Monday, July 21, 2025
 

موسمیاتی تبدیلی اور کارل مارکس

 



دنیا میں کمیونسٹ نکتہ نظرکے تخلیق کار اور تمام انسانوں کے لیے مساویانہ معاشی و سماجی نظام وضع کرنے کے خالق جرمنی کے سماجی دانشور کارل مارکس نے دو صدی قبل ہی کہہ دیا تھا کہ ’’ انسانی سماجی ترقی کے فوائد پانے کے لیے فطرت کے نظام کو چھیڑے بغیر بھی ترقی ممکن ہے۔‘‘ کارل مارکس کے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ ’’ ہم تسخیرکائنات کے لیے قدرت کے فراہم کردہ ذرایع کو انسانی سماج کی بہتری اور تعمیرکے لیے استعمال کرتے ہیں، ہم ان قدرتی ذرایع کو جدید اور بحفاظت طریقوں سے ’’بقائے انسانی‘‘ کے لیے کارآمد بناتے ہیں جب کہ سرمایہ دارانہ سماج میں فطرتی ذرایع کو انسانی ترقی اور ماحولیاتی استحکام کے بجائے ان ذرایع کو سرمایہ دارانہ مفاد، نفع اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو کہ فطرت کے منفی طریقہ استعمال سے آخرکار تباہی کے انجام سے دوچار ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں تباہی کا سدباب ہونا ممکن نہیں ہوتا۔‘‘ دنیا میں ماحولیاتی نظام اور موسمیاتی تبدیلی ایک ایسی بھیانک شکل میں نمودار ہو رہا ہے، جس نے دنیا بھرکے انسانوں اور سائنسدانوں کو حیرت زدہ کردیا ہے، دنیا میں اس موسمیاتی تبدیلی سے جہاں حیرت کے امکانات میں اضافہ ہو رہا ہے، وہیں اس سے بچنے کے مختلف طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں، مگر دنیا میں موسمیاتی ماحول کی اتھل پتھل پر قابو پانے کی کوشش میں جدید ٹیکنالوجی اور امریکا سمیت یورپ کے دیگر ترقی یافتہ ممالک بھی اب تک مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں، آج کل موسمیاتی تبدیلی کے نہ قابو آنے والے جن کا شکار پاکستان اور بطور خاص پنجاب اور آزاد کشمیر نظر آتے ہیں، گو اس تباہ کن صورت حال سے نمٹنے کی کوششیں حکومتی سطح پر جاری ہیں مگر اس کے باوجود سیکڑوں قیمتی جانوں کو نہ بچایا جا سکا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ماحولیات کے متفکر دوست سراج بھاگت کا کہنا ہے کہ ’’ اس ساری صورت حال میں پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے صف اول کے ممالک میں سے شامل ہے، جس کی تازہ مثال صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جاری حالیہ بارشیں، سال 2022 میں سندھ اور بلوچستان میں ہونے والی شدید بارشیں اور 2010 کا تباہ کن سیلاب ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے کئی علاقوں میں گرمی میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تا جا پہنچا۔ اس سال بھی پاکستان میں شدید بارشوں میں محض دو ہفتوں میں 50 سے زائد لوگ ہلاک ہوئے ہیں، جس میں ماحولیات کے ساتھ ساتھ پانی کی نکاسی کے جدید سسٹم کا نہ ہونا اور فرسودہ انفرا اسٹرکچر بھی ذمے دار ہے۔ یہاں کے حکمران طبقے نے کبھی بھی جدید انفرا اسٹرکچر تعمیر کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اسی طرح کراچی، لاہور سمیت کئی اور شہر انتہائی فضائی آلودگی کی زد میں ہیں جہاں سانس لینا بھی دشوار بن چکا ہے۔ یہ ماحولیاتی تبدیلی اچانک سے وقوع پذیر نہیں ہو رہی بلکہ اس کا اصل ذمے دار حکمران طبقہ اور موجودہ سرمایہ داری نظام ہے جس میں مشین کا بے تحاشا استعمال، تیل،گیس اورکوئلے کا ٹرانسپورٹ اور صنعتوں میں استعمال اور اس کے نتیجے میں زہریلی گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی صورت میں گلیشیئرکا پگھلنا اور نتیجے میں سیلابوں اور حد سے زیادہ فضائی آلودگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ صنعتوں اور ذاتی مقاصد کے لیے جنگلات کی بے دریغ کٹائی بھی جاری ہے اور جنگلات کے کٹاؤ سے فضا میں آکسیجن بتدریج کم ہو رہی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جنگلات کا کل رقبہ 4 فیصد رہ گیا ہے جب کہ صحت مند ماحول کے لیے کم سے کم 20 فیصد جنگلات کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ فطرت کے حسن کو فیکٹریوں سے اٹھنے اورگاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں نے دھندلا دیا ہے اور ساری فضا زہریلی بن گئی ہے۔ سمندروں اور دریاؤں میں فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والے کیمیائی فضلے کی موجودگی نے پانی کو زہر آلود کر دیا ہے۔ فضائی آلودگی نے کرہ فضائی یعنی زمین کے حفاظتی غلاف اوزون کی تہہ کوکافی حد تک نقصان دیا ہے جس سے سورج کی تیز شعاعوں کے ساتھ بالائے بنفشی لہریں بھی سطح زمین تک زیادہ مقدار میں پہنچنے لگی ہیں۔ سرمایہ داری نظام کے باعث جو ماحولیات کو زخم دیے گئے ہیں، اس نے پورے یورپ میں ایک تحریک کو جنم دیا ہے۔ اس وقت یورپ سے لے کر امریکا تک میں اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ و طالبات ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف متحد ہو چکے ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں، لیکن ہمارے ملک میں ابھی تک ماحولیاتی تبدیلی کو سنجیدہ نہیں لیا جا رہا اور ترقی کے نام پر زرخیز زمینوں، پہاڑوں اور چراگاہوں کو بلڈرز مافیا کے حوالے کردیا گیا ہے۔ دریاؤں کی قدرتی گزرگاہوں پر بند باندھ کر ڈیم بنائے جا رہے ہیں جس سے زراعت اور آبی حیات تباہی کے دہانے پر ہے۔ اس کے علاوہ سندھ کے شہرکراچی میں ایک معروف ٹاؤن کے نام پرکیرتھر نیشنل پارک کی کٹائی کر کے زرعی زمین کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جس سے انسان، جنگلی حیات سمیت ماحولیات کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ تھر پارکر میں پاک انڈیا بارڈر سے منسلک کارونجھر پہاڑ جس کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں کہ اس فطرتی حسن کے شاہکار اور جنگلی جیوت کی آماجگاہ کو بھی ترقی کے نام پر نیلام کیا جائے۔ اقوام متحدہ سے منسلک سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے بد ترین نتائج کو روکنے کا وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے اور اس تناظر میں ہمیں جلد از جلد ممکنہ اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ صنعتی سرگرمیوں کے لیے تیل،گیس اورکوئلے کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس کے باعث کاربن گیسوں کی مقدار، جو دو سو سال قبل 280 پی پی ایم (پارٹس پَر ملین) تھی، اب بڑھ کر 400 پی پی ایم ہو چکی ہے۔ اب معدنی ایندھن کی جگہ توانائی کے قابلِ تجدید ذرایع کا استعمال کرنا چاہیے پھر سے جنگلات اُگانے، زراعت کے عمل میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی اور صنعتی سرگرمیوں میں تبدیلی لازم کرنی چاہیے۔زراعت کے لیے زمین کے حصول یا مویشی رکھنے کے لیے جنگلات کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ آج کل زمین کا 30 فیصد حصہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے، جن کا ایک اہم کام کاربن گیسیں جذب کرنا بھی ہے لیکن ہر سال 18 ملین ایکڑ رقبے پر پھیلے جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔ موجود قدرتی جنگلات کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے اور ہر خطے کے مقامی درختوں پر مشتمل جنگلات کی کاشت کرنی چاہیے۔   20 ویں صدی کے آغاز پر انسانی آبادی 1.6 ارب تھی، آج کل 7.5 ارب ہے۔ 2050 تک یہ 10 ارب تک پہنچ جائے گی۔ اس وجہ سے انسانی وسائل پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے جس کے لیے خواتین کی تعلیم اور بہتر سہولتوں تک رسائی ممکن بنانی چاہیے تاکہ وہ افزائش نسل کے بارے میں خود بھی فیصلے کر سکیں اور خاندانی منصوبہ بندی لازم قرار دے کر بڑھتی آبادی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل