس کے ارادے اس کے فیصلے جب مسلط ہوتے ہیں تو ہم چیں بھی نہیں کر سکتے، یقینا اس مکمل فیصلے کے درمیان اونچ نیچ، آزمائش، امتحان، مشکلات درپیش ہوتی ہیں اور یہ ہماری دنیا کی رپورٹ کارڈ کے رزلٹ میں شامل ہو رہے ہیں۔ بس چاہے لہراتے، جھجکتے، شرمندگی سے یا گڑگڑاتے ہوئے پورے صدق دل کے ساتھ رجوع کرنا ہی ہوگا، ورنہ شیطان کی کمزور چال میں الجھ کر سوائے گہری کھائی کے اور کیا ملنا ہے۔اگر کوئی بابا کہہ بھی دے کہ جادو توڑنے کے لیے بکروں کا صدقہ، دیگیں اور تھان کے علاوہ کچھ اور بھی دان کرنا ہوگا، تو یاد رکھیں کہ اثر تو اسی کے حکم سے ہوگا جس نے پیدا کیا ہے، تو پھر براہ راست ڈائل کریں اور اپنے رب سے بات تو کریں۔  

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل