Loading
وفاقی دارالحکومت میں پولیس کے دعووں کے باوجود جرائم کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے جرائم پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام نظر آ رہے ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک ماہ کے دوران اسلام آباد میں اسٹریٹ کرائم کی 43 وارداتیں رپورٹ ہوئیں جن میں شہری قیمتی موبائل فون، نقدی اور طلائی زیورات سے محروم ہو گئے۔ اسی عرصے میں ڈکیتی اور راہزنی کی 41 وارداتوں نے بھی پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ایک ماہ کے دوران مجموعی طور پر 105 موٹر سائیکلیں اور 29 گاڑیاں چوری ہوئیں، جب کہ اسلحہ کے زور پر 10 موٹر سائیکلیں اور 3 گاڑیاں چھین لی گئیں۔ علاوہ ازیں وفاقی دارالحکومت میں ایک ماہ کے اندر 7 افراد کو قتل کر دیا گیا۔ پولیس نے ان تمام واقعات کے مقدمات درج کر لیے ہیں، لیکن ملزمان کی گرفتاری تاحال ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ اسلام آباد پولیس کے دعوے اور کارکردگی کے تضاد کی ایک اور مثال تھانہ ترنول میں سامنے آئی، جہاں جرائم کی شرح کم دکھانے کے لیے مقدمات درج ہی نہیں کیے جا رہے۔ 25 جولائی کو تھانہ ترنول کے علاقے میں ایک شہری سے اسلحہ کے زور پر موٹرسائیکل اور موبائل فون چھین لیے گئے، تاہم متاثرہ شخص کے بار بار اصرار کے باوجود پولیس نے ایف آئی آر درج نہیں کی۔ شہری کے مطابق محرر نے پہلے دن کہا کہ کل آ کر کاپی لے جانا، اگلے دن جانے پر پھر ٹرخا دیا گیا۔ کئی روز گزرنے کے باوجود مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ متاثرہ شہری نے شکایت کی ہے کہ تھانے کا عملہ واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ ایس ایچ او نے مقدمہ درج کرنے سے منع کیا ہے۔ شہری کے مطابق پولیس افسران بالا کے سامنے اپنی کارکردگی بہتر دکھانے کے لیے مقدمات ہی رجسٹر نہیں کر رہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر پولیس اسی طرح واقعات کو دبانے یا چھپانے کی روش اپنائے گی تو مجرموں کا حوصلہ مزید بڑھے گا اور عوام کی جان و مال مزید غیر محفوظ ہو جائے گی۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل