Monday, July 21, 2025
 

زیادہ بارشوں اور اربن فلڈنگ کی وجہ موسمیاتی تبدیلی ... ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں!!

 



مون سون کے آغاز سے اب تک ملک میں تیز بارشوں اور سیلاب کی صورتحال ہے جس سے نمٹنے کیلئے حکومت اور ادارے مختلف اقدامات کر رہے ہیں۔  جن کا جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔ عرفان علی کاٹھیا (ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے) صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) حکومت پنجاب کا ایک فعال اور متحرک ادارہ ہے جو صوبے کو درپیش قدرتی آفات اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے وژن کے تحت پی ڈی ایم اے نے حالیہ مہینوں میں نہ صرف مو ثر اقدامات کیے بلکہ ایک پیشہ ور، مؤثر اور جدید ڈیزاسٹر مینجمنٹ ماڈل کی مثال قائم کی۔ حکومت پنجاب کی سرپرستی اور بین الادارہ جاتی ہم آہنگی کے نتیجے میں پی ڈی ایم اے نے ہر قسم کی آفات ، ہیٹ ویو، سموگ، سیلاب، زلزلے یا خشک سالی ، کے دوران بہترین حکمت عملی، مربوط پلاننگ اور موثر فیلڈ رسپانس کے ذریعے عوامی تحفظ کو یقینی بنایا۔ ہیٹ ویو 2025ء کے دوران پی ڈی ایم اے نے ایک فعال اور پیشگی حکمت عملی اختیار کی۔ پنجاب کے تمام اضلاع میں الرٹس جاری کیے گئے اور ضلعی انتظامیہ کو پیشگی اقدامات کی ہدایات فراہم کی گئیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایات پر ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور ڈویژن میں خصوصی اقدامات کیے گئے۔ چولستان میں خشک سالی کے پیش نظر 2000 جیری کین اور 10 واٹر باؤزرز مہیا کیے گئے۔ ان میں سے 4 واٹر باؤزرز 12,500 لیٹر جبکہ 6 باؤزرز 5,000 لیٹر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ہیٹ ویو اور تیز دھوپ سے بچاؤ کے لیے چھتریوں کی تقسیم بھی کی گئی۔ صوبائی وزیر خواجہ سلمان رفیق اور ڈی جی پی ڈی ایم اے عرفان علی کاٹھیا کی نگرانی میں چولستان میں صاف اور میٹھے پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایات پر ملٹی ہیزرڈ ولنریبل رسک اسسمنٹ (MHVRA) سروے کا آغاز کیا گیا۔ یہ سروے پی ڈی ایم اے اور اربن یونٹ کے باہمی اشتراک سے دو مراحل میں مکمل ہوگا۔ پہلے مرحلے میں 9 ماہ کے دوران رود کوہی علاقوں جبکہ دوسرے مرحلے میں پنجاب کے دیگر اضلاع کا احاطہ کیا جائے گا۔ تربیت یافتہ شمار کنندگان گھر گھر جا کر ڈیٹا جمع کریں گے، اور سیٹلائٹ و جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے معلومات اکٹھی کی جائیں گی۔ اس سروے سے نشیبی علاقوں میں مؤثر منصوبہ بندی، ریسکیو آپریشنز اور ریلیف سرگرمیوں میں بہتری آئے گی۔ ساتھ ہی، ارلی وارننگ سسٹم کو جدید خطوط پر اپ گریڈ کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ پی ڈی ایم اے نے معمول سے 25 فیصد زائد بارشوں کی پیش گوئی کے پیش نظر بھرپور پیشگی اقدامات کیے۔ ممکنہ سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاک فوج اور ریسکیو 1122 کو جدید ریسکیو آلات فراہم کیے گئے جن میں 29آؤٹ بورڈ موٹر بوٹس،30 فائبر گلاس بوٹس،400 لائف جیکٹس،200 لائف رنگز،10 ٹینٹس،18 سرچ اینڈ ریسکیو کٹس (جن میں 29 مختلف اشیاء شامل تھیں جیسے فائر پروف کمبل، واٹر پروف جیکٹس، ہتھوڑے، کلہاڑے، اسٹریچر، ہیلمٹ وغیرہ) شامل تھے۔ تمام اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز کی نگرانی میں موک ایکسرسائزز کا انعقاد کیا گیا تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں مؤثر رسپانس کو یقینی بنایا جا سکے۔ ان مشقوں میں آلات کی جانچ اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا گیا۔ پری مون سون اقدامات کے تحت پنجاب کے تمام بڑے ندی نالوں اور دریاؤں میں رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے ڈی سلٹنگ کا عمل مکمل کیا گیا، جس سے اربن فلڈنگ کے خطرات کم ہوئے اور نکاسی آب کا نظام بہتر بنایا گیا۔ حکومت پنجاب نے دریاؤں کے پشتوں اور بندوں کی مضبوطی کے لیے گرانٹس منظور کیں، جو مون سون سیزن میں انتہائی کارگر ثابت ہوئیں۔ مون سون 2025ء کے لیے ایک جامع کانٹیجنسی پلان بھی تیار کیا گیا اور تمام متعلقہ محکموں کو بروقت ہدایات جاری کی گئیں۔ بارشوں کے دوران پی ڈی ایم اے نے یومیہ بنیادوں پر الرٹس جاری کیے اور میڈیا کے ذریعے وسیع سطح پر عوامی آگاہی مہم چلائی۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے معلومات کی مؤثر ترسیل کو یقینی بنایا گیا۔ ساتھ ہی، روزانہ کی بنیاد پر ’’چیف منسٹر فلڈ فیکٹ شیٹ‘‘تیار کی جاتی رہی، جس میں بارش، نقصانات اور ممکنہ حادثات کی تفصیلات شامل کی گئیں۔ دریاؤں کے بہاؤ اور سیلابی صورتحال کی مسلسل مانیٹرنگ کی گئی۔ راولپنڈی میں غیر معمولی بارشوں کے دوران سیلابی صورتحال میں پی ڈی ایم اے نے بروقت اور مؤثر اقدامات کے ذریعے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ مستقبل میں پی ڈی ایم اے پنجاب اپنی خدمات کو مزید مؤثر اور جدید بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ ادارے کی بنیادی توجہ ارلی وارننگ سسٹم کو بین الاقوامی معیار کے مطابق اپ گریڈ کرنا ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ آفت کی صورت میں معلومات فوری اور درست طریقے سے عوام تک پہنچائی جا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، پی ڈی ایم اے تمام متعلقہ شعبہ جات میں کیپیسٹی بلڈنگ، جدید ٹیکنالوجی کا انضمام اور انسانی وسائل کی تربیت پر بھی بھرپور توجہ دے رہا ہے۔ ہمارا عزم ہے کہ ہر ممکن قدرتی آفت سے پہلے خبردار کیا جائے، اس کے دوران مؤثر رسپانس دیا جائے اور بعد ازاں بھرپور ریلیف اور بحالی ممکن بنائی جائے۔ پی ڈی ایم اے ایک محفوظ، مستحکم اور باخبر پنجاب کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو مسلسل نکھار رہا ہے کیونکہ محفوظ پنجاب، خوشحال پاکستان کی ضمانت ہے۔ عبدالعزیز (ڈائریکٹر میٹ آفس ، لاہور)  21 جولائی سے ملک کے شمال اور شمال مشرقی حصوں میں مون سون کا سسٹم داخل ہو رہا ہے جس کی وجہ سے بارشیں معمول سے زیادہ ہوں گی بالخصوص دریائے راوی، جہلم اور چناب کی آب گیروں میں بارشوں کے امکانات ہیں۔ ابھی تک کے مون سون میں ان آب گیروں میں بارشیں نہیں ہوئیںجس کی وجہ سے دریاؤں کا بہاؤ معمول کے مطابق رہا ہے۔ نئے سلسلے میں توقع ہے کہ دریاؤں کا بہاؤ تیز ہوگا اور منگلا ڈیم کے پانی کی سطح میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس حوالے سے میٹ آفس نے پری الرٹ جاری کر کے این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے اور اضلاع کی سطح پر متعلقہ محکموں کو آگاہ کر دیا ہے تاکہ بروقت اور ضروری اقدامات یقینی بنائے جاسکیں۔21 جولائی سے آنے والا موسمیاتی نظام معمول کا ہے جو خلیج بنگال میں بنتا ہے، وہاں سے بھارت میں اچھی بارشوں کے بعد پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ اگلا سسٹم معمول سے مختلف ہے جو بنگلہ دیش سے شروع ہوکر نیپال کے راستے پاکستان آرہا ہے۔ اس میں بارش آب گیروں میں ہوگی اور بارشیں زیادہ ہوں گی۔ ملک میں پری مون سون بارشیں کم ہوئیں اور درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہا۔ ایسی صورتحال مون سون کیلئے موزوں ہوتی ہے۔ مون سون جولائی کے پہلے ہفتے میں شروع ہوتا ہے لیکن اس مرتبہ جون کے آخری ہفتے یعنی معمول سے ایک ہفتہ پہلے ہی اس کا آغاز ہوگیا جس کی وجہ پری مون سون بارشوں کی کمی اور درجہ حرارت میں اضافہ ہے۔ گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی سے دنیا متاثر ہو رہی ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو اس سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ عبداللہ ملک (نمائندہ سول سوسائٹی) آب و ہوا میں دو طرح کی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ ایک موسمیاتی تبدیلی ہے جس کی وجہ سے بے وقت بارشیں اور شہروں میں سیلاب آرہے ہیں۔ ہمارے گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں اور اب ایسے خطے میں بھی بارشیں ہو رہی ہیں جہاں نہیں ہوتی تھی۔ جتنی تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں ایسا لگتا ہے کہ انسان ان پر قابو نہیں پاسکے گا۔ دوسری تبدیلی ماحولیاتی ہے۔ یہ انسان کی وجہ سے ہوتی ہے جس میں گاڑیوں، فیکٹریوں کا دھواں، اربنائزیشن و دیگر شامل ہیں۔ ان دونوں تبدیلیوں کی وجہ سے نقصان انسان کا ہی ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں میکسیو میں کلاؤڈ برسٹ ہوا اور تیز بارشوں سے لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوگئیں۔ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیاں بہت شدت سے ہورہی ہیں اور اس حوالے سے دنیا نے بہت پہلے ہی کام کا آغاز کر دیا تھا۔ COPکانفرنس ہوئی، ایشیائی ممالک میں بھی اس پر گفتگو ہوئی، اقوام متحدہ کے آخری اجلاس میں اس پر خصوصی سیشن منعقد کیا گیا، حکومت پاکستان بھی اس پرتوجہ دے رہی ہے۔ ہمیں دنیا سے فنڈز بھی ملے ہیں تاکہ ہم لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ رکھ سکیں۔ میرے نزدیک حکومت پاکستان نے اس حوالے سے پیشگی اقدامات پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ اربن فلڈنگ بہت خطرناک ہے۔ سرکاری طور پر ایسے منصوبے موجود ہیں جو دریاؤں کے قدرتی راستے پر ہیں، اس سے پانی کا بہاؤ رک جائے گا۔ لوگوں نے دریائی زمینوں پر دیہات آباد کر لیے، بند باندھ کا پانی کا رخ موڑ دیا، یہی وجہ ہے کہ جب سیلاب آتا ہے تو پانی آبادیوں میں چلا جاتا ہے۔ حکومت کو لاہور ہائی کورٹ کی 2010ء کی فلڈ رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داران کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کرنی چاہیے۔ شہروں میں ہر جگہ کمرشل پلازے اور مارکیٹس بن رہی ہیں جن سے علاقوں کی شناخت بدل رہی ہے۔ کیولری گراؤنڈ لاہور سے لے کر کاہنہ اور قصور کے وسط زرعی زمین ختم اور ہاؤسنگ سوسائٹیز اور آبادیاں بن گئی ہیں۔ بے ہنگم ہاؤسنگ کالونیوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ آبادی میں اضافہ بھی مسائل کی وجہ ہے، حکومت کو نئے شہر آباد کرنے چاہئیں۔ پانی کی قلت اور بے موسمی بارشوں کی وجہ سے بہت نقصان ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں ہیٹ ویو بھی مسئلہ ہے ، گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ سانحہ سوات کی وجہ بھی موسمیاتی تبدیلی ہے۔ جس موسم میں لوگ سیر و تفریح کے لیے سوات جاتے تھے اب اس میں اچانک بارشیں اور لینڈ سلائیڈنگ ہوتی ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے پاس موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے کوئی ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ واحد راستہ یہی ہے کہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دے دیا جائے لہٰذا اس وقت جامع حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اداروں کا آڈٹ کرنا چاہیے تاکہ معلوم ہوسکے کہ ماضی میں کیا کام کیا اور بجٹ کہاں خرچ کیا گیا۔ ہمیں دنیا کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ وقت آگیا ہے کہ فوری اقدامات کریں، اگر مزید تاخیر کی تو مسائل سنگین ہوجائیں گے اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ اربن فلڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟ کیا پانی کے قدرتی راستے بند کر دیے گئے ہیں؟اگر ایسا ہے تو اتھارٹی کو ان لوگوں کے خلاف فوری کارروائی کرنی چاہیے جنہوں نے ندی نالوں پر قبضہ کر رکھا ہے، یہ جگہ خالی کرواکر پانی کا راستہ بحال کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے ذیر زمین ٹینکس کو فعال کیا جائے اور پینے کے پانی کو محفوظ بنایا جائے۔ فضائی آلودگی انسانی زندگی کو متاثر کر رہی ہے،ا س پر قابو پانے کیلئے اقدامات کیے جائیں۔ لاہور ہائی کورٹ کی کاوشوں کی وجہ سے حکومت نے مون سون کے حوالے سے کام کیا ہے۔ 13 جولائی سے لے کر 18 جولائی تک، تیز بارشوں نے حکومت کے تمام دعووں کو پانی میں بہا دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی تیاری صرف کاغذوں میں تھی، زمین پر اس طرح کام نظر نہیں آیا۔ ہمارے پاس آفات سے نمٹنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ بارشوں اور سیلاب کے علاوہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پانی نہ ہونے کے باعث خشک سالی ہوگی۔ پانی کی قلت سے اناج کی قلت اور اناج کی قلت سے قحط سالی پیدا ہوگی۔ ایسے حالات میں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کون سی فصلیں خشک سالی میں پیدا ہوتی ہیں۔ دنیا میں ایسے بیج تیار ہوچکے ہیں جو خشک سالی والے علاقوں میں لوگوں کو اناج مہیا کرتے ہیں ۔ جب بھی کوئی آفت آتی ہے تو ہزاروں لاکھوں افراد اور خاندانوں کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنا پڑتا ہے جس کے باعث غذائی قلت، تعلیم، صحت، کلچر سمیت بڑے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ کم عمر کی شادیاں بھی ہوتی ہیں۔ ان آفات سے لوگوں کی زبان، کلچر، تاریخ، قسمت سب بدل جاتا ہے اور لوگ بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ موسمیاتی تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر طرح کے حالات سے نمٹنے کیلئے پیشگی تیاری اور اقدامات کرے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت کو بڑے فیصلے لینا ہوں گے جو ڈرائنگ روم میں دوران گفتگو نہیںبلکہ ریسرچ پر مبنی ہونے چاہئیں۔ 

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل