Monday, July 21, 2025
 

سقراط کا فلسفہ اور پی ٹی آئی کا مخمصہ

 



دنیائے فلسفہ کا سب سے عظیم اور جلیل المرتبت معلم جس نے پانچویں صدی قبل مسیح میں یونان میں مغربی فلسفے کی بنیاد رکھی،470 سال قبل مسیح یونان کے معروف شہر ایتھنز میں پیدا ہوا۔ سقراط فطرتاً نہایت اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل، حق پرست اور منصف مزاج استاد تھا۔ اپنی اسی حق پرستانہ فطرت اور مسلسل غور و فکر کے باعث اس نے دیوتاؤں کے حقیقی وجود سے انکار کر دیا تھا۔ اس فکر کی پاداش میں ایتھنزکی عدالت نے 399 قبل مسیح میں اسے موت کی سزا سنائی اور سقراط نے حق و صداقت کی خاطر زہر کا پیالہ پی کر سچائی کو امر کر دیا۔ سقراط کی درس گاہ کا صرف ایک اصول تھا اور وہ تھا برداشت۔ یہاں بیٹھنے والے لوگ ایک دوسرے کے خیالات تحمل کے ساتھ سنتے تھے اور بڑے سے بڑے اختلاف پر بھی ایک دوسرے سے الجھتے نہیں تھے۔ سقراط کے مکتب کا قاعدہ تھا کہ اس کا جو شاگرد ایک خاص حد سے اونچی آواز میں بات کرتا تھا یا پھر دوسرے کو گالی دے دیتا تھا یا دھمکیاں دیتا تھا یا پھر جسمانی لڑائی کی کوشش کرتا تھا تو اس طالب علم کو فوراً درس گاہ سے نکال دیا جاتا تھا۔ سقراط کا کہنا تھا کہ برداشت سوسائٹی کی روح ہوتی ہے، سوسائٹی میں جب برداشت ختم یا کم ہو جاتی ہے تو مکالمہ کم ہو جاتا ہے اور جب مکالمہ کم ہو جاتا ہے تو معاشرے میں نفرت و وحشت بڑھ جاتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اختلاف رائے، دلائل اور منطق پڑھے لکھے لوگوں کا کام ہے۔ برداشت اور مکالمے کا یہ فن جب تک پڑھے لکھے اور عالم فاضل لوگوں کے پاس رہتا ہے، اس وقت تک معاشرہ ترقی کرتا رہتا ہے، لیکن جب یہ مکالمہ یا اختلاف جاہل لوگوں کے ہاتھ آ جاتا ہے تو پھر معاشرہ انارکی کا شکار ہو جاتا ہے اور افراتفری پھیلنے لگتی ہے۔ سقراط کے بقول عالم اس وقت تک عالم نہیں ہو سکتا جب تک اس میں برداشت نہ آجائے، وہ جب تک ہاتھ اور بات میں فرق کو ملحوظ نہ رکھے۔ سقراط کے فلسفے کی روح کے مطابق وہی معاشرہ ترقی کرتا اور آگے بڑھتا ہے جس میں تحمل، برداشت، رواداری، بردباری، نرمی اور دوسروں کی رائے کو سننے، سمجھنے اور ضبط کرنے کا جذبہ موجود ہو، وہ اختلافات، دلائل، منطق اور مکالمے کی افادیت کو سمجھتا اور اس سے معاملات کو سلجھانے کا ہنر جانتا ہو۔ خواہ وہ فرد کی سطح پر ہو، جماعت یا گروہ، خاندان یا قبیلے یا حیات اجتماعی کے کسی بھی طبقے اور شعبے سے ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کا معاشرہ سقراط کے فلسفے کی تعریف پر پورا اترتا ہے؟ افسوس کہ اس کا جواب ’’ہاں‘‘ میں نہیں دیا جا سکتا کہ یہاں فرد سے لے کر افراد تک اور جماعت سے لے کر اداروں تک کہیں بھی صبر و تحمل اور برداشت کا عمل عنقا نظر آتا ہے۔ مکالمے، دلائل اور منطق سے معاملات سلجھانے کی بجائے، جوش، جذبات، انا پرستی، خود سری اور ’’میں‘‘ کی گردان سے حالات کو گمبھیر، ہویدا اور گنجلک بنایا جا رہا ہے۔ آئین سے لے کر سیاست تک اور عدالت سے لے کر صحافت تک اور قیادت سے لے کر سیادت تک اور معاشرے سے لے کر معیشت تک ترقی و عروج کی بجائے تنزلی و زوال کے آثار ہویدا ہوتے جا رہے ہیں۔ معاشرے میں ہر سطح پر توازن قائم رکھنے کی ذمے داری اول حکومت وقت پر ہوتی ہے کہ امور سلطنت کا سارا نظم اس کے دست قدرت میں ہوتا ہے۔ دوم، حزب اختلاف کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ مملکت کا نظام چلانے میں اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کرے۔ بدقسمتی سے ہر دو جانب سے صورت حال تسلی بخش قرار نہیں دی جاسکتی۔ حکومت 26 ویں آئینی ترمیم کے تریاق سے اپنی پارلیمانی عددی قوت میں مخصوص نشستوں کے حصول سے ایسا اضافہ کرتی جا رہی ہے کہ دو تہائی اکثریت کا تاج اس کے سر پہ سجنے والا ہے، جس سے مکالمے، دلائل اور منطق کی روح پرواز کر جائے گی اور من مانی کے آہنی ہاتھوں سے پارلیمنٹ سے مرضی کی اپنی ترامیم منظور کرا لی جائیں گی تاکہ پانچ سال پورے کرنے کی راہ ہموار ہو سکے جب کہ اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت پی ٹی آئی 26 ویں آئینی ترمیم سے لگنے والے زخم اور ایوان عدل سے آنے والے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے گرداب سے نکلنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ اس پہ مستزاد پی ٹی آئی کے تحریک چلانے اور حکومت سے مذاکرات کے حوالے سے اندرونی اختلافات کا ابھرنا اور اس میں شدت پیدا ہونا ہے۔ گروپ بندی سے کارکنوں میں مایوسی اور پی ٹی آئی کی عوامی قوت میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کا پیغام ہے کہ تمام اختلافات ختم کرکے صرف احتجاجی تحریک پر توجہ مرکوز کی جائے، لیکن پی ٹی آئی رہنماؤں میں مکالمہ کیسے ہو؟ برداشت نہیں ہے۔ اپنے باقی کے رہنما اصولوں سے انھیں کوئی سروکار نہیں، یہی پی ٹی آئی کا مخمصہ ہے۔ اسے سقراط کے فلسفے سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل