Loading
نو مئی کے بہت سے ملزموں کو سزا ہو گئی۔سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور سزا تکلیف دہ ہے۔ یہ نوبت کبھی نہیں آنی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ ذمے داری سیاسی کارکنوں اور سیاسی جماعتوں کی بھی ہے۔ یہ ذمے داری کیا ہے، چند مثالوں کی مدد سے اسے سمجھا جا سکتا ہے۔ جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگایا اور ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی۔ مارشل لا اور پھانسی کی سزا دونوں متنازع تھے۔ اس کے ردعمل میں بھٹو صاحب کے صاحب زادے میر مرتضیٰ بھٹو نے الذوالفقار بنائی اور دہشت گردی شروع کر دی۔ بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی بہت دکھی تھے لیکن سابق وزیر اعظم کی صاحب زادی محترمہ بے نظیر بھٹو نے الذوالفقار سے لاتعلقی اختیار کی اور خالصتاً سیاسی جدوجہد کی جو بالآخر رنگ لائی۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت کے موقع پر ایک کتابچہ لکھنے کی پاداش میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کو سزائے موت سنا دی گئی۔ اسی طرح جماعت اسلامی سمیت کئی سیاسی جماعتوں پر بار بار پابندی عائد کی گئی لیکن بڑی سے بڑی سزا ملنے کے باوجود کسی سیاسی جماعت نے وہ راستہ اختیار نہیں کیا جو پی ٹی آئی نے اختیار کیا۔ دہشت گردی اور سیاسی سرگرمی کے درمیان یہ فرق ہے لیکن پی ٹی آئی یہ فرق ملحوظ نہیں رکھ سکی۔ نو مئی ہوا تو بانی پی ٹی آئی سمیت بہت سے دیگر راہ نماؤں نے ان سرگرمیوں کے جواز پیش کیے۔ بانی پی ٹی آئی تو یہاں تک کہہ گزرے کہ مجھے گرفتار کیا جائے گا تو پھر اور کیا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی سیاسی سرگرمی اور دہشت گردی کے درمیان فرق کو سمجھنے سے قاصر رہی ہے۔ اس جماعت کا ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ یہ جماعت سیاست اور ریاست کے درمیان جو پہاڑ جیسا فرق ہے، اسے بھی سمجھنے سے قاصر رہی ہے۔ پی ٹی آئی یہ فرق سمجھتی تو نہ دفاعی تنصیبات پر حملے کرتی اور نہ پاکستان کے دفاعی ہیروز کی توہین کی مرتکب ہوتی۔ اسی طرح یہ جماعت ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے ریاستی کوششوں کو نقصان پہنچانے میں بھی ملوث رہی ہے۔ اس کا صرف ایک ہی مطلب تھا کہ اس جماعت کے خیال میں ملک کی سلامتی اور مالی استحکام پر اس کا اقتدار فوقیت رکھتا ہے۔ یہ پی ٹی آئی کے سیاسی شعور کی ناکامی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی ایک ناکامی اور بھی ہے۔ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے لیکن غلطی کے بعد اس پر جم جانا اور شرمندہ ہو کر اپنی اصلاح نہ کرنا زیادہ بڑی غلطی ہے۔اس قسم کے حالات میں بہتر یہی ہوتا ہے کہ ریاست متعلقہ گروہ کو اتنے بڑے بحران سے نکلنے کا موقع فراہم کرے۔ ریاست نے نو مئی کے واقعات میں ملوث لوگوں کے خلاف مقدمات کا جلد فیصلہ نہ کر کے پی ٹی آئی کو یہی موقع فراہم کیا لیکن پی ٹی آئی اپنی روش پر قائم رہی لہٰذا مجرموں کے خلاف فیصلے سنا دیے گئے۔ اب بھی وقت ہے، پی ٹی آئی ریاست اور سیاست کے درمیان فرق کو سمجھ کر اپنی اصلاح پر آمادہ ہو جائے تو صورت بدل سکتی ہے۔ کاش ایسا ہو جائے۔ بلوچستان میں شیتل اور اس کے شوہر کے قتل نے دکھی کر دیا ہے۔ ظلم کی بعض نوعیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے اظہار سے الفاظ معذور ہو جاتے ہیں، اس واقعے پر دکھ کے اظہار کے لیے دکھ کا لفظ بھی معمولی محسوس ہوتا ہے۔یہ تکلیف دہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے سماج کی بنیاد ابھی تک جہالت ہے۔ صدیوں بلکہ قرنوں سے جمتی ہوئی جہالت کی اس دبیز تہہ کو اکھاڑ پھینکنے میں نہ مذہبی گروہ کام یاب ہو سکا ہے اور نہ تعلیم۔ نئے عہد کی روشنی ہمارے سماج کے ان تاریک گوشوں تک نہیں پہنچ سکی یہاں تک کہ دنیا بھر میں سماجی رویوں میں تیز رفتار تبدیلیاں پیدا کر دینے والے ذرایع ابلاغ بھی اس معاملے میں ناکام رہے ہیں جب کہ قانون تو ایسی ظالمانہ اجتماعیت میں ہے ہی موم کی ناک۔ انسان کے قلب و نظر میں لرزہ پیدا کر دینے والی وڈیو میں قاتلوں کا جو ہجوم دکھائی دے رہا ہے، اس میں تقریباً ہر عمر کے لوگ موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس قبیلے میں یہ لرزہ خیز جرم ہوا ہے، اس میں اس جرم کے بارے میں مکمل یک سوئی تھی۔ ایک آدھ کوئی استثنا تھا بھی تو اس میں اختلاف کی جرات نہیں تھی لیکن وہ جو کوئی بھی تھا، صاحب ضمیر تھا جس نے نہایت دانش مندی کے ساتھ اس خونی عمل کی وڈیو بنا کر سماج کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس جرات مندانہ عمل کے لیے پورا پاکستانی سماج اس کا شکر گزار ہے۔ یہ ایک عمل ایسا ہے جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ٹیکنالوجی کے نئے مظاہر نے کم از کم یہ تو کیا ہے کہ ایسے سنگ دل سماج میں بھی جونک لگا دی ہے۔ امید کی بس یہی ایک کرن ہے۔ چودہ سو برس قبل بیٹیوں کو زندہ درگور کر دینے والے سماج میں مذہب کی روشنی پیدا ہوئی تو ایک انقلاب پیدا ہو گیا۔ کیا سبب ہے کہ بیٹیوں اور بیٹوں کو یوں سامنے کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دینے والے معاشرے پر مذہبی طبقہ اثر انداز نہیں ہو سکا۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہمارے قبائلی سماج میں مذہب کا نمایندہ بھی اسی قسم کا ایک پرزہ ہے جیسے وڈیرے اور سردار کے جائز اور ناجائز ہر قسم کے احکام بجا لانے والے دیگر کارندے ہوتے ہیں۔ سبب یہ ہے کہ قبائلی سماج میں اس قسم کے مظالم کے لیے اس کا سہارا لیا جاتا ہے۔ دل کو دہلا دینے والے اس واقعے کے سامنے آنے کے بعد لوگ فطری طور پر دکھی ہیں اور وہ مختلف انداز میں اس پر ردعمل ظاہر کر رہے ہیں جو ظاہر ہے کہ بنجر سماج میں کچھ نہ کچھ تو ہیجان پیدا کرے گا۔ دکھ کا یہ اظہار مزید مفید ہو سکتا ہے، اگر یہ ان ظالمانہ سماجی رویوں کی اصلاح کے لیے فکر مندی کا ذریعہ بن سکے۔یہ تو ظاہر ہے کہ ایسے سنگ دلانہ رویوں کی اصلاح پلک جھپکنے میں نہیں ہو سکتی لیکن اس کا آغاز کہیں سے تو ہونا چاہیے۔ ہمارے یہاں جدید رجحانات رکھنے والی این جی اوز اور دینی رجحانات کے نمایندوں میں ہزاروں میل کی دوری ہے۔ ضروری ہے کہ یہ لوگ اپنے اختلافات کو برقرار رکھتے ہوئے اس نکتے پر متفق ہو جائیں۔ اس مقصد کے لیے ریاست سہولت کار کا کردار ادا کرے تاکہ وہ غور و فکر کر کے کچھ عملی تجاویز سامنے لا سکیں۔ ذرایع ابلاغ خاص طور پر شوبز میں ایسے موضوعات کو حکمت سے نہیں برتا جاتا۔ یہ شعبہ بھیڑ چال کا شکار ہے، خاص طور پر بھارت کی بے سوچے سمجھے نقالی کی جا رہی ہے لیکن شوبز کے لوگ اگر تھوڑی محنت کر کے پاکستانی قبائلی روایات کے مثبت پہلوؤں کو سمجھ کر فلم اور ڈرامہ بنا سکیں تو بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ ایک بلکہ بنیادی کام ریاست کو بھی کرنا ہے۔ اس کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ روشن خیال اور دین کی حقیقی تعلیمات پر یقین رکھنے والے قبائلی بزرگوں اور مؤثر افراد کو ایک پلیٹ فارم پر لائے تاکہ یہ لوگ اپنے لوگوں کی ذہنی سطح اور انداز فکر کے مطابق تبدیلی کا عمل شروع کر سکیں۔یہ کام کرنے میں ہم نے بہت دیر کر دی ہے۔ مزید دیر نہیں کی جا سکتی۔ اس سے پہلے کہ یہ خون آشامی ہمارے سماج اور ریاست کو ہڑپ کر جائے، بسم اللہ کر دیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل