Saturday, August 09, 2025
 

بانی مزدور تحریک، مرزا محمد ابراہیم

 



برصغیر میں ٹریڈ یونین تحریک کے بانی، مزدور کسان راج کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے مرزا محمد ابراہیم 11 اگست 1999 کو پاکستان کے محنت کشوں کو یتیم کرگئے۔ آج ان 26 برسوں میں حاصل کردہ حقوق محنت کشوں سے چھینے جارہے ہیں۔  ریلوے سمیت بڑے بڑے قومی اداروں کو فروخت کیا جا رہا ہے پاکستان اسٹیل، پی آئی اے، بینکوں اورگیس کمپنیوں سمیت 69 قومی ادارے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے احکامات کے تحت غیر ملکیوں کے ہاتھوں بیچے جا رہے ہیں۔ آج مرزا محمد ابراہیم زیادہ یاد آ رہے ہیں ٹریڈ یونین تحریک دم توڑ رہی ہے، جمہوریت کے نام پر بڑے بڑے جاگیردار اور سرمایہ دار، بیوروکریٹ حکمران بنے ہوئے ہیں۔ حکمران طبقہ لوٹ مار اور کرپشن میں لپٹا ہوا ہے مقدمات چل رہے ہیں کئی ایک جیل میں بند ہیں، کئی ایک ملک سے فرار ہو کر یورپ، امریکا، انگلستان، لندن اور دبئی میں ملکی دولت لوٹ کر شاندار زندگی گزار رہے ہیں لیکن آج سے 62سال پہلے تو ایسا نہیں تھا۔ مرزا ابراہیم جہلم کے قریب کالا گجراں میں ایک بے زمین کسان عبداللہ کے گھر پیدا ہوئے تو اس گاؤں میں ہندوستان کے وزیراعظم اندرکمال گجرال بھارتی فوج کے جنرل اروڑا سنگھ اور ہندوستان کے موجود شاعر اور دانشور گلزار بھی اسی دھرتی کے رہنے والے ہیں۔ پنجاب کی یہ دھرتی فوجی جوان بھی بڑی تعداد میں پیدا کرتی رہی ہے، یہاں مرزا ابراہیم جیسا ایک باغی بھی پیدا ہوا تھا جو بعد میں برصغیرکا ایک معروف مزدور رہنما سیاسی رہنما بنا جس نے برصغیر کے محنت کشوں کو کئی ایک مراعات دلوائیں جن میں پنشن اور گریجویٹی کا حق، حق ہڑتال، اسپتال میں مریضوں کا علاج، سالانہ چھٹیوں سمیت محنت کشوں کو ٹریڈ یونین کا حق اور سر اٹھا کر زندہ رہنے کا حق دلوایا، مگر آج وہ مراعات ختم کی جا رہی ہیں۔ مرزا ابراہیم انسانی حقوق کے علمبردار اور انسانی برابری کے انصاف پر مبنی ایک غیر طبقاتی نظام اور سوشلزم کے حامی تھے اور وہ ساری عمر اس کے لیے جدوجہد کرتے رہے وہ عالمی مفکر اور دانشورکال مارکس لینین ہوچی من اور ماوزے تنگ کے نظریات کے کڑے حامی تھے وہ ساری دنیا کے عوام کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے عوام کی بھی خوشحالی چاہتے تھے مگر ایسا آج تک نہ ہو سکا؟ مرزا ابراہیم مدرسہ تعلیم سے آگے نہ پڑھ سکے، انھوں نے اپنی ملازمت کا آغاز بطور مالی کیا پھر بھٹہ مزدور بن گئے اور پھر برج ورکشاپ ریلوے جہلم میں بطور معاون بھرتی ہوگئے۔ انھوں نے اپنی جدوجہد کا آغاز خلافت موومنٹ سے کیا، جو اس وقت برطانوی سامراج کے خلاف تھی اور پورے ہندوستان میں موجود تھی جس کی قیادت مولانا محمدعلی جوہر اور مولانا شوکت علی کر رہے تھے۔ برج ورکشاپ جہلم ہی سے انھوں نے یونین میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ 1946ء بغاوتوں کا سال تھا، اس دوران پولیس ملازمین نیول فوج اور انبالہ میں رائل ایئر فورس نے بھی بغاوت کردی اور پھر ریلوے میں بھی کم مئی 1946 کو ریل کا پہیہ صبح 8 بجے تا 12 بجے جام ہوگیا اور پھر 27 جون 1946 کو رات 12 بجے سے مکمل ہڑتال ہوگئی۔ تاریخ بڑی طویل ہے مختصر یہ کہ میرزا ابراہیم اور ان کے ساتھی گرفتار کر لیے گئے۔ ملک تقسیم ہونے جا رہا تھا، حکمرانوں نے یونین رہنماؤں سے مذاکرات کیے اور ڈیڑھ لاکھ مزدور بے روزگار ہونے سے بچ گئے اور ان کی تنخواہیں بھی بڑھائی گئیں پھر مطالبات تو مان لیے گئے مگر اس کی پاداش میں مرزا ابراہیم کو تقسیم سے 5 ماہ قبل 1947 میں ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ 1948 میں پاکستان میں پہلی مزدور فیڈریشن کی بنیاد رکھی، جس کا نام پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن رکھا گیا جس کے بانی صدر بنے جب کہ فیڈریشن میں ان کے ساتھ فیض احمد فیض، سی آر اسلم، ایرک سپرین، سردار شوکت علی، سوبھوگیان چندانی بھی شامل تھے جب کہ جنرل سیکریٹری ایم اے مالک بنے جو بعد میں مشرقی پاکستان کے گورنر بھی بنے۔مرزا ابراہیم نے برصغیر کے کئی ایک بڑے بڑے نامور سیاست دانوں کے ساتھ ملاقاتیں بھی کیں اورکام بھی کیا جس میں موہن داس گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو، قائداعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، خان عبد الغفارخان، جی ایم سید، عبدالصمد اچکزئی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، سوبھاش چندر بوس سمیت کئی رہنما شامل تھے۔ جن کے ساتھ جدوجہد کی اور جیل میں بھی رہے اور ان میں سید سجاد ظہیر، حسن ناصر، ، دین منصور، محمود الحق عثمانی، مولانا عبدالحمید بھاشانی، خان ولی خان، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، حبیب جالب، سی آرا اسلم، انیس ہاشمی، سو بھو گیان چندانی، امام علی نازش، ڈاکٹر اعزاز نذیر، سردار شوکت علی، میجر محمد اسحاق، افضل بنگش، غلام نبی کلو،  طفیل عباس، زین الدین خان لودھی سمیت کئی ایک رہنما شامل تھے۔ تقسیم کے بعد دانیال لطیفی کے گھر پر وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ملاقات ہوئی اس موقعے پر لیاقت علی خان نے کہا کہ ’’ مرزا صاحب اب پاکستان بن گیا ہے، جس کی حمایت کمیونسٹ پارٹی نے بھی کی ہے۔ آپ کمیونسٹ پارٹی چھوڑکر مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں آپ کی وزارت محنت کا قلم دان دیا جائے گا، آپ وزیر محنت بن جائیں‘‘ انھوں نے اس پیش کش کو ٹھکرادیا اورکہا کہ آپ کی مسلم لیگ فرقہ پرست جماعت ہے میں اس میں شامل نہیں ہو سکتا اور یوں پہلی مرتبہ ان کا ٹکراؤ حکومت سے ہوگیا۔ پھر انھیں دسمبر 1947 میں گرفتار کر لیا گیا اور یوں وہ پہلے پاکستان کے سیاسی قیدی بنے، انھیں شاہی قلعہ لاہور میں قید رکھا گیا، رہائی کے بعد سیاسی سرگرمیاں تیز رکھی گئی۔ انھیں پھر 1949 میں دوبارہ گرفتارکر لیا گیا پھر 1951میں گرفتار ہوئے جہاں سے انھوں نے پنجاب اسمبلی کا الیکشن جیل میں رہتے ہوئے لڑا، وہ پاکستان کمیونسٹ پارٹی اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی جانب سے امیدوار تھے جن کے مقابلے میں مسلم لیگ کے رہنما احمد سعید کرمانی تھے جن کے بیٹے اب بھی نواز شریف کے مشیر ہیں۔ اس الیکشن میں مرزا ابراہیم کے حامیوں نے انھیں ووٹ کے ساتھ نوٹ بھی دیے جو الیکشن کے موقعے پر ان کے ڈبوں سے برآمد ہوئے۔ پہلی مرتبہ الیکشن میں دھاندلی اور جھگڑالو الیکشن ہوا اور ان کے ڈھائی ہزار ووٹ کو رد کردیا گیا اور ہارنیوالے اُمیدوار احمد سعید کرمانی کوکامیاب قرار دیا گیا۔ اس طرح 1954 میں کمیونسٹ پارٹی انجمن ترقی پسند مصنفین اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن پر پابندی لگا کر ایک مرتبہ پھر مرزا ابراہیم گرفتار ہوئے انھوں نے 6 مرتبہ شاہی قلعہ اور 17 مرتبہ جیل کاٹی ہر مرتبہ سی کلاس جیل میں رہے۔ اس دوران ان کی ملاقات حسن ناصر سے بھی ہوتی رہی، جنھیں ایوب خان کے دور میں تشدد کے ذریعہ شہید کردیا گیا، انھوں نے ایوب خان کے دور میں اکتوبر 1967 میں ملک گیر ہڑتال کرائی، گرفتاریاں ہوئی، خود بھی گرفتار ہوا، مگر اب حالات بڑے خراب ہیں ان کے ساتھی ایک ایک کر کے دنیا چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اب ترقی پسند سیاست اور ٹریڈ یونین مشکلات کا شکار ہیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل