Monday, July 21, 2025
 

مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی میں شکایتیں اور شکوے

 



پیپلز پارٹی کے ووٹوں سے بنی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے تقریباً ڈیڑھ سالہ دور میں دونوں پارٹیوں کے درمیان اختلافات تو چند ماہ بعد ہی منظر عام پر آنے لگے تھے جن میں دریائے سندھ پرکینالز نکالنے کا مسئلہ نمایاں ہوا مگر کافی دنوں تک سندھ میں جاری احتجاج جس میں پیپلز پارٹی بھی مجبوری میں شامل ہوئی تھی۔  پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے سخت بیانات کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کو کینالز منصوبہ واپس لینا پڑا تھا مگر یہ مسئلہ سندھ میں اب بھی ’’ دریائے سندھ بچاؤ تحریک‘‘ کی شکل میں موجود ہے اور (ن) لیگی حکومت کو کالا باغ ڈیم کے بعد کینالز مسئلے پر پیچھے ہٹنا پڑا مگر گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں ایک بار پھر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی بازگشت سنائی دی۔ مسلم لیگ (ن) کالا باغ ڈیم اور کینالز منصوبے کی حامی اور پیپلز پارٹی مخالف ہے اور دونوں پارٹیوں کو پنجاب اور سندھ میں حمایت و مخالفت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مخصوص نشستوں کے نتیجے میں (ن) لیگ کی نشستوں میں اضافہ ہوا ہے اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے ان نشستوں کو خیراتی نشستوں سے تشبیہ دی ہے جو اگر خیراتی ہیں تو بھی پی ٹی آئی مخالف تمام پارٹیوں کو یہ اضافی نشستیں ملی ہیں اور ان کے ارکان کی تعداد بھی ان مبینہ خیراتی نشستوں کے باعث ہی بڑھی ہے مگر مسلم لیگ کی نشستیں سب سے زیادہ ہو گئی ہیں مگر حکومت پیپلز پارٹی کے بغیر قائم نہیں رکھی جا سکتی بلکہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی مل کر اس پوزیشن میں آ سکتی ہیں کہ (ن) لیگی حکومت ختم کرائی جا سکے مگر پیپلز پارٹی کا پی ٹی آئی میں یہ ملاپ بالاتروں کی مرضی اور رضامندی سے ہی ممکن ہے جب کہ وزیر اعظم شہباز شریف کو جب تک بالاتروں کی سرپرستی حاصل ہے یہ ملاپ ممکن نہیں مگر پی پی ماضی میں پی ٹی آئی سے مل کر (ن) لیگ کی بلوچستان حکومت ختم کرا بھی چکی ہے، پی پی سے سب کچھ ممکن ہے۔ حال ہی میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں پی پی کے ارکان قومی اسمبلی شازیہ مری اور نبیل گبول نے (ن) لیگ کے وزیر مملکت طلال چوہدری کے مابین تکرار ہوئی اور نبیل گبول نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے دو تہائی اکثریت کے بعد پی پی کے ساتھ رویہ بدل لیا ہے مگر پی پی چاہے تو اب بھی (ن) لیگ کی حکومت گرا سکتی ہے اور اپنی ستر نشستوں کو ایک سو بیس بھی کرا سکتی ہے۔ اجلاس میں شازیہ مری نے سی ڈی اے بل میں (ن) لیگی ترامیم پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تحریک استحقاق لانے کا کہا تو طلال چوہدری نے اپنے حلیفوں کی حمایت کی بجائے سی ڈی اے کا دفاع کیا اور کہا کہ تحریک لائیں میں اس کا سامنا کروں گا۔ نبیل گبول نے کہا کہ (ن) لیگ سمجھتی ہے کہ اسے سادہ اکثریت مل گئی ہے، اب اسے پیپلز پارٹی کی ضرورت نہیں رہی اسی لیے ان کا رویہ بدل گیا ہے۔ پی پی نے پہلے بھی اسی باعث (ن) لیگی حکومت گرائی تھی اب پی پی (ن) لیگ کے دل کے قریب نہیں ہے۔ اجلاس میں آئین سپریم ہے کے نکتے پر دونوں پارٹیوں کے ارکان کے درمیان مکالمے دیکھنے میں آئے مگر معاملے کو بہتر بنانے پر توجہ ہی نہیں دی گئی، پی پی رہنماؤں نے اپنی برہمی کا اظہار کیا۔ نبیل گبول نے ایک ٹی وی پروگرام میں (ن) لیگی نائب وزیر اعظم اسحق ڈار کے گزشتہ دنوں دیے گئے بیان پر بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ ان کا رویہ بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ درست نہیں اور ان کے بیانات دونوں پارٹیوں میں دراڑیں ڈال رہے ہیں اس کے باوجود ہم حکومت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں مگر ان کی کابینہ میں شامل نہیں ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ سکھر اور حیدرآباد موٹروے کی تعمیر کا منصوبہ چار سو ارب مالیت کا ہے مگر وفاق نے بجٹ میں صرف پندرہ ارب روپے مختص کیے ہیں۔ اس سے قبل وزیر اعلیٰ سندھ اور صوبائی سینئر وزیر بھی شکایت کر چکے ہیں کہ وفاقی حکومت سکھر حیدرآباد موٹر وے کو اہمیت دے رہی ہے نہ سندھ کو مطلوبہ فنڈز دیے جا رہے ہیں۔ سندھ اور پنجاب کے وزرائے اطلاعات کے درمیان بھی سندھ اور پنجاب کے ترقیاتی معاملات پر بیان بازی ہو چکی ہے اور پنجاب کے بعض معاملات پر سندھ حکومت اپنے تحفظات کا متعدد بار اظہار بھی کر چکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دو مختلف نظریات کی سیاسی پارٹیاں ہیں اور ماضی میں ایک دوسرے کی مخالف رہی ہیں جنھیں پی ٹی آئی کی سابق حکومت اور اس کے وزیر اعظم نے ایک دوسرے کے قریب آنے پر مجبور کر دیا تھا۔ جنھوں نے دونوں پارٹیوں کی قیادت پر مقدمات بنوائے انھیں گرفتار کرا کے اپنے سخت سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا تھا اور یہی کچھ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں کیا تھا جس پر دونوں پارٹیوں کی قیادت جلاوطن رہی اور بعد میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان لندن میں میثاق جمہوریت ہوا تھا اور مجبوری میں دونوں سخت مخالف پارٹیاں ایک دوسرے کے قریب آئی تھیں۔ پی پی نے ہی پی ٹی آئی حکومت گرانے میں (ن) لیگ اور جے یو آئی کو ملا کر اہم کردار ادا کیا تھا اور 2022 میں مل کر حکومت بھی بنائی تھی مگر اس بار پی پی وزیر اعظم کی خواہش کے باوجود کابینہ میں شامل نہیں ہو رہی اور اس کے مطابق اضافی نشستیں ملنے کے بعد (ن) لیگ کا رویہ پیپلز پارٹی کے ساتھ پہلے جیسا نہیں رہا ہے۔ پی پی کو پنجاب میں (ن) لیگی حکومت سے شکایات اور (ن) لیگ سے تحفظات ہیں اور اسی وجہ سے صدر آصف زرداری کو لاہور کے چکر لگانا پڑے۔ (ن) لیگ میں ایسے رہنما بھی ہیں جن کے بیانات پی پی کو پسند نہیں ہیں۔ (ن) لیگ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ پیپلز پارٹی کو اپنا مخالف بنا لے اس لیے (ن) لیگی رہنماؤں کو اپنی حلیف پی پی کے سلسلے میں محتاط رویہ اختیارکرنا چاہیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل