Loading
’’ باجی یہ چودہ اگست کب ہوگی؟ ‘‘ ’’ چودہ اگست، چودہ اگست کو ہوگی، پر تم یہ بتاؤ کہ تمہیں چودہ اگست کوکیا کرنا ہے۔‘‘ اس کے چہرے پر مسکان دیکھ کر انھیں اچنبھا ہوا۔ ’’باجی جی! میں اس دن ہرے رنگ کے کپڑے پہنوں گی،گھر میں جھنڈیاں لگاؤں گی، اور چھٹی بھی کروں گی۔‘‘ ’’اچھا۔۔۔ پر یہ بتاؤ کہ آخر چودہ اگست کو ہوا کیا تھا، جو تم اتنی تیاریاں کروگی۔‘‘ ’’یہ تو نہیں پتا باجی! کہ چودہ اگست کوکیا ہوا تھا، آپ کو پتا ہوگا۔ آپ بتائیے ناں۔‘‘ ’’چودہ اگست کو ہمیں پاکستان ملا تھا۔‘‘ ’’کیا سچ باجی۔۔۔ پہلے پاکستان نہیں تھا۔‘‘ سوال میں حیرت کا عنصر پنہاں تھا۔ ’’ تو۔۔۔۔ پہلے پاکستان نہیں تھا، ہمارے بڑوں نے جدوجہد کی، لاکھوں لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں، اپنا سب کچھ وہاں چھوڑ چھاڑ یہاں ہجرت کی اور تم لوگ تو اس وقت آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھے تھے۔‘‘ وہ چڑ کر بولیں اور اپنے کاموں میں مصروف ہوگئیں۔ ان کے گھر کام کرنے والی نے ایک نظر ان پر ڈال اپنے کندھے اچکائے اور وہ بھی کاموں میں لگ گئی۔اگست کا مہینہ اپنی پوری شان و شوکت سے ہر سال ہی آتا ہے۔ جھنڈے لہرائے جاتے ہیں، جھنڈیوں کی خریداری ہوتی ہے، پرچم کی شکل کے بیجز، باجے، کھلونے اورکپڑے ہر چیز سے آزادی کی خوشی چھلکتی نظر آتی ہے۔ سب خوش ہوتے ہیں، قومی ترانے بجتے ہیں، ایوان سجتے ہیں، بڑے بڑے ہال، بڑی بڑی باتیں، بڑے بڑے پکوان اور وقت گزرتے، بڑے بڑے بلز،گیس بجلی، پانی کے اور بڑے بڑے مسائل کے بھوت جو بارہ میں سے گیارہ مہینے اپنی بدصورتی سے ہمارے دل ڈراتے ہیں۔ ہمیں نظر ہی نہیں آتا، ہمارے ارد گرد دھند سی چھائی رہتی ہے۔ دو سو ارب، ڈیڑھ سو ارب، ایک ارب، چند کروڑ اور چند لاکھ روپے ہم عوام کیا جانیں۔۔۔ عوام جو پاکستان میں ہے، فلسطین میں اور انڈیا، بنگلہ دیش سے لے کر دنیا بھر میں چیخ رہے ہیں، چلا رہے ہیں پر ایوانوں کے زنگ آلود قفل جو ان کی عقلوں پر پڑے ہیں۔۔۔۔ انسانوں کا منہ چڑا رہے ہیں۔ رمضان، حج اور محرم سارے ہی متبرک مہینے ہر انسان کم حیثیت، ہر بار اور ہر ایوان میں مجرم بنا مظلومیت کی تصویر بنا کھڑا ہے پر اس کا حق ہے کہ چند تھنک ٹینکرز غصب کرے چلے جا رہے ہیں۔ فلسطین کا غزہ قحط کی خطرناک صورت حال کی جانب بڑھ رہا ہے، ایک تشویش ناک حالت جو آج کی مہذب اور ترقی یافتہ حکومتوں کو نظر ہی نہیں آ رہی، غزہ کی غیر سرکاری تنظیموں ، این جی اوز نیٹ ورک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر امجد الشوا کا کہنا ہے کہ غزہ کا محصور علاقہ ایک ایسے قحط کی جانب بڑھ رہا ہے جو دو ملین سے زائد انسانی جانوں کو نگل سکتا ہے۔ غزہ میں غذائی اور طبی نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے جب کہ اسرائیل کی محاصرانہ پالیسی اور امداد کی فراہمی میں جان بوجھ کر تاخیر پیدا کرنا اس مسئلے کو مزید گمبھیر بنا رہا ہے۔غزہ کے اسپتالوں میں روزانہ دو سو سے زائد ایسے مریضوں کی آمد ہو رہی ہے جو شدید بھوک، کمزوری اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ایسے مریضوں میں بچے، بزرگ اور جوان سب شامل ہیں۔ ان کے مطابق روزانہ ستر سے اسّی ٹرک غزہ میں داخل ہو رہے ہیں جب کہ ہوائی جہاز سے گرایا جانے والا سامان پانچ سے دس ٹرکوں کے برابر ہوتا ہے جو لاکھوں شہریوں کی بنیادی ضروریات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ امجد الشوا کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج امدادی ٹرکوں کو ان راستوں سے گزرنے پر مجبور کر رہی ہے جہاں مسلح گروہ اور لٹیرے ان امدادی ٹرکوں کو لوٹ لیتے ہیں، یوں جان بوجھ کر مستحقین تک پہنچنے سے روکا جا رہا ہے۔ غزہ میں نو لاکھ سے زائد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جن میں ایک خطرناک وبا پھیل رہی ہے جس کے باعث ان میں فالج یعنی پٹھوں کی کمزوری کے باعث ان کا جسم مفلوج ہو رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اب تو بات اس قدر آگے جا چکی ہے کہ امداد کے منتظر مظلوم شہریوں کو دوبدو فائرنگ کرکے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے ان مظلوم، مجبور اور جنگ میں نہتے شہریوں کو روتے، بلکتے، بھوک سے مرتے نہ دیکھا ہوگا۔ ہم ہر سال اپنی آزادی کا جشن بڑی شان سے مناتے ہیں، پر کیا ہم آزادی کے مفہوم سے پوری طرح واقف بھی ہیں؟ اگر ہم اپنی آزادی کو بھول رہے ہیں تو فلسطین کی جانب دیکھیں، جہاں ایک بچہ ایک روٹی کی قیمت کے بدلے اپنی پیاری سائیکل قربان کر دیتا ہے، جہاں غذا کے حصول کے لیے نہ جانے کتنے مظلوم، دہشت گرد اسرائیلیوں کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ ان کے مال و اسباب خاک ہو گئے، ان کے پیارے خاک و خون میں نہا گئے، ان گنت قربانیاں، شہادتیں، ساری دنیا کی عوام مظلوم لوگوں کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں پر کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی۔ اکتوبر 2023 سے اب تک ساٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جب کہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد زخمی، یہ تعداد اندازاً ہے جب کہ اصل حقیقت اس سے زیادہ تلخ ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ فلسطین کی یہ صورت حال کب تک جاری رہے گی، کیا اسرائیل اپنی آخری بازی کھیلنے کے لیے متحرک ہو چکا ہے؟اپنا ملک، اپنی زمین اور اپنا آسمان یہ نعمتیں ایک آزاد ریاست کے لیے بہت اہم ہیں اور رب العزت کی کرم نوازی ہے، ہم نے بے شمار لوگوں کی قربانیاں دے کر اسے حاصل کیا ہے، لیکن ہم ناشکرے ثابت ہو رہے ہیں۔ ہمارے معدنیات، قومی وسائل، دریا، پہاڑ، صحرا، ریگستان، ٹیلے، وسیع شہر یہ سب ہمیں میسر ہیں لیکن ہم بدانتظامی میں ماہر ہیں۔ ہمیں اپنی نعمتوں کو نہ تو اچھی طرح سے استعمال کرنا آیا ہے اور نہ ہی ہم کر سکے ہیں، کیوں کہ ہمیں ترسا تڑپا کر رکھا گیا ہے اور جتنا دیا گیا ہے اس پر بھی کھینچا تانی چل رہی ہے۔ کیوں کہ ہم بھول چکے ہیں کہ 70 سال پہلے پاکستانی قوم کس اذیت سے گزر کر اس سوہنی دھرتی پر جمع ہوئی تھی، کس طرح اپنے خون دل سے ہجرت کی داستان رقم کی تھی، ہمیں احساس دلایا گیا ہے کہ ہماری اوقات ہی نہیں کہ ہمیں اس حسین ملک کے حقوق حاصل ہوں اور ہم سمجھتے گئے، ترستے گئے آج دنیا بھر میں ہماری سیاست کی مضحکہ خیز کہانیاں پھیل رہی ہیں۔ روز روز کے دھرنے، احتجاج نے مل کر ایک تماشا بنا رکھا ہے، قرضوں کے بوجھ تلے، دشمنوں کے چکروں میں الجھا، دہشت گردوں کی اسکیموں سے نبرد آزما ہمارا ملک جیسے خاردار کانٹوں سے گھرا ہے، ان کانٹوں کو چن چن کر نکالنے کے بجائے زہر میں ڈبو ڈبو کر تیر لگائے جا رہے ہیں۔ کرپشن، عصبیت، لسانیت کے زہر کس قدر کارگر رہے ہیں، پر کسی کو نظر کیوں نہیں آ رہا؟ سہولیات اعلیٰ طبقات کے لیے بڑھتی جا رہی ہیں اور سسکتا طبقہ ان سہولیات کو دور سے دیکھ کر اس بے ترتیب نظام پر کڑھ رہا ہے، پر ہمارے سخت دل فولاد کے سے ہو چکے ہیں۔ ہمیں کسی کی پرواہ نہیں ہے، کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کا زہر آلود جملہ ہماری سماعتوں کا خون کر چکا ہے، پر ہمیں کیا۔۔۔۔ ہم خوش ہیں کہ سب ٹھیک ہے، اب جسے نہیں مل رہا تو یہ اس کا نصیب۔ فلسطینیوں کا نصیب، پاکستانیوں کا نصیب، انسانوں کا نصیب۔ یہ تو نصیبوں کا کھیل ہے۔ پھر تو شکایت نصیب بنانے والے سے ہی کرنا ہوگی۔ اس میں ہمارا کیا قصور۔چودہ اگست قریب ہے، اسے منائیں اور اپنے فلسطینی بھائیوں کی آزادی کے لیے دعا کریں کہ آزادی کی قیمت چکانے کا سفر ابھی جاری ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل