Monday, July 21, 2025
 

مثالی بشر…سید شہاب الدین

 



حضرت محمد مجتبیٰ ﷺ کی آمد سے قبل دنیا کے ہر حصے میں انسانی سماج اور معاشروں میں فساد برپا تھا۔ طاقتور افراد اور با اقتدار طبقے اپنی خواہشات پوری کرنے کے لیے اپنے ہی جیسے انسانوں پر ہر قسم کا ظلم کیا کرتے تھے، جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا قانون عام تھا۔ مذہبی اقتدار پر چند طاقتور افراد کا قبضہ تھا۔ ظالم حکمران سرداروں کو مذہبی اجارہ دار گروہ کی حمایت حاصل تھی۔ زندگی کی تمام سہولتوں اور آسائشوں تک چند مراعات یافتہ افراد کی رسائی تھی۔ عوام کو ننگے، بھوکے اور کمزور رکھ کر اُن کو زندگی کی بنیادی ضروریات جیسے روٹی، کپڑا اور سر چھپانے کی جگہ سے محروم کردیا گیا تھا۔احمدِ مصطفیٰ ﷺ یتیم تھے، اس لیے انھیں یتیموں اور لاوارثوں کی پُرعذاب زندگی کا تجربہ تھا۔ آپ ﷺ نے مزدوری پر اونٹ اور بکریاں چرائی تھیں اور اس طرح اُنھیں محنت کشوں کے کرب سے واقفیت تھی۔سیرتِ ابنِ ہشام میں لکھا ہے۔ ’’ وہ یتیموں کا مددگار، بیواؤں کا نگہبان ہے اور آلِ ہاشم کے نادار اس کی پناہ میں آکر آسودہ حال ہو جاتے ہیں۔‘‘ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ نے آپ ﷺ کی سماجی خدمات کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے،’’ آپ ﷺ رشتے داروں سے حسنِ سلوک کرتے ہیں۔ تباہ حال اور لاوارثوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں۔ مہمانوں کو کھلاتے ہیں اور ہر دکھی اور مصیبت زدہ کی امداد کرتے ہیں۔‘‘ قرآن پاک بھی آپ کی سیرت کے اس پہلو پر روشنی ڈالتا ہے۔’’ لوگوں! تمہارے پاس تم ہی میں سے ایسا رسول آیا ہے جس پر تمہاری تکالیف و مصائب گراں گزرتے ہیں، وہ تمھاری فلاح و بہبود کی بے پناہ خواہش رکھتے ہیں۔ لوگوں! ام القریٰ کے نبی پر ایمان لاؤ، وہ پاک اشیاء کو تمہارے لیے حلال اورگندی اشیاء کو حرام ٹھہراتے ہیں، وہ تمہاری گردنوں پر پڑے ہوئے سارے بوجھ اُتار دیتے ہیں۔‘‘  ہموار اور متوازن سماج کے لیے عوام کی گردنوں پر سے افلاس، جہل، غلامی، توہمات، خرافات کا بوجھ اُتارے اور تقلید آباء کی عادت کو دورکیے بغیر سماجی فلاح و بہبود کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ غلامی کو ختم کرنے کے لیے آپ ﷺ نے ترغیب و تحریص دلائی، جہالت کو ختم کرنے کے لیے مہم چلائی، اوہام اور خرافات سے لوگوں کو باز رکھنے کے لیے ہر طرح کی کوشش فرمائی، افلاس کو خدا کا قہر ٹھہرایا اور فرمایا، ’’ افلاس دوجہاں کی روسیاہی ہے۔‘‘ حدیثوں میں لکھا ہے: ’’ صفائی نصف ایمان ہے۔‘‘ ’’ راستے سے رکاوٹ ہٹانا، ضرورت مند نادار سے مسکرا کر بات کرنا، بیوی سے محبت کرنا، بچوں سے شفقت سے پیش آنا بھی نیکی ہے۔‘‘ ’’ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ علم حاصل کرنے کے لیے ضرورت ہو تو چین جیسے دور دراز ملک کو بھی جانا چاہیے۔‘‘  مذہبِ اِسلام میں محنت کی عظمت کا تصور واضح ہے۔ قرآن مجید فرماتا ہے کہ ہر فرد کو صرف اسی شے پر حق حاصل ہے جو وہ اپنے دست و بازو سے کمائے اور ہر وہ ذریعہ جس سے کوئی انسان بلامحنت دولت و اسبابِ معیشت حاصل کرتا ہے وہ سب حرام ہیں اور سماجی لعنت ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے حکم دیا ہے کہ محنت کش کو اُس کی اُجرت اُس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل ادا کردی جائے اور آپ نے فرمایا کہ مزدورکو بھی وہی غذا ملنی چاہیے جو تم کھاتے ہو۔ رسولِ خدا ﷺ کی زندگی پر غورکرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ آجر و مزدور کو ایک سطح پر لانا چاہتے تھے۔ مذہبِ اِسلام معاشی و معاشرتی مساوات کے قیام کا داعی ہے۔ حضرت احمد مجتبیٰ ﷺ نے عورت کو اُس کے غضب شدہ حقوق واپس دلانے کے لیے مسلسل سعی فرمائی ہے۔ اسلام نے اسلامی ریاست کے حدود میں آباد ہر فردِ بشر خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم حقِ معیشت میں مساوات عطا کی۔ حضرت ابو سعید خدریؓ کی مشہور روایت ہے، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ’’ جس کسی کے پاس اس کی ضرورت سے زائد سواری ہو تو اُسے چاہیے زائد سواری اس بھائی کو دے دے جس کے پاس اسبابِ سواری نہ ہو۔ جس کے پاس کھانے پینے کا سامان اس کی اپنی ضرورت سے زیادہ ہو، اس کو چاہیے زائد غذا اس فرد کے حوالے کردے جس کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہ ہو۔‘‘ ابو سعید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح مختلف اشیاء و اسباب کو گنوانا شروع کیا یہاں تک کہ ہم نے سمجھا کہ کسی زائد شے پر ہمارا حق نہیں ہے بلکہ وہ سب ضرورت مندوں کا حق ہے۔ رسول اکرم ﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت ہونے والے مسلمان تمام مالی حقوق ادا کرنے کے بعد بھی آپ سے پوچھتے رہتے تھے کہ اور کیا دیں۔ قرآن مجید اس بات کو یوں بیان فرماتا ہے، ’’ اے رسول ﷺ لوگ تم سے سوال کرتے ہیں کہ وہ راہِ خدا میں اور کیا دیں؟ آپ ﷺ ان سے کہہ دیجیے گا کہ اپنی حاجتِ اصلیہ (عام زندگی کا معیار) سے جو بھی زائد ہو وہ سب کا سب حکومت کے خزانے میں جمع کردیں۔‘‘ قرونِ اولیٰ میں معذور اور اپاہج جو کسی کام کے قابل نہ تھے انھیں بیت المال سے ضروریاتِ زندگی فراہم کی جاتی تھیں۔ ابن اُم کلثوم نابینا صحابی کو خود رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر تمام ضروریاتِ زندگی پہنچاتے تھے۔ حضرت رسول اللہ ﷺ کی سماج کاری کا مختصر خاکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا اور قرآن پاک کے احکام آپ نے دیکھے۔ آئیے! ہم سب مل کر رسول مقبول ﷺ کے اتباع اور احکامِ قرآن کے تحت تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں ہوجائیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل