Loading
پاکستان نے آئی ایم ایف کی پانچ اہم مالی شرائط میں سے صرف دو کو پورا کیا ہے اور تین شرائط پوری نہ کر سکا ہے۔ یہ آئی ایم ایف نے 7 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کے دوسرے جائزے کے لیے رکھی تھیں۔ چاروں صوبوں نے جون میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران نقد اضافی رقم 1.2ٹریلین پیدا کرنے کی شرط کی خلاف ورزی کی اور وفاقی حکومت نے مجموعی طور پر 12.3 ٹریلین روپے کی وصولیوں اور تاجر دوست سکیم کے تحت خوردہ فروشوں سے 50 ارب روپے جمع کرنے کی اپنی دو شرائط کو پورا نہیں کیا ہے۔ تاہم وزارت خزانہ کی جانب سے جاری مالیاتی آپریشنز سمری کے مطابق سب سے اہم 2.4 ٹریلین روپے کا بنیادی بجٹ سرپلس رکھنے کی شرط پوری کردی گئی۔ اسی طرح چاروں صوبوں کی طرف سے مجموعی محصولات کی شرط بھی پوری ہوگئی۔ اس کمی کے باوجود حکومت کو جائزہ مذاکرات کے دوران سنگین مسائل کا سامنا نہ ہونے کی توقع ہے۔ اہم شرائط پر مجموعی عمل درآمد کی وجہ سے ایک ارب ڈالر کی قسط کے اجرا کے لیے جائزہ مذاکرات اگلے ماہ شروع ہونے کی توقع ہے۔ آئی ایم ایف نے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے تحت تقریباً 50 شرائط رکھی ہیں۔ ان میں سے کچھ کو سہ ماہی اور سالانہ بنیادوں پر مانیٹر کیا جاتا ہے ۔ جاری سمری کے مطابق حکومت نسبتاً مالیاتی استحکام حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے لیکن سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت کی خالص آمدنی اب بھی صرف دو شعبوں سود کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کی ضروریات سے 1.2 ٹریلین روپے کم ہے۔ باقی اخراجات مزید قرضے لے کر کیے جاتے ہیں۔ 2.4 ٹریلین روپے کے بنیادی سرپلس ہدف کے مقابلے میں وفاقی حکومت نے 2.7 ٹریلین روپے کا سرپلس رپورٹ کیا جو جی ڈی پی کا 2.4 فیصد تھا۔ چاروں صوبوں نے مجموعی طور پر 921 ارب روپے کا کیش سرپلس پیدا کیا جس سے آئی ایم ایف کا ہدف 280 ارب روپے کی کمی سے پورا ہونا رہ گیا۔ یاد رہے صوبائی حکومتوں نے آئی ایم ایف اور وفاقی حکومت کو 1.2 ٹریلین روپے کیش سرپلس رکھنے کی مفاہمت دی تھی۔ صوبائی کارکردگی کی خرابی ظاہر کرتی ہے کہ 4 ٹریلین روپے کی کل آمدنی کے ساتھ پنجاب نے 3.6 ٹریلین روپے خرچ کیے ۔ اس طرح 348 بلین روپے کا سرپلس ہوا۔ تاہم صوبے میں 41 ارب روپے کا شماریاتی تضاد ریکارڈ کیا گیا۔ سندھ نے 2.3 ٹریلین روپے خرچ کرنے کے بعد 283 ارب روپے کا کیش سرپلس دیا۔ صوبے نے 48 ارب روپے کے اعدادوشمار میں تضاد بھی بتایا۔ خیبرپختونخوا نے 176 ارب روپے کا بجٹ سرپلس ریکارڈ کیا۔ اس کی آمدنی 1.5 ٹریلین روپے رہی اور اخراجات 1.3 ٹریلین رہے ۔ یہاں بھی بھی 155 ارب روپے کا شماریاتی تضاد تھا۔ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے وزیر اعظم کو تجویز دی ہے کہ موجودہ این ایف سی ایوارڈ میں نئے معیارات اور جائزے کے پیرامیٹرز کو شامل کر کے اس میں ترمیم کی جائے تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ عوام کی فلاح و بہبود پر بھاری وسائل خرچ ہو رہے ہیں۔ صوبوں نے گزشتہ مالی سال میں 979 ارب روپے کی ٹیکس وصولی ریکارڈ کی تھی جو آئی ایم ایف کے ہدف سے 58 ارب روپے زیادہ تھا۔ آئی ایم ایف کی طرف سے 12.32 ٹریلین روپے سے زائد کے محصولاتی ہدف کے مقابلے میں ایف بی آر صرف 11.74ٹریلین روپے جمع کرسکا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل