Loading
ایلیٹزم وہ ذہنی اور سماجی رویہ ہے جس کے تحت اقتدار، علم، وسائل اور فیصلہ سازی کے حق کو ایک مخصوص اور بااختیار طبقے تک محدود کردیا جاتا ہے۔ اس رجحان میں معاشرے کی غالب اقلیت خود کو بہتر، ذی شعور اور بااختیار سمجھتی ہے، جب کہ باقی ماندہ اکثریت کو عام سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر معاشروں میں ایلیٹزم نے نہ صرف معیشت اور سیاست بلکہ ادب، مارکیٹ، رویوں اور میڈیا کو بھی گہرائی سے متاثرکیا ہے۔ ادب میں اشرافیہ کا داخلہ اس وقت ہوتا ہے جب تخلیق کار عام انسانوں سے کٹ کر مخصوص طبقے کی زبان، مسائل اور جمالیات کا ترجمان بن جائے۔ وہ ادب جس کا مقصد معاشرتی شعور پیدا کرنا تھا، وہ مخصوص محفلوں، تعلیمی اداروں اور اشرافیہ کے ذوق کی تسکین تک محدود ہوگیا۔ اس رجحان میں دیہی، مزدور یا نسلی اقلیتوں کی زبان کو غیر ادبی اور غیر مہذب سمجھا گیا، اور ان کی بولیوں یا لہجوں کو ادب میں جگہ نہ مل سکی۔ کسی حد تک ترقی پسند تحریک اس رجحان کے خلاف کھڑی ہوئی، مگر بعد ازاں خود ترقی پسند حلقے بھی بعض اوقات شہری متوسط طبقے کی سوچ سے باہر نہ نکل سکے۔ آج بھی انگریزی اور اردو ادب میں طبقاتی خلیج واضح دکھائی دیتی ہے۔ انگریزی لکھنے والے اکثر اشرافیہ یا مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جن کے قارئین بھی وہی طبقہ ہوتے ہیں، جب کہ عوامی ادب کو فراموش کردیا جاتا ہے۔ ایلیٹزم کے ادبی اظہار اور فیسٹیول کلچر میں اس کی موجودگی پرگفتگو کرتے ہوئے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ادب، جوکسی قوم کی فکری و روحانی نمایندگی کرتا ہے، جب مخصوص طبقے کے ذوق، زبان اور نظریے کا نمایندہ بن جائے تو اس میں عام لوگوں کی شمولیت کا دروازہ بند ہونے لگتا ہے۔ پاکستان میں ادبی میدان اور فیسٹیولزکا جائزہ لیا جائے تو اس میں اشرافیائی رجحانات واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں، جنھوں نے نہ صرف ادبی جمالیات کو متاثرکیا بلکہ ایک وسیع تر عوامی طبقات کو حاشیے پر ڈال دیا۔ دوسری طرف، موجودہ ادبی میلوں اور فیسٹیولز میں ہم دیکھتے ہیں کہ زیادہ تر شرکت انگریزی لکھنے والے مصنفین، غیرملکی مقررین، سفارت کاروں، اور اشرافیائی یونیورسٹیوں سے جڑے افراد کی ہوتی ہے۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول (KLF)، لاہور لٹریچر فیسٹیول (LLF)، اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول (ILF) آرٹس کونسل و دیگر ادبی میلوں میں اردو اور علاقائی زبانوں کے حقیقی عوامی ادیبوں کو یا تو ثانوی مقام دیا جاتا ہے۔ جن تخلیق کاروں کا بیانیہ متوسط یا دیہی طبقے سے جڑا ہو، انھیں مخصوص اسٹیج پر خاص پذیرائی نہیں دی جاتی جو انگریزی میں لکھنے والے، اشرافیائی طبقے سے تعلق رکھنے والے یا مغرب میں مقبول افراد کو دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر بلوچی، سندھی، پشتو، سرائیکی، براہوی اور دیگر علاقائی زبانوں کے شعراء اور افسانہ نگار بہت کم ایسے فورمز پر مدعوکیے جاتے ہیں، حالانکہ وہ مقامی مسائل، جبر، شناخت اور مزاحمت کی بھرپور نمایندگی کرتے ہیں۔ وہ ادبی کانفرنسیں جن کا عنوان فکر، مزاحمت، عوامی بیانیہ یا ادب اور سیاست ہوتا ہے، وہاں بھی اکثر چہرے وہی ہوتے ہیں جن کا تعلق اشرافیائی طبقے، این جی اوز یا بیرون ملک اداروں سے ہوتا ہے۔ یہ ادبی میلوں کا ایک ایسا منظرنامہ تشکیل دیتے ہیں جو تخصیص کا مظہر ہے۔ادبی جرائد، اشاعتی ادارے اور نقاد بھی اکثر اسی اشرافیہ حمایتی ذہنیت کے تابع ہوتے ہیں۔کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ عوامی لب و لہجے میں لکھی گئی کہانیاں یا نظمیں ’’ غیر ادبی‘‘ کہہ کر مسترد کی جاتی ہیں، مگر وہی خیالات اگر ایک انگریزی یا فلسفیانہ لہجے میں لکھنے والے مصنف کی طرف سے آئیں تو انھیں ’’ تجرباتی‘‘ یا ’’ بین المتنی‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ یہی ایلیٹزم ادب کو زندگی سے دورکرتا ہے۔ ایک ایسا قاری جو دیہی کاشتکار ہے یا چھوٹے شہر کا استاد، جب وہ کسی ادبی فیسٹیول میں جاتا ہے تو خود کو اجنبی محسوس کرتا ہے، نہ صرف زبان کی وجہ سے بلکہ اسٹیج پر موجود طبقاتی علامات، لباس، حوالہ جات اور رویوں کی وجہ سے بھی۔بااثرطبقے کے اس فکری اور تہذیبی جبر کے خلاف کچھ ادبی کوششیں ضرور ہو رہی ہیں۔ مثلاً سندھی، سرائیکی اور بلوچ ادبی کانفرنسیں جو اپنے مقامی وسائل سے منعقد کی جاتی ہیں یا مزدور ادب کانفرنسز، جن میں فیض کی روایت کو زندہ رکھا جا رہا ہے۔ اسی طرح، سوشل میڈیا پر نوجوان مصنفین کا ایک ایسا طبقہ بھی ابھر رہا ہے، جو اعلیٰ طبقے کو نظر انداز کر کے عوام سے براہِ راست مکالمہ کرتا ہے، جو شاید ایلیٹزم کے خلاف مزاحمت کا نیا باب ثابت ہو۔ مارکیٹ میں یہ رویہ اس وقت غالب آتا ہے جب مصنوعات، سہولیات اور خدمات صرف اس طبقے کی پہنچ میں ہوں جس کے پاس دولت یا سماجی رسائی ہو۔ برانڈ کلچر، مہنگے ریستوران، نجی تعلیمی ادارے، اسپتال اور گیلریاں صرف اشرافیہ کے لیے بن جاتے ہیں، جب کہ عام شہری بنیادی سہولیات کے لیے ترستا ہے۔ معاشی پالیسیاں بھی امیر و بااثر مفادات کے گرد گھومتی ہیں۔ رویوں میں ایلیٹزم اس وقت گھس آتا ہے جب انسان اپنے پیشے، زبان، لباس، یا تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر دوسرے کو کمتر یا غیر مہذب سمجھے۔ اشرافیہ کی طرف جھکاؤ، انگریزی بولنے کو ذہانت کی علامت اور مقامی ثقافت کو دیہاتی یا پسماندہ قرار دینا اسی رجحان کا حصہ ہے۔ اس سوچ نے معاشرتی ناہمواریوں کو مزید بڑھایا ہے۔ ایلیٹ ازم نے طبقاتی تقسیم کو مضبوط کیا، اور عام شہری کی خود اعتمادی کو مجروح کیا۔ اسکولوں، جامعات، ملازمتوں اور یہاں تک کہ سماجی تقریبات میں بھی یہ تقسیم نمایاں نظر آتی ہے۔ ذہنی غلامی کی شکل میں ایلیٹ کلچرکو اپنانا اب فیشن سمجھا جاتا ہے، جس سے مقامی تشخص کو نقصان پہنچتا ہے۔میڈیا میں اس کا اثر نہایت نمایاں ہے۔ خبروں کی ترجیحات، اینکرزکا لب و لہجہ، زبان کا استعمال اور پروگراموں کے موضوعات سب کچھ ایلیٹ مفادات کے گرد گھومتے ہیں۔ گاؤں دیہات، غریبوں کی کہانیاں، مزدوروں کی جدوجہد یا پسماندہ علاقوں کے مسائل کو یا تو نظراندازکیا جاتا ہے یا انھیں ’’ دل سوز‘‘ مناظر کے طور پر پیش کر کے ہمدردی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میڈیا و ادبی منظرنامے میں وہی چہرے، وہی لہجے اور وہی بیانیے بار بار دکھائے جاتے ہیں جن سے بااثر طبقے کی نمایندگی ہوتی ہے۔ خبروں کے مرکزی موضوعات بھی اشرافیہ کے بیانیے کے گرد گھومتے ہیں جیسے اسٹاک مارکیٹ، ہاؤسنگ سوسائٹیز، مہنگے اسکولوں کے مسائل، اور غیرملکی پالیسیوں پر بحث۔ عام انسان کی معاشی جدوجہد یا روزمرہ مسائل میڈیا کی روشنی سے باہر رہتے ہیں۔ایلیٹزم نے ملک کے اندر علمی، فکری اور معاشی عدم توازن کو اس قدرگہرا کیا ہے کہ خود جمہوری اقدار بھی متاثر ہوئیں۔ عوام کی رائے اور مسائل پس پشت چلے گئے اور فیصلہ سازی کا عمل بند دروازوں کے پیچھے چند چہرے طے کرنے لگے۔ اس رویے کے خلاف عوامی تحریکوں، عوامی ادب، سوشل میڈیا پر متبادل بیانیوں اور مزاحمتی فنون نے کچھ جگہ ضرور بنائی ہے، مگر وہ اب بھی ایک وسیع اشرافیائی ڈھانچے کے مقابلے میںکمزور نظر آتی ہیں۔ایلیٹزم کا توڑ صرف عوامی شعور، زبان، ثقافت اور مسائل کو ادب، مارکیٹ، میڈیا اور رویوں میں ترجیحی بنیادوں پر شامل کرنے سے ممکن ہے۔ بصورت دیگر یہ خلیج بڑھتی جائے گی اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل پائے گا جو بظاہر مہذب، مگر اندر سے منقسم اور غیر منصفانہ ہوگا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل