Wednesday, August 06, 2025
 

سانحہ خوازہ خیلہ

 



سوات کے علاقے خوازہ خیلہ میں ایک دینی مدرسہ میں کمسن طالبعلم پر جسمانی تشدد کے باعث اس کی المناک موت نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ واقعہ بذات خود انتہائی افسوسناک، تکلیف دہ اور انسانی، اخلاقی و دینی ہر زاویے سے قابلِ مذمت ہے۔ کسی بھی استاد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ تربیت کے نام پر کسی بچے پر ایسا جبر کرے جس سے اس کی جان ہی چلی جائے بلکہ تنبیہ کی شریعت نے جو حدود مقرر کی ہیں ان سے تجاوز کی کسی صورت گنجائش نہیں۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان چونکہ دینی مدارس کا سب سے بڑا اور نمایندہ بورڈ ہے اس لیے وفاق المدارس نے اس سانحے کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے بروقت، مؤثر اور ذمے دارانہ کردار ادا کیا ہے۔ اس حوالے سے نہ صرف یہ کہ دو ٹوک موقف اور واضح بیانیہ جاری کیا گیا جس میں اس واقعہ کی مذمت اور اس میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا بلکہ عملی طور پر بھی متاثرہ مقام پر پہنچ کر ہمدردی، یکجہتی اور خیر خواہی پر مبنی امور سرانجام دیے گئے۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی قیادت شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم، راقم الحروف ناظم اعلیٰ وفاق المدارس محمد حنیف جالندھری اور ناظم خیبر پختونخوا مولانا حسین احمد کی خصوصی ہدایت پر وفاق المدارس کے ایک نمایندہ وفد کو فوری طور پر خوازہ خیلہ روانہ کیا گیا۔اس وفد میں مولانا قاری محب اللہ صاحب(ڈویژنل و علاقائی معاون ناظم وفاق المدارس، مالاکنڈ ڈویژن) ، مولانا قاری محمد طاہر صاحب (رکن مجلسِ عاملہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان) اور محترم حاجی فہیم صاحب(مسؤول وفاق المدارس، اپر سوات) سمیت دیگر احباب شامل تھے۔ وفد نے متاثرہ مدرسے کا دورہ کیا، طلبہ و اساتذہ سے ملاقات کی، تعلیمی و انتظامی امور کا گہرائی سے جائزہ لیااور واضح طور پر اپنی تشویش، افسوس اور اصلاحی تنبیہ کا اظہار کیا۔ طلبہ کو تسلی دی گئی، ان کے والدین و سرپرستوں کو اعتماد میں لیا گیااور ہر ممکن اخلاقی و قانونی معاونت کا یقین دلایا گیا۔وفد نے بعد ازاں شہید طالب علم کے جنازے میں شرکت کی، مرحوم کے اہلِ خانہ سے تعزیت کی اور ان کے غم میں شریک ہوکر یہ باور کرایا کہ وفاق المدارس نہ صرف ان کے ساتھ کھڑا ہے بلکہ انصاف کی فراہمی تک ہر سطح پر ان کی مدد کرتا رہے گا۔ناظم خیبر پختونخوا مولانا حسین احمد نے بھی متاثرہ خاندان سے بذریعہ فون تفصیلی رابطہ کیا، تعزیت کی اور بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی اور میں ذاتی طور پر بھی متعلقہ ذمے داران سے مسلسل رابطے میں رہا- بلکہ مولانا حسین احمد نے تو خود بنفس نفیس سوات کا دورہ کیا، وہاں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے دینی مدارس کے تمام ذمے داران کو جمع کیا،حسن اتفاق سے اسی دن جمعیت علماء اسلام کی ضلعی جماعت نے بھی ایک پروگرام رکھا ہوا تھا، یوں دونوں پروگرام مشترکہ ہوئے بلکہ دینی مدارس کی تمام تنظیمات کو بھی مدعو کیا گیا تھا، اس موقع پر میڈیا کو بھی تفصیلی بریفنگ دی گئی بعد ازاں مولانا حسین احمد اپنے رفقاء کے ہمراہ ڈپٹی کمشنر سوات اور دیگر حکومتی ذمے داران سے بھی ملے اور ان کے سامنے اپنے اصولی اور دیرینہ موقف کا اعادہ کیا خاص طور پر بعض این جی اوز کے نمایندوں کی مدارس میں آکر مدارس کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلانے کی اطلاعات سے ضلعی انتظامیہ کو آگاہ کیا اور ایسے عناصر کے خلاف فوری ایکشن لینے کا مطالبہ کیا- حقیقت یہ ہے کہ اس واقعہ کے حوالے سے وفاق المدارس نے نہ صرف یہ کہ فوری ردعمل دیا بلکہ یہ وضاحت بھی کی کہ جس ادارے میں یہ واقعہ پیش آیا وہ وفاق المدارس کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہے۔وفاق المدارس کے قائدین نے واضح کیا کہ اگر یہ مدرسہ وفاق سے رجسٹرڈ ہوتا تو ہم اپنے ضابطے کے مطابق اس کے خلاف فوری اور سخت تادیبی کارروائی کرتے۔یہ بات قابلِ اطمینان ہے کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے دینی مدارس میں جسمانی سزاؤں سے گریز کی تلقین کر رہا ہے بلکہ کسی بھی مدرسہ سے تشدد کی شکایت ملنے کی صورت میں اس کے خلاف سخت انضباطی کارروائی کی جاتی ہے۔ہم نے ہمیشہ یہ پیغام دیا ہے کہ دینی تعلیم کے لیے مدارس کا رخ کرنے والے مہمانان رسول اور کمسن بچوں کو ہرگز تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ ہم اس موقع پر اپنے اس دیرینہ موقف کا نہ صرف یہ کہ اعادہ کرتے ہیں بلکہ اس حوالے سے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے مانیٹرنگ سسٹم کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کریں گے- سانحہ سوات کے بعد عوامی غم و غصے کے نتیجے میں جس طرح مدرسے کی عمارت کو نقصان پہنچایا گیا، وہ ایک غیر دانشمندانہ طرزِ عمل تھا۔ہم نے اس پر کھل کر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ’’ایک فرد کے جرم کی سزا مدرسہ کی بے جان عمارت کو نہ دی جائے۔ ‘‘یہی وجہ ہے کہ ہم نے تجویز دی کہ عمارت کو بچایا جائے، اہلِ علاقہ کی نگرانی میں اسے تعلیمی مقاصد کے لیے دوبارہ فعال کیا جائے اور نظم و نسق کو بہتر بناتے ہوئے دوبارہ شفاف طریقے سے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔اس واقعے کے بعد بعض حلقے جان بوجھ کر دینی مدارس کے خلاف منظم پروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔ سوشل میڈیا پر گمراہ کن مہم، سیاسی ایوانوں میں تعصب پر مبنی بیانات اور والدین کو خوفزدہ کرنے کی کوششیں کسی طور قابلِ قبول نہیں۔یہ رویہ خود دینی مدارس کے اس عظیم اور وسیع نیٹ ورک کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے جو نہ صرف قوم کی دینی شناخت کا محافظ ہے بلکہ لاکھوں غریب بچوں کو مفت تعلیم، تربیت، خوراک، رہائش اور روحانی ماحول فراہم کر رہا ہے۔ اس اہم موقع پر ہم حکومت، میڈیا، سول سوسائٹی اور تمام باشعور افراد سے یہ مطالبہ اور اپیل کرتے ہیں کہ:اصل مجرم کو قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دی جائے۔معاملے کو انفرادی جرم کی حیثیت سے دیکھا جائے، اجتماعی طور پر سب مدارس کو نشانہ نہ بنایا جائے۔مدارس کے نظام کو جدید، شفاف اور محفوظ بنانے کے لیے ریاست پاکستان کی طرف سے اخلاقی اور عملی تعاون فراہم کیا جائے، نہ کہ انھیں بدنام کر کے الگ تھلگ کیا جائے۔میڈیا ذمے داری کا مظاہرہ کرے اور واقعات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش نہ کرے۔ واضح رہے کہ مدارس ہمارے ہیں، قوم کی اساس ہیں، ان کی اصلاح سب کی مشترکہ ذمے داری ہے۔ہم اپنی ذمے داری نبھاتے رہیں گے اور دینی تعلیم کے اس قافلے کو ان شاء اللہ کسی قیمت پر رکنے نہیں دیں گے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل