Loading
سانحہ قلات میں زخمی ہونے والے صابری قوال کے طبلہ نواز ایک ہاتھ سے محروم ہوگیا، ڈاکٹرز نے ہاتھ میں گولی لگنے کے بعد زہر پھیلنے کے پیش نظر شہباز کا ہاتھ کاٹ دیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق سانحہ قلات میں صابری قوال گروپ کی بس پر فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہونے والا طبلہ نواز ایک ہاتھ سے محروم ہوگیا جس کے بعد اب وہ کبھی اپنے فن کا مظاہرہ نہیں کرسکے گا۔ شہرکی نجی قوالی کی محفلوں میں طبلے پرتھرکتی انکی انگلیوں سے پیداہونے والے ساز و آواز کا ایک زمانہ معترف تھا، پاکستان کےعلاوہ خلیجی ممالک میں شہبارکی فن کی دھوم رہی ہےْ اسپتال کےبسترپرآہنی شکنجے میں جکڑے محروم ہاتھ اورپلاسٹرمیں بندھے دوسرے ہاتھ کے ساتھ لیٹے شہباز کے چہرے پرخاموشی، آنکھوں میں نمی اور سوال ہے کہ اب طبلہ کیسے بجےگا، کیا زندگی کا سازبجھ گیا؟۔ دہشت گردی کےاندوہناک واقعےمیں زخمی ایک اورقوال وارث صابری بھی موت وزیست کی کشمکش میں مبتلا ہیں، موت کا انتہائی قریب سے مشاہدہ کرنے والا متاثرہ خاندان تاحال کسی بھی حکومتی امداد سےمکمل طورپرمحروم ہے۔ یہ سانحہ قلات سےغالبا کچھ روز پہلے تک کی بات ہے، جب سب کچھ ٹھیک تھا، ایسے میں شہرکی نجی محفلوں میں روشنیوں اوردیگرسازندوں کے آلات موسیقی کی تیز آوازوں کے درمیان ماجد علی صابری قوال گروپ کے طبلہ نواز شہباز کی دوران پرفارمنس ایک خاص اہمیت ہوا کرتی تھی کیونکہ قوالی کی ان محفلوں میں طبلے کی مسلسل ومخصوص اندازمیں متحرک انگلیوں کے ذریعےسروتال کا ایک ایسا سماں بندھ جاتا تھا، جوشرکا محفل کوجھومنے پرمجبورکردیتا تھا۔ معروف قوال ماجد علی صابری گروپ کےطبلہ نواز شہبازاس افسوسناک واقعےمیں شدید زخمی ہوئے اور ڈاکٹروں ان کے ایک ہاتھ کوگولیوں سے چھلنی ہونے کی وجہ سے جسم سے الگ کردیا جبکہ دوسرا ہاتھ بھی کاری اور گہرے زخموں کی وجہ سے پلاسٹرمیں جکڑاہوا ہے۔ بلوچستان کے ایک اسپتال کے بیڈ پرموجود شہبازخالی نگاہوں سے ہر ایک کو تک رہا ہے، اس کے من میں سوال توشاید بہت ہیں مگر وہ لبوں تک آکردم توڑرہے ہیں۔ البتہ شہبازکے چہرے پرخاموشی، آنکھوں میں نمی اورسوال ہے کہ اب طبلہ کیسے بجےگا،کیا زندگی کا سازواقعی بجھ گیا؟ ماجد علی قوال کے مطابق طبلہ نوازشہباز نے ان کےگروپ کے ہمراہ قوالی کے کئی بڑے اسٹیج پرفارمنسزمیں اپنے فن کا لوہا منوایا اورکراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاورکے علاوہ متحدہ عرب امارات تک میں اپنے فن سےمحفلوں کو گرمایا،۔ طبلہ ان کی پہچان اورمعاشی سہارا تو تھا ہی مگراس کے ساتھ وہ شہبازکا جنون تھا۔ ماجد علی کےمطابق دہشت گردی کے اس واقعے نے شہبازسمیت دیگرزخمیوں کے جسموں کےعلاوہ روح پربھی گہرے زخم لگائے ہیں، کیونکہ ایک فنکارکا اسلحہ وبارود سے کیا کام، وہ توصرف ساز و آواز کے ذریعے لوگوں میں خوشیاں بانٹتے ہیں۔ شہبازکی خاموشی کچھ نہ کہنے کے باوجود بہت کچھ کہہ رہی ہے، وہ باربارآہنی شکنجے میں جکڑے اپنے خالی بازو کودیکھ کرشائد آنکھوں کی زبان سے بہت سے سوالات اس معاشرے سے پوچھ رہے ہیں کہ آخرناکردہ گناہ کی اتنی بڑی سزا کیوں ملی؟ شہباز کے ساتھی فنکاروں کےمطابق وہ صرف طبلہ نوازبلکہ پورے گروپ کی جان رہے ہیں ،کسی بھی پرفارمنس کا آغازاکثراس کی ڈھول کی تھاپ سے ہواکرتا تھا مگراب یوں لگتا ہے ہماری محفلیں بھی سونی ہوگئیں۔ واضح رہے کہ بلوچستان کےعلاقےقلات میں ہونے والے دہشت گرد حملےکئی خاندان تہہ وبالا کردیے اورکئی زندگیاں اجاڑ دیں، کچھ کوکاری زخم لگے جبکہ کچھ جسمانی اعضا سے محروم ہوچکے۔ یہ دکھ بھری داستان صرف شہبازتک ہی محدود نہیں بلکہ اس وقت سانحہ قلات کا ایک ایک اورزخمی وارث موت وزیست کی حالت میں مشینوں کے ذریعے مصنوعی سانسیں لے رہے ہیں جبکہ المونیم آرٹسٹ مصورعباس اور ہمنوا شہزاد، منظربھی اسپتال میں زیرعلاج ہیں۔ "
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل