Loading
پاکستان کا قیام محض ایک سیاسی جیت یا جغرافیائی تبدیلی نہیں تھی، بلکہ یہ ایک تہذیبی، فکری اور تاریخی موڑ تھا، جہاں ایک پوری قوم نے اپنی شناخت، آزادی اور وقار کے لیے قربانیاں دیں۔ اس ملک کے قیام میں جس طبقے نے سب سے زیادہ جذبہ، محنت اور قربانی پیش کی، وہ نوجوان تھے، اور آج بھی پاکستان کی بقا، ترقی اور استحکام کا سب سے بڑا سہارا یہی طبقہ ہے۔ تاریخ اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ قوموں کا عروج اور زوال براہِ راست نوجوان نسل کے کردار سے جڑا ہوتا ہے۔ اگر نوجوان علم، کردار اور محنت کے میدان میں آگے بڑھیں تو قوم ترقی کرتی ہے، لیکن اگر وہ بے عملی، بے راہ روی اور مایوسی کا شکار ہوجائیں تو زوال ناگزیر ہو جاتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نوجوانوں کو ہمیشہ امید اور کامیابی کا ضامن سمجھتے تھے۔ آپ کا وژن واضح تھا کہ نوجوان صرف مستقبل کے وارث نہیں بلکہ موجودہ دور کے معمار ہیں۔ آپ نے ایمان، اتحاد، قربانی اور نظم و ضبط کو قومی ترقی کے بنیادی ستون قرار دیا اور تعلیم، اصول پسندی اور کردار سازی پر بار بار زور دیا۔ تحریکِ پاکستان میں نوجوانوں کا کردار بے مثال تھا۔ انہوں نے جلسوں اور جلوسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، گھر گھر پیغامِ آزادی پہنچایا، تحریکی لٹریچر تقسیم کیا، اور عملی قربانیاں دیں۔ یہ وہ ورثہ ہے جسے آج کے دور میں بھی نئے حالات کے مطابق زندہ رکھنا ضروری ہے۔ آج کے نوجوان کو بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق اپنے کردار کو ڈھالنا ہوگا۔ ڈیجیٹل دنیا، گلوبلائزیشن، سائنسی و ٹیکنالوجیکل مقابلے اور ماحولیاتی مسائل جیسے چیلنجز ان کے سامنے ہیں۔ اس دور میں نوجوان کے لیے چند بنیادی ذمے داریاں یہ ہیں: تعلیمی میدان میں قیادت نوجوانوں کو چاہیے کہ دینی اور عصری علوم میں توازن قائم رکھیں، تحقیق اور تنقیدی سوچ کو فروغ دیں، اور ایسی مہارتیں سیکھیں جو دنیا میں مقابلے کے قابل بنائیں۔ یونیورسٹی اور کالج کی سطح پر تحقیقی منصوبے، انڈسٹری سے جڑے تعلیمی پروگرام اور مفت یا سستے آن لائن کورسز تک رسائی ان کے لیے اہم ہیں۔ کردار سازی اور اخلاقی تربیت ایمانداری، قانون کی پاسداری، سماجی ذمے داری اور شفافیت کو اپنانا ضروری ہے۔ تعلیمی اداروں میں اخلاقی تربیت، شہری شعور اور معاشرتی آداب کو نصاب کا حصہ بنانا چاہیے۔ نوجوان بحث و مباحثہ، رضاکارانہ خدمت اور حقیقی مسائل کے حل میں عملی شرکت کریں۔ معاشی خود کفالت ہنر مند نوجوان ہی معیشت کا پہیہ چلا سکتے ہیں۔ فنی تربیت، چھوٹے کاروبار، مائیکرو فنانسنگ، اور زرعی و صنعتی مہارتیں سیکھنا وقت کی ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور ایگرو ٹیک جیسے شعبوں میں کام کرنے والے نوجوان نہ صرف اپنا روزگار پیدا کرسکتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی مواقع فراہم کرسکتے ہیں۔ سیاسی شعور اور قیادت نوجوانوں کو باشعور ووٹر بننا چاہیے، مقامی حکومتوں میں نمائندگی حاصل کرنی چاہیے اور قیادت کے اصول سیکھنے چاہئیں۔ طلبا تنظیمیں، لیڈرشپ کورسز اور پالیسی سازی میں شمولیت نوجوانوں کو قیادت کی عملی تربیت دے سکتی ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجیکل انوویشن میں نوجوانوں کی شرکت ناگزیر ہے۔ تحقیقاتی گرانٹس، ٹیکنالوجی پارکس، ہیکاتھونز اور گرین ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے کے پروگرام نوجوانوں کو دنیا کے جدید میدانوں میں آگے بڑھا سکتے ہیں۔ سماجی ہم آہنگی اور رواداری نوجوانوں کو فرقہ واریت، تعصب اور نفرت انگیزی کے خاتمے میں پیش پیش ہونا چاہیے۔ بین المذہبی مکالمے، ثقافتی پروگرام اور مشترکہ کمیونٹی منصوبے اس مقصد کے لیے مؤثر ہیں۔ صحت اور بہبود نوجوانوں کو جسمانی اور ذہنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں کاؤنسلنگ سینٹرز، کھیلوں کے مواقع اور صحت عامہ کی مہمات اس سلسلے میں مددگار ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ شجرکاری، پلاسٹک کے استعمال میں کمی اور ماحولیاتی آگاہی کے پروگرام نوجوانوں کو ماحولیاتی تحفظ کا حصہ بنا سکتے ہیں۔ انفرادی طور پر نوجوان روزانہ مطالعہ اور مہارت میں اضافہ کریں، کمیونٹی سروس میں حصہ لیں، صحت مند طرزِ زندگی اپنائیں، اور مقامی مسائل کے حل میں کردار ادا کریں۔ مقامی سطح پر تعلیمی ادارے نوجوان قیادت کے پروگرام چلائیں، روزگار کے مواقع پیدا کریں اور مہارت کی تربیت فراہم کریں۔ قومی سطح پر حکومت تعلیمی بجٹ میں ریسرچ اور ووکیشنل ٹریننگ کے لیے اضافہ کرے، نوجوان کاروبار کے لیے آسان قرضے اور ٹیکس مراعات دے، اور سیاسی و سماجی شمولیت کے مواقع بڑھائے۔ قائداعظم کا یہ قول آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے ’’ایمان، نظم و ضبط اور بے غرض فرائض شناسی کے ساتھ کوئی بھی کامیابی ناممکن نہیں۔‘‘ اگر نوجوان اپنے کردار کو صرف نعروں تک محدود رکھنے کے بجائے عملی، منظم اور مثبت عمل میں بدل دیں، تو پاکستان کو ایک خوشحال، مضبوط اور باوقار ملک بنایا جا سکتا ہے۔ ایسا پاکستان جو قائداعظم کے خوابوں کی حقیقی تعبیر ہو۔ نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل