Loading
حمیرا اصغر ایک عزت دار گھرانے کی بیٹی تھی، باصلاحیت اور خوش شکل تھی لہٰذا اس نے شوبز کی دنیا میں قدم رکھنے کے لیے سہانے خواب اور اپنے آپ کو ہواؤں میں اڑتا ہوا دیکھا اور اپنے والدین کی مخالفت کے باوجود وہ اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھنا چاہتی تھی۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنا گھر بار اور جان لٹانے والے والدین کو خدا حافظ کہا اور ڈیفنس کراچی میں واقع ایک فلیٹ میں رہنا شروع کر دیا اور کامیابی کی منزلیں طے کرنے لگی، بیٹی کی دوری اور جدائی سے والدین کے دل پرکیا گزری ہوگی؟ وہ دن رات تڑپے ہوں گے، اپنے رب کے حضور سر بہ سجود رہے ہوں گے کہ ان کی بیٹی واپس لوٹ آئے، تاکہ ماں کے تڑپتے دل کو سکون و راحت نصیب ہو ، کل کا بھولا گھر لوٹ آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے، ماں باپ بڑے دل کے مالک ہوتے ہیں، اپنی اولاد کی گستاخی اور نافرمانی کو معاف کر دیتے ہیں۔ اپنی محبت سے مجبور ہو کر سینے سے لگا لیتے ہیں، لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ شوبز کی دنیا کی چکا چوند حقیقی معنوں میں اندھیروں کے سوا کچھ نہیں اور یہ بات وقت ثابت کر دیتا ہے، سات سال تک اس مصنوعی دنیا میں آباد رہنے کے باوجود کوئی ایسا ہمدرد نہیں تھا جو اس کی بجلی کا بل ادا کر دیتا، قرض دے دیتا، یہ سب مہربانی نہ بھی کرتا تو کم ازکم خیریت تو لے لیتا، یہ سچ ہے کہ دنیا کے رشتے اور تعلقات عارضی ہوتے ہیں، کوئی کسی کی مدد کرنے کو تیار نہیں۔ اور پھر اسے صرف 32 سال کی عمر میں عبرت ناک موت سے ہمکنار ہونا پڑا۔ یہ ایسا سانحہ ہے دوسرے لوگوں کو سبق سکھا گیا ہے، اگر وہ سیکھنا چاہیں تو۔ والدین کا کہنا دل سے مان لینا چاہیے اور صراط مستقیم کو اپنا لینا ہی دین و دنیا کی کامیابی ہے۔ لیکن دنیا کی رنگینیوں میں بہت کشش ہے اسی وجہ سے لوگ اس راستے پر چل دیتے ہیں۔ جون اور ماہ جولائی کے اوائل میں کئی فنکار لڑکیاں کے ساتھ سانحات ہوئے۔ اس سے قبل بھی ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں لیکن ان دنوں ثنا یوسف کے قتل کے بعد کئی اداکاراؤں کو سخت اذیت سے گزرنا پڑا۔ ان میں عائشہ خان بھی شامل تھیں، وہ بے بسی کے ساتھ سفر آخرت پر روانہ ہوئیں۔ کئی دن تک بے گور و کفن بستر مرگ پر پڑی رہیں، ایک ہفتہ 10 دن گزر جانے کے بعد بھی کسی نے ان کی خبر گیری نہیں کی۔ ان کے مرنے کی اطلاع بھی جسم سے اٹھنے والی بو اور تعفن نے اداس ہواؤں کے ساتھ مل جل کر لوگوں تک پہنچائی۔پڑوسیوں کے بہت حقوق ہیں۔ حدیث کا مفہوم عرض ہے کہ ایک موقع پر ہمارے پیارے نبی ﷺ صحابہ کرام کے ساتھ مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے، آپؐ پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں درس دے رہے تھے کہ ان کا، ان کے بچوں اور بزرگوں کا خیال رکھنا چاہیے، یہاں تک کہ اگر گھر میں گوشت پکا ہو اور اس کی خوشبو ہمسایوں کے گھروں تک پہنچے تو سالن میں شوربا بڑھا کر دے دیا جائے۔ دکھ، بیماری، لین دین کے بارے میں بھی آپؐ نصیحت کر رہے تھے کہ اگر کسی پڑوسی کو ضرورت کی چیز درکار ہو تو اسے مہیا کر دینا چاہیے، اس بات کا ذکر قرآن پاک میں بھی موجود ہے۔ اسی دوران صحابہ کرام یہ سوچنے لگے کہ کہیں اللہ کے پیارے نبی ﷺ پڑوسیوں کو جائیداد میں بھی حصہ دار نہ بنا دیں۔ آج کے معاشرے میں بہت سے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ لوگ ملنا نہیں چاہتے ہیں، اپنے گھروں میں مقید رہتے ہیں، حتیٰ کہ سلام و دعا کرنا بھی پسند نہیں کرتے تو ایسی صورت میں انھیں ان کے حال پر چھوڑنے کے بجائے خود اپنی انا کے خول کو ریزہ ریزہ کرنا زیادہ مناسب ہے۔ سلام میں پہل کرنا باعث ثواب ہے اور بڑا اجر ہے دوسرا شخص جواب نہ دے تو یہ اس کا مسئلہ ہے لیکن اگر پتھر پر بھی قطرہ قطرہ پانی گرتا رہے تو اس میں بھی سوراخ ہو جاتا ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں اگر پہلے ہی سے خبر گیری کر لی جاتی تو لاشیں مسخ نہ ہو پاتیں، بروقت تدفین ہو جاتی اور یہ حق پڑوسیوں، والدین اور اولاد کا ہے۔تنہائی کی موت اور آزادی اپنے اندر گہرا مفہوم رکھتی ہے کہ خواہشات کی تکمیل میں کیا کھویا، کیا پایا، والدین اولاد کے لیے جنت بھی ہیں، دوزخ بھی ہیں، ان کی نافرمانی گناہ کبیرہ ہے، اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ نافرمان اولاد کو دنیا میں برے انجام، یعنی سزا کے مرحلے سے گزارا جائے گا اور مرنے کے بعد تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ احادیث نبوی ﷺ کے مطابق ’’دو گناہ ایسے ہیں جن کی سزا دنیا میں ہی دے دی جاتی ہے، وہ گناہ کبیرہ والدین کی نافرمانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جھڑک کر بات کرنے کے لیے منع فرمایا ہے، اس کے ساتھ اس بات کی بھی تاکید کی ہے کہ وہ نرمی اور محبت کا رویہ اپنائیں، حتیٰ کہ ’’اف‘‘ تک نہ کہیں۔ اور ان کی اسی طرح خدمت کریں جس طرح انھوں نے کی تھی۔‘‘دنیا کی ہوس میں بے شمار لڑکے اور لڑکیاں ایسی ہیں جنھوں نے گمراہی کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ سستی شہرت حاصل کرنیوالی لڑکیوں کو زندگی میں بھی شہرت ملتی ہے جو ان کے لیے تو خوشی اور فخر کا باعث ہوتی ہے لیکن باعزت والدین کے لیے بدنامی کا سبب بن جاتی ہے، وہ اہل محلہ اور رشتے داروں کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں، لوگ ان سے ملنا جلنا چھوڑ دیتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بڑھاپے میں تنہائی اور دکھوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور دکھ بھی ایسے جو روح کی گہرائیوں میں اتر جائیں اور جیتے جی قبر میں اتار دیں۔کوئی باپ، بھائی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کی بیٹی یا بہن کی تصاویر لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بنے۔ اللہ نے عورت کو اپنی زینت چھپانے کا کہا ہے لیکن فلمی دنیا کے تقاضے اس کے برعکس ہیں ۔ رقص و سرور اور حد سے گزر جانے کو برا نہیں سمجھتے ہیں، اس کی وجہ وہ بھی ان راہوں کے مسافر ہوتے ہیں جہاں شہرت ہے، چکاچوند ہے، زندگی کی ہر آسائش اور خوشی ہے۔مولانا طارق جمیل نے گناہ کے راستوں پر چلنے والوں کو درس و تدریس کے ذریعے عزت و آبرو کی زندگی گزارنے کا درس دیا، بہت سی خواتین کی کفالت کی تاکہ گناہ کا پیشہ ترک کر دیا جائے۔ ان میں سے کچھ احسان مند ہوئیں اور کچھ نے وقتی طور پر تو اللہ کے احکامات بجا لانے کے لیے کوشش کی لیکن نفس امارہ کا کیا کیا جائے جو بار بار ہر خواہش کی تکمیل چاہتا ہے۔دراصل نفس پر کنٹرول کرنا آسان نہیں ہے، وہی لوگ نفس کی غلامی سے آزاد ہو جاتے ہیں جو زندگی کو قرآنی آیات کے مطابق ڈھالتے ہیں۔ قرآن پاک نے دنیا کی بے ثباتی کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ ’’ اور دنیا تو صرف کھیل تماشا ہے اور ڈرنے والوں کے لیے آخرت کا گھر بہتر ہے، کیا تم نہیں سمجھتے۔‘‘ (سورۃ الانعام آیت۔32) سماجی برائیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں ان کا کوئی سدباب نہیں۔ مدارس و مکاتب اپنی ذمے داریوں کو یکسر بھلا بیٹھے ہیں۔ کتنا بھی بڑا حادثہ ہو جائے معاشرہ تنزلی کی انتہا کو پہنچ جائے کبھی مفتیان دین نے مذمت نہیں کی، آواز نہیں اٹھائی، حکومت کو مجبور نہیں کیا کہ بے جا آزادی کی روک تھام کریں۔ تقریباً ہر شخص اور ادارے کے لوگ بے حسی کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ کراچی میں گیس، پانی اور بجلی کا بحران ہے، گیس کے آنے جانے کے اوقات مقرر کر دیے گئے ہیں لیکن کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں گیس، بجلی اور پانی سرے سے غائب ہے۔ وہ 1947 کے پاکستان میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ 1947 کے بعد ہر شعبے میں بہت ترقی ہوئی، خوشی اور خوشحالی میں اضافہ ہوا لیکن حالات یہ ہیں کہ یوٹیلیٹی بلز ادا کرنے کے باوجود بھی مصنوعی ذرایع سے ضروریات زندگی کو رقم ادا کرکے خریدنا پڑتا ہے۔ پانی کا معاملہ یہ ہے کہ پانی کا ٹینکر ایک بڑی رقم کی ادائیگی کے عوض حاصل ہوتا ہے اور جس کے پاس معاشی طاقت نہیں ہے تو وہ اور اس کا خاندان پیاسا مرے، حکومت کو پرواہ نہیں۔ ان دنوں اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ جن علاقوں میں بالکل پانی نہیں ہے وہاں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بورنگ کرا لی ہے، پیسہ بٹورنے کی نئی کہانی سامنے آ گئی ہے کہ بورنگ کروانے والوں کو 10 ہزار کا ٹیکس ادا کرنا پڑے گا، راشی افسران اور ورکرز بورنگ کرنیوالوں کی اطلاع پر فوراً پہنچ جاتے ہیں اور بورنگ رکوا کر رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ ناجائز دھندا واٹر بورڈ کی طرف سے کیا جاتا ہے، پانی نہیں دیتے، بل کے ساتھ بورنگ کرانے پر ایک بڑی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں، افسوس صد افسوس!دوسری طرف اجرک والی نمبر پلیٹیں لگانے پر مجبور کرکے شہریوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور ایک نئی صورتحال پیدا کرکے شہریوں کو دھڑلے سے اپنی طاقت کے بل پر لوٹا جا رہا ہے۔ طاقت ور تو فرعون بھی تھا لیکن آج اس کی حکومت اور اس کا نام و نشان نہیں ہے اس کی لاش اللہ کے حکم کے مطابق نشان عبرت بن چکی ہے۔ کیا حکمران بھی یہ چاہتے ہیں؟
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل