Saturday, August 09, 2025
 

آزاد تجارت

 



ریاستوں کے مفادات کا معاملہ ہے، بین الاقوامی تعلقات کا محور تجارت ہے، اس پیمانے میں ہر ریاست ایک معاشی اکائی ہے۔ چیزیں تیارکرو اور انھیں دنیا میں بیچو۔ ملک جتنا ترقی یافتہ ہوگا، اتنی ہی ان کو اپنی برآمدات میں وسعت ہوگی اور انھیں ممالک کا سکہ دنیا میں کارآمد ہوگا۔ یہ تو تھیں ان تعلقات کی  academics باتیں، لیکن یہ تعلقات بہت پیچیدہ نوعیت کے ہیں اور وہ بھی اس دور میں جب دنیا ایک جدید دور میں داخل ہونے جا رہی ہے یا پھرکسی حادثے کا شکار بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ ماحولیاتی تبدیلی۔ آٹھ ارب لوگ اس دنیا میں آباد ہیں اور لگ بھگ ایک لاکھ چودہ ہزار ارب ڈالر اس دنیا کے تمام ممالک کی مجموعی پیداوار ہے۔ توانائی کے جن ذرایع کو استعمال کرتے ہوئے یہ معیشت اس حد تک پہنچی ہے، جیسا کہ تیل، گیس اورکوئلہ وغیرہ۔ لگ بھگ تین سو برسوں سے ان معدنیات کا استعمال ہوا اور تین سو سال پہلے اس دنیا کی آبادی پینسٹھ کروڑکے قریب تھی۔ ان تین سو سالوں میں ہمارے ماحولیات میں کاربن کے اخراج میں اضافہ ہوا۔ فضا میں آلودگی پھیلی اورکرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھا۔ تیل اورگاڑیوں کے بعد دنیا میں تیسری بڑی تجارت سیمی کنڈکٹر یعنی ’’چِپ‘‘ کی ہو رہی ہے، جس کا استعمال موبائل فون سے لے کرگاڑیوں تک ہو رہا ہے۔ مستقبل قریب میں انھیں چِپ سے ہمارے گھر، جہازوں کی ایوی ایشن، بڑی بڑی عمارتیں اور تعمیرات، دفاتر،آٹومیٹک گاڑیاں بھی ڈرائیورزکے بغیر چلیں گی۔ ان چِپ کا سائز انسانی ناخن سے بھی کم ہے لیکن ڈیٹا وہ اتنا جذب کرسکتی ہیں جو آج سے پچیس سال پہلے بڑے بڑے کمپیوٹرز میں رکھا جاتا تھا، یعنی ٹیکنالوجی انقلاب جو پہلے صدیاں لیتا تھا، اب ایک ہی دہائی میں آجاتا ہے۔ چین ٹیکنالوجی میں امریکا سے آگے جا رہا ہے۔ اب تک امریکا کا مصنوعی ذہانت کے شعبے پرغلبہ ہے۔ اب بھی ایسی ریاستیں ہیں جو روایتی انداز میں طاقت کے استعمال پر یقین رکھتی ہیں جیسا کہ روس اور اسی طرح کے بہت سے ممالک۔ امریکا اور چین بھی انھیں روایات کے ساتھ چلتے ہیں۔ بھارت کا انداز بھی ایسا ہی کلاسیکی ہے جو معاشی اعتبار سے دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ ٹرمپ حکومت نے امریکی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے تجارت کو ایک کارڈ کی حیثیت میں استعمال کرنا شروع کیا ہے، کیونکہ آزاد تجارت، ماہرِ اقتصادیات David Richardo  کے وضع کردہ آفاقی اصولوں پر چلتی ہے اور چلنا بھی چاہیے جس کا نگراں WTO کا ادارہ ہے، جس کو   Comperative Advantage  کہا جاتا ہے، یعنی جو چیز جہاں سستی اور بہتر انداز میں معیاری بنائی جائے اور جہاں اس چیزکو بنانے والے ماہر اور خام مال موجود ہو وہ ملک ہی اس چیزکو بنائے۔ اسی طرح دنیا کی اقوام میں تعاون پیدا ہوگا، جس کوگلوبلائزیشن بھی کہا جاتا ہے۔ آج آپ ایک کارڈ اپنی جیب میں رکھ کر بغیر پیسے کے پوری دنیا میں سفرکرسکتے ہیں جو کہ آج سے پچیس سال پہلے ممکن نہ تھا۔ روزانہ ہزاروں ارب ڈالرکی ٹرانزیکشن ہوتی ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی اصولی زبان انگریزی ہے۔ اگلے پچاس برس یا پھر 2070 تک ایک اندازے کے مطابق دنیا کی اسی فیصد آبادی انگریزی زبان بولنے اور سمجھنے کے قابل ہوجائے گی، بہت سی زبانوں کے زوال کا بھی خطرہ ہے۔ اس گلوبلائزیشن نے امریکا کے اندرکارخانوں کو ختم کردیا ہے کیونکہ وہاں کی لیبر مہنگی تھی۔ امریکا نے چین کو روس سے دورکرنے کے لیے اور چین کو دنیا میں مصروف رکھنے کے لیے کوئی ٹیرف لاگو نہیں کیا۔ چین نے امریکا اور دیگر ممالک کو سستی چیزیں بنا کردیں اور داخلی طور پر اپنے لوگوں کو اپنی معیشت کی مضبوطی میں مصروفِ عمل رکھا۔ چین کل تک کپڑے اور روزمرہ کی استعمال کی چیزیں بناتا تھا اور آج وہ کمپیوٹرز، سیمی کنڈکٹرز، الیکٹرک گاڑیاں بنانے میں ایلون مسک کی کمپنی ٹیسلا کو بھی پیچھے چھوڑتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ چین نے امریکی ڈالرکی قیمت بڑھائی۔ جو چیز امریکی عوام کو دس ڈالر میں ملتی تھی، وہ ان کو پانچ ڈالر میں بیچی۔ چین کی پیداوار اس طرح سے دو دہائیوں میں دس فیصد بڑھی اور آج وہ دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے۔ اس تجارت کو فروغ Global cooperation  کی وجہ سے ملا۔ جدید ٹیکنالوجی نے دنیا کو بدل دیا اور آزاد تجارت نے اس کو نئی راہیں فراہم کیں۔ Global Chain of Supply میں ہزاروں کنٹینرز سے لدے ہوئے جہاز سمندرکے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک رواں ہیں اور دوسری طرف طاقت کا جنون، جنگی جنون، چھوٹی ریاستوں پر قبضہ کرنا، قرضوں کو محکومیت کا ہتھیار بنانا، یقیناً اس بہاؤ میں جو ممالک مضبوط معیشت کے مالک نہیںہیں وہ بہہ جائیں گے، وہ ممالک جن کی سیاست یا ادارے کمزور ہیں، ان کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک طرف ہے، ٹرمپ کا امریکا جو چین کی ترقی سے خائف ہے اور دوسری طرف ہے انسانی حقوق اور آزادی کا نظریہ جو ہر ملک کے آئین میں موجود ہے اور چین میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ تیسری طرف ہیں وہ ممالک جہاں جمہوری اقدارکمزور ہیں۔ آمریتوں کا غلبہ ہے، ایسے ممالک بڑی تبدیلیوں سے گزریں گے کیونکہ باہمی تجارت اور جدید ٹیکنالوجی سے آتی ہوئی تبدیلی بہت جلد دنیا کو ایک کردے گی۔ مودی صاحب دنیا میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ پھیلا رہے تھے۔ ان کی خارجہ پالیسی کا ایک ہی مقصد تھا کہ کسی طرح سے پاکستان کو دنیا میں تنہا کردیا جائے۔ پہلگام کے واقعے کو ہتھیار بنا کر وہ پاکستان کو دنیا میں رسوا کرنا چاہتے تھے۔ امریکی صدرکو وہ اپنا وفادار دوست گرداندتے تھے، ان کے صدر بننے پر مودی صاحب بہت خوش تھے۔ آج اسی امریکی حکومت نے ہندوستان پر پچاس فیصد ٹیرف لاگوکردیا ہے۔ ہندوستان کی برآمدات کو امریکا میں بہت مہنگا کردیا ہے۔ مودی اب ہندوستان میں مزید کامیاب نہیں ہو سکیں گے بلکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اگر امریکا سے تعلقات مزید بگڑے تو کہیں مودی کو استعفیٰ نہ دینا پڑجائے۔ ہندوستان کی خارجہ پالیسی مضبوط ستونوں پر نہیں تھی جوکہ ایک ماڈرن ہندوستان کا تقاضہ تھا۔ ٹرمپ صاحب جو روس سے قریب ہو رہے تھے، اچانک یورپ ان سے خائف تھا، یوکرین کے صدر وائٹ ہاؤس میں بے عزت ہوئے اور دنیا کے دو بڑے ممالک آمنے سامنے ہوگئے اور ان کے خارجی تعلقات بحران کا شکار ہوگئے۔ اس وقت پاکستان امریکا کے قریب ہے، جب امریکا، ہندوستان سے قریب ہوا تھا تو پاکستان کے لیے چین کے سوائے کوئی اور اتحادی نہ تھا مگر مستقبل کے لیے بھی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی کہ کون کس کے قریب اورکون کس کا اتحادی ہوگا؟ پیوتن کی قیادت میں روس اس وقت شدید بحرانوں کے گھیرے میں ہے۔ روس کی معیشت کی بنیاد ان کے تیل اورگیس کے ذخائر ہیں۔ روس میں کوئی مضبوط اور مشہورکمپنی نہیں جب کہ روس ایک بہت بڑی فوجی طاقت ہے۔ روس بحیثیت ایک جدید معاشی طاقت اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا۔ پاکستان کو بہت بڑے بڑے چلینجزکا سامنا ہے۔ پاکستان کے لیے ایک ماڈرن ریاست بننا اب ناگزیر بن چکا ہے، جہاں ہمارے معیشت بھی مستحکم ہو اور ہماری فوجی طاقت بھی۔ یہ وقت سرد جنگ کا ہے، جہاں ہم جیسے ملک تجارت کے ذریعے بیرونی آمدنی کھاتے ہیں اور باہرکی چیزیں منگواتے ہیں۔ ہمیں امریکا نے اس سرد جنگ میں ایک ہتھیارکے طور پر متعارف کروایا ہے، کیونکہ امریکا دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، سب سے بڑا امپورٹر ہے۔ بہت سے ممالک بشمول چین نے امریکا کو اپنی چیزیں ایکسپورٹ کر کے اپنی معیشت کو مضبوط کیا کہ آج وہ دنیا کی دوسری بڑی طاقت ہے۔ آزاد تجارت اپنی حیثیت واپس بحال ضرورکرے گی۔ دنیا ایک دوسرے سے وابستہ رہے گی اور اسی طرح دنیا میں ترقی ہوگی۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل