Loading
دنیا پر چھائے جنگوں کے بادل چھٹ چکے ہیں، لیکن خطرات ٹلے نہیں۔کسی وقت بھی کوئی بری خبر سننے کو مل سکتی ہے۔ اگر جنگوں کی بنیادوں کو ختم کردیا جائے تو ان اسلحہ کے کارخانوں کا کیا ہوگا جہاں سے اربوں ڈالر کمائے جاتے ہیں، صرف جنگ کا ماحول گرم رکھ کر ہی ایسا کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ تمام باتیں اتنی سادہ اور سلیس بھی نہیں۔ جس طرح ن۔م راشد کہتے ہیں کہ ’’ محبت کرنا امیروں کی بازی ہے، حسن کو زہ گر‘‘ بالکل اسی طرح جنگوں میں شامل ہونا یا پھر حصہ بننا غریب ممالک کی بساط نہیں۔ ملک کسی ایک ہستی کا نام نہیں بلکہ لوگوں کا مجموعہ ہے جو مختلف طبقات میں بٹے ہوئے ہیں۔ ان کی زبانیں، قومیت، ثقافت، ان کے نظریات اور بیانیہ الگ الگ ، جن کو جنگوں میں شامل ہونا راس نہیں آتایا پھر ایسے ممالک کے اندرکچھ گروہوں یا پھر صرف شرفاؤوں کو جنگیں راس آتی ہیں۔ عوام کے سچے نمایندے نفرتوں کا کاروبار نہیں جماتے۔ جنگی ماحول کا پیدا ہونا اظہارِ رائے کی آزادی کو سلب کردیتا ہے اور جو امن کی بات کرتے ہیں ان کو غدارکے خطابات سے نوازا جاتا ہے۔ اس ملک میں عاصمہ جہانگیر ایسی ہی ایک مثال تھیں جن کے خلاف ہم نے تہمتوں کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ ہم نے اپنی قومی زبان کو ایسے ہی کاموں کے لیے استعمال کیا جو اصولی طور پر امن کا پیغام تھی۔ یہ کام فیض احمد فیض اور ان جیسے لوگوں نے خوب کیا جو آج مشکل ترین ہو چکا ہے، ان کو دونوں سرحدوں سے عزت ملی جس طرح ہندوستان میں اروندھتی رائے ہیں جو جنگی جنونیوں سے نبرد آزما ہیں، تہمتیں ان پر بھی ہزار ہیں مگر وہ ڈٹ کر کھڑی ہیں۔ ہندوستان میں پروپیگنڈے کا بازار ہمیشہ گرم رہا اور مودی سرکار نے اس کام کو خوب نبھایا۔ ہندوستان ہماری طرح اب غریب ملک نہیں رہا، جنگی جنونیت نے اس کی معاشی حیثیت کو ضرب نہیں لگائی۔ چین نے بڑی تیزی سے اپنی غربت پر قابو پایا جو ہندوستان اب تک نہیں کر پایا۔ پاکستان کی چوالیس فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور آبادی کے لحاظ سے ہمارا شمار دنیا کے چھ بڑے ملکوں میں ہوتا ہے اور شاید دو دہائیوں کے بعد ہم پانچویں بڑے ملک ہونگے۔ ہماری سنبھلتی معیشت میکرو لیول پر ہے مگر عوام کی حالت زار بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ 80کی دہائی میں ہماری معیشت بہتر تھی ، ہم اس وقت بھی سرد جنگ کے مہرے تھے اور اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ ہمیں جنگی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا، جو جنگیں ہماری نہیں تھیں ہم نے وہ بھی لڑیں۔ اس ملک کو شمشیرکے زور پر حاصل نہیں کیا گیا تھا جیسے کہ مغلوں، ترخانوں کے ادوار میں ریاستیں حاصل کی جاتی تھیں ۔ اس ملک کو جمہوریت کی بنیادوں پر حاصل کیا گیا تھا اور اس دور تقاضہ بھی یہی تھا۔1971 میں جو اس ملک پرگزری وہ الگ۔ اس وقت اس ملک کے پاس آئین ہے اور یہی آئین اس ملک کی سالمیت کا ضامن ہے۔ اس آئین کی بدولت ہم ایک ماڈرن ریاست ہیں۔ یورپ کے اندر چرچ کی حکمرانی کو شکست ہوئی اور امریکا کا آئین معرضِ وجود میں آیا۔ ہم اسی آئین کا تسلسل ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے آئین میں مماثلت پائی جاتی ہے، لیکن ہم اپنے آئین کو برقرار نہیں رکھ سکے،کیونکہ ہمارے ملک کو ہمیشہ خطرہ رہا جنگوں کا اور انھیں جنگوں نے ہمارے شرفاء کو نوازا۔ یہ ممکن نہیں کہ جس ملک کا آئین مضبوط ہو وہاں جمہوریت کمزور ہو۔ مضبوط جمہوریت، مضبوط آئین کا عکس ہے کیونکہ آئین جمہوریت کو مضبوط بناتا ہے اور جمہوریت آئین کو۔ ہمیں اس بات کو قبول کرلینا چاہیے کہ ہمارا ماضی جو ہمارا لا شعور ہے ہم آج بھی اس کے زیرِ اثر ہیں۔ ہمارے ادارے مضبوط نہ بن سکے، یہاں ہر آمریت نے اپنی پسند کے لیڈر پیدا کیے اور ہر جمہوریت نے سمجھوتے کیے۔ اب ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ یعنی جنگ کے آثار ٹلے ضرور ہیں مگر ختم نہیں ہوئے،کیونکہ جب تک اسرائیل کا وجود باقی ہے اور ایران میں اس حکومت کا تب تک انتہا پرستی باقی ہے اور جب تک یہ انتہا پرستی ہے تب تک جنگ کے بادل منڈلاتے رہیں گے۔ مارگریٹ مچیل کے ناول Gone with the wind کا ہیرو ولیم بٹلر خانہ جنگی کے فریقین کو اسلحہ بیچتا تھا۔ کچھ ایسا ہی یہاں بھی ہو رہا ہے۔ امریکا نے افغانستان سے انخلاء کے وقت جو اسلحہ چھوڑا وہ ہی اسلحہ سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں کو بیچا جا رہا ہے۔ جنرل ضیا ء الحق کے دور میں عرب جہادی ، افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دینے کی غرض سے آئے اس وقت یہاں بڑے ڈالر آئے، اسلحہ آیا اور یہ دور وہ ہی تھا جب کلاشنکوف متعارف کروائی گئی، اس وقت کلاشنکوف ان کے ہاتھوں میں تھی اور ہمارے ہاتھوں میں بھی۔ آج ہمارا ملک بہت بڑی مافیا کے ہاتھوں میں ہے، اسمگلنگ اور منشیات کی مافیا۔ جنگوں کے حربوں سے ان مافیاز نے پیسہ بنایا اور آج یہی مافیاز آپ کو پارلیمنٹ سے لے کر سیاست تک، افسر ِشاہی سے لے کر سرداروں اور جاگیرداروں تک نظر آئے گی۔ ہم بے خبر نہیں تھے۔ دنیا میں بڑی بڑی تہذیبوں کو پسماندہ اور چھوٹی تہذیبوں نے شکست دی۔ وہ اس طرح سے کہ ان کے پاس اپنی فوج تھی اور جنگجو تھے۔ مثال کے طور پر چنگیزخان اور ہلاکو خان بغداد پر حملہ آور ہوئے تھے۔ جس طرح جرمنی دنیا کے ساتھ کرنے جا رہا تھا، جس طرح سندھ کی سرزمین پر غیرملکی حملہ آور آتے رہے۔ جیسا کہ تہذیبوں نے بڑی فوج رکھی لیکن وہ معاشی طور پرکمزور تھے، ان کی اندرونی ساخت بھی کمزور ہوئی اور نتیجتاً وہ بھی سوویت یونین کی طرح ٹوٹ کر بکھرگئے۔ جیسا کہ رومن امپائر۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک پیشگوئی کی ہے کہ جلد ہی وہ دن آئے گا جب ہندوستان، پاکستان سے پٹرول درآمد کرے گا۔ یہ بات بڑی ہی خوش آیند ہے۔ آپسی اختلافات میں ہم اپنا ہزاروں ارب ڈالرکا نقصان کرچکے ہیں اور ان تضادات میں مزید طول ہم دونوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ ہمیں امن کا راستہ اختیارکرنا چاہیے۔ ہر وہ تدبیر جو ریاست کی بہتری اور مضبوطی کے لیے ہو وہ ضرور اپنانی چاہیے۔اس وقت جنگوں نے اپنے رخ اور ٹیکنیک بدل دی ہیں، وہ ہندوستان جو اپنی خارجہ پالیسی اور حامیوں پر نازکرتا تھا آج وہ اس جنگ میں تنہا کھڑا ہے اور ہم جس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ ہماری دوستیاں محدود ہیں، آج کہاں ہیں۔ اب جنگیں ٹیکنالوجی اور ڈرون کے ذریعے لڑی جائیں گی جو کل تک ٹینکوں، توپوں اور ہتھیاروں سے لڑی جاتی تھیں۔ آگے بدلتی دنیا میں تجارت، جنگوں کو شکست دے گی۔ اب نئے حربوں اور نئے مہروں کا دور ہے۔ ریاستوں کو مسلسل تجارت کے لیے راستے چاہیے۔ امن کے لیے فنانشل وکیپیٹل مارکیٹ اپنا کردار ادا کر رہی ہے کہ سپلائی چین ٹوٹنے نہ پائے۔ ہمیں دنیا کی اس رفتار کے ساتھ چلنا ہوگا۔ تجارت ہمارا ہتھیار ہے۔ پچیس کروڑ ہماری آبادی ہے جو ہنرمند ہونے چاہئیں۔ انسانی وسائل کا بہتر ہونا، دشمن کو آگے بڑھنے سے روکتا ہے۔ سرد جنگوں سے ہمیں ورثے میں جو بھی ملا وہ تمام بیانیہ ہمیں معاشی طور پر کمزورکرتے ہیں انھیں آخرکار خدا حافظ کہنا ہوگا۔ کس طرح آئے گی جس روز قضا آئے گی خواہ وہ قاتل کی طرح آئے کہ محبوب صفت (فیض)
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل