Loading
ویسے تو ہم سب اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہیں، کچھ تلاشِ معاش میں اور کچھ موج مستیوں میں۔ آپا دھاپی کے اس دور میں مقدّسات بھی فراموش ہوگئے ہیں اور وطنِ عزیز کے ساتھ بھی محبّت اور وابستگی کی وہ شدّت نہیں رہی جو ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ برقی میڈیا خصوصاً سوشل میڈیاپر ملک کے بارے میں کئی بدخواہ اناپ شناب بولتے رہتے ہیں مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کچھ لوگ اپنی ذات اور ادارے کے بارے میں ضرور حسّاس ہیں مگر ملک کی عزّت کے بارے میں وہ بھی بے نیاز ہیں۔ مگر اس ملک میں ابھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں کہ پاکستان کے نام پر جن کے دل دھڑکتے ہیں، جو وطنِ عزیز کی عزّت کو اپنی عزّت سے بالا اور برتر سمجھتے ہیں اور اگر کہیں ملک کی ناموس یا امیج پر حرف آتا دیکھتے ہیں تو تڑپ اُٹھتے ہیں۔ ملک کے چوٹی کے شاعر اور دانشور جناب پروفیسر انور مسعود صاحب کا تعلق اُسی قبیلے سے سے، جن کا وجود ملک کے لیے خیروبرکت کا باعث ہے۔ پروفیسر صاحب اکثر میرا کالم پڑھ کر فون کرتے ہیں اور ان کی کال میرے لیے ہمیشہ حوصلہ افزائی اور راہنمائی کا موجب ہوتی ہے۔ پروفیسر صاحب چونکہ شگفتہ اور مزاحیہ شاعری کے ورلڈ چیمپئن ہیں اس لیے فون پر بھی وہ کوئی واقعہ، لطیفہ یا اپنا قطعہ سناتے ہیں جس کے بعد گفتگو قہقہوں میں ڈھل جاتی ہے۔ چند ہفتے پہلے پروفیسر انور مسعود صاحب کا فون آیا تو خاصے مضطرب تھے، میں نے وجہِ اضطراب پوچھی تو انتہائی دکھ کی حالت میں کہنے لگے آپ نے وہ اشتہار دیکھا ہے جس میں ایک ناخالص قسم کی فوڈ آئٹم کو متعارف کرایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری دنیا کو یہ بتایا جارہا ہے کہ ہمارا وطنِ عزیز اور ناخالص چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔ کیا اس طرح ہمارے ملک کی عزّت میں اضافہ ہورہا ہے یا کمی ہورہی ہے، یقیناً کمی ہورہی ہے کیونکہ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ پاکستان میں ناخالص دودھ اور ملاوٹ شدہ خوراک کی فروخت و تشہیر پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ پروفیسر صاحب کی تشویش بجا ہے، یقیناً ایک دردِ دل رکھنے والے حسّاس شخض کو ایسا ہی سوچنا چاہیے۔ وطنِ عزیز سے ٹوٹ کر محبّت کرنے والے دانشور کی یہ تشویش درست اور جائز ہے۔ ملک کی عزّت ، عظمت اور ناثّر کے بارے میں حسّاس دل رکھنے والوں کی یہ خواہش درست ہے کہ 78 سال بعد پاکستان کے بارے میںہمیں ایسے دعوے کرنے کے قابل ہونا چاہیے تھا کہ پاکستان میں خالص خوراک ہے، امن ہے، انصاف ہے، اعلیٰ معیاری تعلیم ہے، ترقّی ہے، ڈسپلن ہے،قومی یکجہتی ، اتّحاد ، خوشحالی ہے، ایمانداری، آئین کی بالادستی ہے، اُستاد کا احترام ہے،خالص ادویاء ہیں، انسانی ہمدردی ہے، محنت اور مزدور کی عزّت ہے، میرٹ ہے، قانون اور انصاف کی حکمرانی ہے۔ اربابِ بست وکشاد کو چاہیے کہ اس بات کا خیال رکھا کریں۔ یومِ شہدائے پولیس آج جب میں یہ لائنیں تحریر کررہا ہوں، پورے ملک میں’’یومِ شہدائے پولیس ‘‘ منایا جا رہا ہے، پولیس کے دامن میں اگر کوئی سب سے قیمتی سرمایہ ہے تو چمچماتے دفتر یا مہنگی گاڑیاں نہیں بلکہ شہیدوں کی قربانیاں اور خونِ شہداء ہے۔ پچھلے کئی سال سے وطنِ عزیز کو دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، اسے روکنے کے لیے پولیس کے جوان اور افسر سینہ سپر ہیں، وہ دوسروں کی جانیں بچانے کے لیے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔ وہ قوم کے بچّوں کو یتیمی کے روگ سے بچانے کے لیے اپنے بچّوں کو یتیم بنارہے ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج ملک میں جہاں جہاں بھی لوگ امن اور چین کی نیند سوتے ہیں، وہ پولیس کے شہداء ہی کی قربانیوں کا ثمر ہے۔ خالقِ کائنات نے شہید کا مقام اور مرتبہ بلند کردیا ہے۔ یہ اعزاز صرف شہید کے لیے ہے کہ محشر کے روز سب کا حساب ہوگا مگر شہیدوں کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا۔ ہر شخض موت سے ہمکنارہوگا۔ ہر انسان نے مرنا ہے مگر شہید کو موت بھی نہیں مارسکتی کہ موت و حیات کے خالق و مالک نے فرمادیا ہے کہ شہید ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ پولیس کے شہداء اپنے لہو سے پولیس کے دامن پر لگے داغ دھوتے ہیں اور اسے صاف کردیتے ہیں، مگر کچھ بدبخت ، اپنی حرام خوری، بدتمیزی، بدتہذیبی اور بے ضمیری کے دھبّوں سے پولیس کا دامن پھر سے داغدار کردیتے ہیں۔ ایسے وردی پوش پوری پولیس سروس کے دشمن ہیں۔ یہ پورے محکمے کے لیے بدنما داغ ہیں۔ یہ سفید کپڑوں والے ڈاکوؤں سے زیادہ خطرناک ہیں، یہ اس بات کے قطعاً حقدار نہیں ہیں کہ تخفّظ اور انصاف کی علامت پولیس یونیفارم پہنیں۔ یہ جلی ہوئی شاخ کی مانند ہیں جسے کاٹ دینا چاہیے تاکہ باقی پودے کی صحیح نشوونما ہوسکے۔ محافظ کی یونیفارم صرف رزقِ حلال کھانے والوں کے جسم پر سجتی ہے اور وہی اس کے حقدار ہیں۔ پولیس کے سینئر افسروں کو چاہیے کہ سروس کے اندر گھسے ہوئے گندے عناصر سے فوری طور پر نجات حاصل کریں اور جتنی جلد ہوسکے ان گندے انڈوں کو باہر پھینک دیں۔ اس موقع پر ایک انتہائی محبّ ِ وطن اور قابل بزنس مین اور دانشور جناب جاوید نواز صاحب کا میسج بھی شیئر کررہا ہوںتاکہ پولیس افسران اس سے راہنمائی لے سکیں’’مسقط میں 40 سالہ قیام کے بعد میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ راہ چلتے جِس ،سب سے خلیق شخص سے ملاقات ہو تی ہے، وہ پولیس افسر ہوتا ہے۔ آپ راستہ پوچھیں تو کبھی دائیںبائیں (بالیمین و الیسار) کا سبق نہیں پڑھاتا۔ اس کا ایک ہی جواب ہوتا ہے۔ پلیز فالو می (میرے پیچھے آئیں)۔ اور پھر وہ منزل پر پہنچ کر اس عمارت کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں آپ کو جانا مطلوب ہو۔ قانون کی خلاف ورزی پر چالان کرتے وقت وہ اس قدر عاجز اور محبّت سے بات کرتا ہے کہ اکثر یہ خیال آتا ہے کہ شاید کوئی پرانا دوست ہے لیکن اس ساری محبت اور توقیر کے باوجود جرمانے کی رقم میں ایک پیسہ کی کمی ممکن نہیں ہے۔ 40سال میں ایک بار بھی یہ شائیبہ نہیں ہوا کہ پولیس آفیسر کو رشوت کی طلب ہے۔ سلطنت عمان کا تمام نظام جوازات اور کسٹم سے لے کر سول سیکیورٹی تک پولیس ہی چلاتی ہے۔ بارش کے آغاز پر پولیس کی گاڑیاں حرکت میں آتی ہیں اور راستوںپر لگے ہوئے ڈکٹ کے ڈھکنے کھولے جاتے ہیں اور پولیس والے ہی پانی کے نکاس کو یقینی بنانے کے لیے کچرا صاف کرتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پولیس کے فرائض میں کوئی جج، جرنیل، وزیر یا شیخ دخل نہیں دے سکتا، میں نے یہ بھی دیکھا کہ فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل عوفی کا ایک پولیس شرطے نے چالان کیا اور وہ انتہائی تحمل اور خاموشی سے جرمانہ ادا کر کے چلے گئے، یہ سب قانون کی حکمرانی کے ثمرات ہیں۔ سلطنت عمان میں ہر شخص قانون کے طابع اور قانون پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ پاکستان میں بھی پولیس کے احترام میں اضافہ ہو سکتا ہے اگر رشوت اور سفارش کا کلچر ختم کر دیا جائے۔ میں ہر روز سیکڑوں پولیس افسرون کو چوکوں پر ناکہ لگائے موٹر سائیکل سواروں کا شکار کرتے دیکھتا ہوں۔ ان کے سامنے بڑی گاڑیاں بغیر نمبر پلیٹ قانون کا منہ چڑاتی گذر رہی ہوتی ہیں جہاں وہ آنکھین بند کر لیتے ہیں لیکن بغیر ہیلمٹ موٹر سائکل سوار اس ملک کا سب سے بڑا مجرم سمجھا جاتا ہے۔ تمام پولیس افسروں کو نظام میں بہتری کے لیے کچھ نہ کچھ کاوش کرناچاہیے۔‘‘
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل