Loading
پاکستان کے منتخب شہنشاہوں کی مجلس ’’سینٹ‘‘ میں پہلی بار عوام کالانعام کی بات ہوئی ہے تو اس عظیم تبدیلی انقلاب اور انہونی پر جتنا بھی کہا، سنا جائے، اچھا ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ ڈاکٹر دنیش کمار نام کا شخص کیسے وہاں پہنچا ورنہ ان مقامات تک پہنچنے کے لیے تو پہلے سے سلیکشن ہو چکی ہوتی ہے، صرف وہی لوگ وہاں پہنچ سکتے ہیں جو پہلے ہی ’’پہنچے‘‘ ہوئے ہوتے ہیں اورعوام کالانعام کو پانچ سال میں صرف ایک مرتبہ استعمال کرتے ہیں اور جب ان سے دھرنے، جلسے، جلوس اور انڈے حاصل کرلیتے ہیں، ان کو پانچ سال کے لیے بھول جاتے ہیں کہ کبھی فتراک میں میرے کوئی نخچیر بھی تھا دراصل وہ فنڈوں، وزارتوں، ملازمتوں اور بندربانٹ میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان فضول چیزوں کی طرف دھیان بھی نہیں دے پاتے کہ گزشتہ الیکشن کی لاگت بھی سود سمیت وصول کرنا ہوتا ہے اوراگلے الیکشنوں کے لیے ’’خرچہ ‘‘ جمع کرنا پڑتا ہے لیکن ڈاکٹر دنیش کمار نے سینیٹ میں کالانعام کی بات کر کے تھوڑی دیر کے لیے بدمزہ کردیا، وہ تو اچھا ہوا کہ وزیر قانون نے بروقت اس گیندکو صوبوں کی طرف منتقل کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں جاؤ اور شکایت کرو ۔ اب لوگ پہلے اپنی اپنی صوبائی حکومت کا پتہ لگائیں گے کہ یہ کہاں ہے بلکہ ہے بھی کہ نہیں اور اگر ہے تو اس کے پاس ایسی فضول کالانعامی کاموں کے لیے وقت ہے یا نہیں۔ خیر ڈاکٹر دنیش کمار نے دوباتیں کہی ہیں، ایک یہ کہ علاج معالجے کے نام پر ڈاکٹروں، کلینکوں اور دواساز کمپنیوں نے جو حشر نشر برپا رکھا ہے، اس سے زیادہ ظالمانہ کاروبار کبھی چنگیز وہلاکو، ہٹلر اور نمرودوں اور فرعونوں نے بھی برپا نہیں کیا تھا، مریضوںکو پکڑ پکڑ کر توڑا پھوڑا، نچوڑا اور ککھوڑا جارہا ہے اورسکوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے ۔ لمبے چوڑے نسخوں، فضول ٹیسٹوں اور بے پناہ فیسوں پر تو بات ہوگئی ہے لیکن اس مسئلے کا ایک دوسرا پہلو ابھی باقی ہے اور وہ ہے پرائیویٹ کلینکوں اور اسپتالوں میں حاملہ خواتین کے بلاوجہ آپریشنز… اور یہ چیرپھاڑ اتنی عام ہوچکی ہے کہ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں اورگھروں و دکانوں میں کھولے گئے معمولی پولی کلینکوں میں زور و شور سے چل رہی ہے، مجال ہے اوریہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی حاملہ خاتوں ان کلینکوں بلکہ قصائی خانوں میں پہنچ جائے اور’’آپریشن‘‘ سے بچ جائے ۔ ایسے میں ایک کلینک میں کام کرنے والی ’’مائی‘‘ نے مجھے بتایا کہ اگر کسی مریضہ کو ڈاکٹرنی کے پہنچنے سے پہلے عام طریقے سے ولادت ہوجائے تو ڈاکٹر ہم پر غصہ ہوتی ہے کہ بروقت مجھے کیوں نہ بلایا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ عام ڈیلیوری کے آخر کتنے پیسے لیں گے لیکن ’’آپریشن‘‘ کے نام پر دیہاتوں میں بھی پچاس ساٹھ ہزار روپے تو عام سی بات ہے حالانکہ وضع حمل کوئی بیماری نہیں بلکہ یہ فطری عمل ہے جو انسانوں، حیوانوں حتٰی کہ نباتات میں بھی چل رہا ہے۔ سارے جانور، پرندے چرندے، درندے ، خرندے اسی طرح اپنی نسل بڑھاتے ہیں بلکہ بیماری کے بجائے یہ صحت مندی کی علامت ہے لیکن انسان نے اس فطری عمل کو کیا بنادیا ہے، یہ ان پرائیویٹ کلینکوں میں جاکر دیکھیے۔ مجھے پورے اعداد وشمار تو معلوم نہیں لیکن اپنے اردگرد کے علاقے میں ہونے والی ’’وارداتوں‘‘ سے اندازہ لگا کر کہہ سکتا ہوں کہ ملک بھر میں روزانہ کم سے کم پچاس ہزار وارداتیں تو یقیناً ایسی ہورہی ہیں جن میں دوران زچکی خواتین کے بلاوجہ اورصرف اپنی کمائی کے لیے آپریشنز کیے جارہے ہیں۔ ایک مرتبہ میرے کچھ عزیز میرے پاس آئے کہ پچاس ہزارروپے ادھار دیجیے، پھر بازار اور کلینک کا نام بتاتے ہوئے کہا کہ ڈلیوری کاکیس ہے، کلینک والے کہتے ہیں کہ پچاس ہزارروپے میں آپریشن ہوگا۔ میں ان کلینکوں کو جانتا تھا جو اسی بازار میں دس بارہ تھے۔ میں نے پچاس ہزار روپے ان کے سامنے رکھے اورکہا کہ بات پیسوں کی نہیں لیکن میرا ایک مشورہ ہے ، ابھی جاؤ مریضہ کو وہاں سے اٹھاؤ اور لیڈی ریڈنگ اسپتال لے جاؤ، اسے اسپتال میں داخل کرنے کا طریقہ اور مقام بھی بتا دیا۔ دوسرے دن خوشی خوشی آئے، کل ملا کر ساڑھے چار ہزار روپے میں سارا کام ہوگیا تھا ٹراسپورٹ اور دواؤں سمیت۔ اور پھر ہمارا یہ جو صوبہ ہے ’’کے پی کے ‘‘ عرف خیر پخیر یہاں تو ویسے بھی’’قانون‘‘ بڑے ادب اور احترام کے ساتھ ’’جرائم‘‘ سے پوچھ پوچھ کر چلتا ہے، اس لیے یہ کاروبار اتنا عام ہے کہ گلی گلی، گاؤں گاؤں میں قصائی خانے کھلے ہوئے ہیں۔ لگ بھگ آٹھ دس سال پہلے کی بات ہے، محکمہ صحت کے کسی شعبے نے یہاں کے ایک بڑے ہوٹل میں ایک بڑی کانفرنس بلائی تھی، موضوع یہی تھا کہ پرائیویٹ زچہ خانے، قصائی خانے بن چکے ہیں جب کہ اس سلسلے میں سرکاری اسپتالوں کے ہاں بڑے اچھے انتظامات موجود ہیں۔ میرے ساتھ اس وقت کے وزیر صحت بھی اسٹیج پر تھے، شاید ظاہرعلی شاہ نام تھا ان کا۔ چنانچہ ہم نے اور انھوں نے اسی بات پر زوردیا کہ اس مسئلے کا واحد حل عوام کو آگاہی دینا ہے تاکہ وہ باخبر ہوکر بے خبری میں ان پرائیویٹ قصائی خانوں کے بجائے سرکاری مراکز کارخ کریں۔ کانفرنس ختم ہوئی اور بات بھی ختم ہوئی، نہ آگاہی کی کوئی مہم چلی نہ کوئی تبدیلی آئی البتہ قصائی خانوں کا کاروبار اور پھیل گیا اور اس کی وجہ بھی ہمیں معلوم ہوئی، ایک تو یہ کہ ایسے قصائی خانے کوئی مزدور،کسان یا عام آدمی نہیں کھولتے بلکہ محکمہ صحت ہی کے ’’سابق‘‘ یا ’’لاحق‘‘ لوگ اور امیر ڈاکٹرز مل کرہی کھولتے ہیں، تو بندکون کرے گا اورکیوں؟ دوسرے یہ کہ سرکاری اسپتال اور زچہ بچہ مراکز میں بہرحال افسرانہ کلچر جاری ہے، سرکاری ملازم چاہے وہ ڈاکٹر ہو، نرس ہو، بابو ہو یاگیٹ کا چوکیدار کیوں نہ ہو، گورنمنٹ سرونٹ ہوتا ہے جس کے اردو میںمعنی ’’افسر‘‘ کے ہوتے ہیں اور عوام ان کے اس افسرانہ رویے سے اتنے گبھرائے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان کے نزدیک جانے کے بجائے پرائیویٹ قصائی خانوں کارخ کرتے ہیں جہاں قصائی چاقو چھریاں تیز کیے ہوئے شکار کے منتظر ہوتے ہیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل