Monday, July 21, 2025
 

امن دشمنوں کے خلاف، صبر آزما جنگ

 



ہنگو اور مالا کنڈ میں فورسز کے آپریشنز کے دوران فتنتہ الخوارج کے 14 دہشت گرد مارے گئے، دہشت گردی کی فائرنگ سے ڈی پی او ہنگو سمیت تین افسران زخمی بھی ہوئے۔ ضلع ملاکنڈ کے علاقے مزاری بابا میں فتنتہ الخوارج کے ایک گروپ کی موجودگی میں اطلاع پر سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر آپریشن کیا۔ اس موقعے پر جھڑپ میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق پانچ دہشت گرد مارے جاچکے، دو زخمی ہوئے اور آٹھ کو زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ پاکستان اس وقت بہت سے مسائل سے دوچار ہے جن میں سے ایک مسئلہ دہشت گردی کا ہے جو سنگین ترین صورت اختیار کرچکا ہے۔ دو صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخوا لہولہان ہیں۔  گزشتہ دو، تین برس کے دوران کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے پولیس اہلکاروں پر حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، لیکن حالیہ تازہ ترین کارروائی میں خیبر پختونخوا پولیس نے جس بہادری اور دلیری کا مظاہرہ کیا، وہ لائق تحسین ہے،اور اس تاثر کو زائل کرنے کا سبب بنی ہے کہ خیبر پختونخوا پولیس دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام رہتی ہے۔ اس میں چنداں شک نہیں کہ دفاع وطن کے ضامن ادارے سال کے بارہ مہینے اور دن کے چوبیس گھنٹے دشمن کے خلاف میدان عمل میں رہتے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے مسلسل کارروائیاں کر کے ان کی کمر توڑ دی ہے اور ان کے ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کے مذموم عزائم کو خاک میں ملا دیا ہے۔ اب وہ سرحدی علاقوں میں چھاپہ مار کارروائیاں کرتے ہیں اور افغانستان فرار ہونے کی کوشش میں کچھ فورسز کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں اور کچھ بھاگ نکلتے ہیں۔ جب سے ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہوئی ہے، پاکستان میں دہشت گردوں کی نقل و حمل میں تشویش ناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان افغان عبوری حکومت سے پرزور مطالبہ کرتا آیا ہے کہ وہ اپنے ملک میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرے اور پاکستان کو مطلوب دہشت گرد اس کے حوالے کیے جائیں۔ پاکستان کے اس احتجاج اور مطالبے کے ردعمل میں افغانستان پہلے تو یقین دہانیاں کرواتا آیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا اور دہشت گردوں کے خلاف وہ خود کارروائی کرے گا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ افغان عبوری حکومت کی یہ تمام تر تگ و دو صرف بیان بازی تک محدود ہے اور وہ عملا ًدہشت گردوں کے خلاف کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے ۔ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’’را‘‘ مختلف جی پی ایس کے ذریعے سی پیک CPECکے منصوبوں پر حملے کروا کے ان منصوبوں کی پیش رفت رکوانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ افغانستان میں 23 دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں جن میں سے 17 دہشت گرد تنظیمیں صرف پاکستان میں دہشت گردی پھیلاتی ہیں۔ پاکستان میں بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردی کے بارے میں پاکستان کی طرف سے پہلے ہی ایک ڈوزیئر جاری کیا جا چکا ہے جس میں انتہائی مخصوص معلومات جیسے بینک اکاؤنٹس اور اس میں ملوث بھارتی شہریوں کے شواہد موجود ہیں جو دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ اس ڈوزیئر میں ٹی ٹی پی، بلوچ شرپسندوں اور دیگر گروپوں کے تربیتی کیمپوں کی تعداد اور مقامات بھی شامل ہیں۔ بھارتی ایجنسیز کی خطے میں دہشت گردی پھیلانے کا ثبوت قطر میں بھارتی بحریہ کے اہلکاروں کی سزا ہے اور کینیڈا میں سکھ رہنما کا قتل دوسرا اعلانیہ ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے کلبھوشن یادو کو پکڑا ہوا اور سزا بھی سنائی جاچکی ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد قوی توقع تھی کہ یہ سلسلہ اب رک جائے گا اور شمال مغربی سرحدوں سے دوستی تعاون اور امن کا پیغام آئے گا مگر صد حیف کہ اس کی بجائے دہشت گردی کی نئی لہر آگئی جس کی ذمے دار پاکستان دشمن دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی ہے اور اس کو کابل حکومت کی خاموش حمایت حاصل ہے۔ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد افغانستان میں اپنے خفیہ ٹھکانوں سے پاکستان میں دراندازی کرتے ہیں اور سیکیورٹی فورسز کے علاوہ عام شہریوں کو بھی اپنا نشانہ بناتے ہیں۔ ان حالات میں حکومت، سیکیورٹی فورسز، عدلیہ، سویلین اداروں اور سیاسی جماعتوں کی قیادت انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحد ومتفق ہوکر متحرک اور جاندار کردار ادا کرے۔ وفاقی، صوبائی حکومتوں اور ڈسٹرکٹ مینجمنٹ کو بھی چاہیے کہ امن و امان کے قیام اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے ساتھ حساس مقامات کی حفاظت کے لیے تمام تر دستیاب وسائل بروئے کار لائیں۔ افغانستان کی حکومت کے اکابرین کو بھی اپنی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعے یا نفرت کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ پاکستان نے افغانستان پر کبھی حملہ کیا ہے اور نہ ہی اس کے کسی علاقے پر زبردستی قبضہ کیا ہے۔ پاکستان نے افغان ٹریڈ کو بھی قانون کے مطابق جاری رکھا ہے۔ پاکستان کی ہر حکومت نے افغانستان کا ساتھ دیا ہے، افغانستان میں غیرملکی فوجوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے افغان مجاہدین اور طالبان قیادت کا بھرپور ساتھ بھی دیا ہے، لاکھوں افغان باشندوں کو اپنے ملک میں پناہ بھی دیے رکھی ہے، ان حقائق کے باوجود افغانستان کا حکمران طبقہ، چاہے وہ مذہبی طبقہ ہو، چاہے لبرل اور ماڈریٹ طبقہ ہو یا اریسٹوکریٹس کا طبقہ ہو، ان کا پاکستان مخالف سوچ رکھنا ایک المیہ ہی کہلا سکتا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں عام شہریوں کے علاوہ پولیس اور فوج کے جوانوں اور افسروں کی قربانیاں بھی دے چکا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہماری ان قربانیوں کا اب عالمی سطح پر بھی اعتراف کیا جانے لگا ہے لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ جنگ کا آخری مرحلہ ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ہمیں پہلے سے زیادہ چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور فوجی آپریشنز کیے اور ان کا کافی حد تک خاتمہ کردیا تھا لیکن اب افغانستان میں ایسے عناصر موجود ہیں، جو پاکستان کے خلاف کام کرنا چاہتے ہیں اور ٹی ٹی پی کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ٹی ٹی پی دوبارہ متحرک ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایک بار پھر ہمیں ان ہی بے رحم قاتلوں کا سامنا ہے جو اس سے پہلے بھی ہمارے شہر کے گلی کوچوں میں آگ و خون کا وحشیانہ کھیل کھیلتے رہے ہیں۔ پاکستانی عوام اور ریاستی اداروں نے جانی اور مالی قربانیوں کی ایک تاریخ رقم کرکے اس فتنہ کو دبایا تھا لیکن افغانستان سے امریکا کے انخلاء کے بعد پاکستان میں رواں برس دہشتگردی کے واقعات کا تسلسل جاری ہے۔ کسی ریاستی ادارے پر حملہ صرف ’’ریاست پر حملہ‘‘ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی کیونکہ انتظامی ادارے پر حملہ کرنے کا مقصد ہی عوام میں خوف اور بے یقینی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا موقف یہ ہے کہ ابھی طالبان سے مذاکرات کی گنجائش موجود ہے۔ ریاست بلاشبہ پوری طاقت سے دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے لیکن ہمیں سوچنا ہوگا کہ کمی کہاں باقی ہے؟ کیوں ہم اتنی قربانیوں کے باوجود اب تک اس لعنت سے چھٹکارا نہیں پاسکے۔ افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے لیکن افغانستان کو بھی یہ بات باور کرانے کی اشد ضرورت ہے کہ خیر سگالی کی یہ ٹریفک یک طرفہ نہیں چل سکتی۔ اقوام عالم کو بھی سفارتی سطح پر یہ بات اچھی طرح باور کرانی ہوگی کہ خطے میں امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک افغانستان سلگ رہا ہے اور اس سے بھی زیادہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں امن کا راستہ پاکستان سے ہوکر جاتا ہے۔ افغان سرحد سے پاکستان کی سلامتی اور دفاع کو مسلسل چیلنج کیا جارہا ہے، لہٰذا طالبان حکومت کو ایک بار پھر سختی سے وارننگ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے ان کے سہولت کاروں پر آہنی ہاتھ ڈالنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ اگر ریاستی منصوبہ بندی میں کوئی کمی یا کمزوری رہ گئی ہے تو اسے دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں سے نمٹنے سے متعلق سخت پالیسی اپنائی جائے۔ سہولت کاروں کے بغیر دہشت گردی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دہشت گردی کے پھیلتے ناسور کو بہر صورت جیسے بھی ہے یہیں پر ختم کرنا ہوگا۔ قوم صرف دہشت گردوں کا خاتمہ دیکھنے کی خواہشمند ہے تاکہ وہ اپنی آنے والی نسل کو ایک بہتر ماحول دے سکے جہاں بارود سے گونجتی ہوئی دہشت یا خوف نہ ہو۔ دہشتگردی کی نئی لہر نے سوچ کے بہت سے دروازے کھول دیے ہیں۔ ہمیں پاکستان سے باہر دیکھنے سے پہلے اپنی صفوں میں موجود دہشت گردوں کے حمایتیوں کو تلاش کر کے سنگین سزائیں دینا ہوں گی، تاکہ دشمن ہماری کامیابیوں کا اثر زائل نہ کر سکے تانکہ پاکستانی قوم مکمل امن کی منزل سے ہمکنار ہو اور ترقی کی طرف تیز رفتاری سے پیش قدمی کرے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل