Wednesday, August 06, 2025
 

نورا فتیحی کے آئٹم سانگ دیکھنے کے بعد پاکستانی آئٹم سانگ کو دیکھنا کون پسند کرے گا، یاسر نواز

 



پاکستان شوبز کے اداکار، میزبان اور ہداہتکار یاسر حسین نے فلم انڈسٹری اور اس پر عائد پابندیوں سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ایک حالیہ انٹرویو میں گفتگو کے دوران یاسر حسین نے کہا کہ ہمیں پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ ہمارا ثقافتی نظریہ کیا ہے، کیا ہم 70 کی دہائی سے قبل کے کلچر کو مانتے ہیں یا 70 کی دہائی کے بعد والے دور کو؟ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں میڈم نور جہاں کی فلموں میں خوبصورت آئٹم سانگز شامل ہوتے تھے، تو اب یہ آئٹم سانگ اچانک ہمارے کلچر سے کیسے نکال دیے گئے؟ آئٹم نمبرز پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستانی فلموں میں اگر آئٹم نمبرز شامل کیے جائیں تو وہ معیاری ہونے چاہئیں، محض رسم پوری کرنے کے لیے نہیں کیونکہ نورا فتیحی کے آئٹم سانگ دیکھنے کے بعد پاکستانی آئٹم سانگ کو دیکھنا کون پسند کرے گا؟ یاسر حسین نے اپنے انٹرویو کے دوران بلوچستان کی صورتحال پر بھی بات کی اور کہا کہ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ مقامی لوگوں کے لیے معمول کی بات ہے، لیکن اگر وہی چیز فلم یا شارٹ فلم میں دکھائی جائے تو اسے روک دیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق حقیقت کو دنیا سے چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے اپنی فلم "جاوید اقبال" کی مثال دی، جو ایک سچ پر مبنی کہانی تھی، مگر اسے سینسر کر کے اس کی اصل شکل کو خراب کر دیا گیا۔ یاسر حسین کا کہنا تھا کہ اگر کوئی امریکہ میں سیریل کلر ہے تو وہ اس پر فلم بنا سکتے ہیں لیکن ہم اپنی سچی کہانیوں پر فلم بنائیں تو اس میں تبدیلیاں کروا کر اسے خراب کروا دیا جاتا ہے۔ 

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل