Loading
اسپین کے شہر جمیلا میں واقع عوامی اسپورٹس سینٹرز میں مذہبی تقریبات پر پابندی عائد کی گئی جہاں مسلمان برسوں سے عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے اجتماعات منعقد کیا کرتے تھے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق پابندی کا یہ فیصلہ قدامت پسند جماعت پاپولر پارٹی (Popular Party) کی مقامی حکومت نے کیا، جس کی تجویز انتہائی دائیں بازو کی جماعت ووکس پارٹی (Vox) نے دی تھی۔ اسپین کی نہایت سخت گیر دائیں بازو کی جماعت ووکس نے مذہبی تقریبات پر پابندی کے اس فیصلے کو اپنے عیسائی اقدار کی حفاظت کی کامیابی بھی قرار دیا۔ مذہبی تقریبات پر پابندی کے بعد اس بلدیاتی اسپورٹس سینٹرز صرف ورزشی سرگرمیوں یا بلدیہ کے زیرِ اہتمام تقریبات کے لیے استعمال ہو سکیں گے۔ مذہبی، سماجی یا ثقافتی سرگرمیاں جنہیں بلدیہ کے لیے غیر متعلق سمجھا جائے گا ان پر مکمل پابندی ہوگی۔ یہ پابندی ایسے وقت میں آئی ہے جب پچھلے ماہ موریشیا کے علاقے میں مقامی باشندے اور تارکینِ وطن کے درمیان تصادم ہوا تھا، جسے ووکس پارٹی اور دائیں بازو کے حلقے مسلم مہاجرین سے جوڑ رہے ہیں۔ تاہم اسپین کی مقامی حکومت کے اس فیصلے پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ اس پابندی کا سب سے زیادہ اثر مقامی مسلم کمیونٹی پر پڑے گا جو ان مراکز میں اسلامی تہوار منایا کرتے تھے۔ میئر سیوے گونزالیز کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کسی ایک مذہب کو نشانہ بنانے کے لیے نہیں بلکہ مقامی ثقافتی شناخت کے تحفظ کے لیے کیا گیا۔ مسلم کمیونٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اسے ادارہ جاتی اسلاموفوبیا قرار دیا ہے۔ اسپین کی وزیر برائے مہاجرین، ایلمہ سائیز نے اس فیصلے کو شرمناک قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مقامی حکومت فوری طور پر معافی مانگے اور فیصلہ واپس لے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے اسلاموفوبیا، میگوئل موراتیونس نے بھی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ضمیر، مذہب اور خیال کی آزادی کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ اسپین کی اسلامی کمیونٹیز کے اتحاد کے سیکریٹری جنرل محمد الغیدونی نے کہا کہ یہ فیصلہ اسپین کے آئینی اصولوں اور مذہبی آزادی کے قوانین سے متصادم ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مسلم تقریبات کو غیر مقامی قرار دینا ایک واضح تعصب کی علامت ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل