Monday, August 11, 2025
 

سفرِشوق ؛  (دوسری اور آخری قسط)

 



گنہ کلاں ریلوے اسٹیشن الہڑ سے اگلا ریلوے اسٹیشن گنہ کلاں ہے۔ سیال کوٹ کے پاس دو گُنے ہیں۔ ایک گنہ کلاں یعنی بڑا گنہ ہے جب کہ دوسرا گنہ خورد ہے جسے صرف گنہ کہا جاتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک شہر اٹک ہے اور اس کے قریب ایک چھوٹا اٹک یعنی اٹک خورد ہے۔ گنہ کا ریلوے اسٹیشن بہت پُر سکون سا ہے۔ شہر سے بہت دور ہونے کی وجہ سے یہاں کوئی شورشرابہ نہیں ہوتا۔ اگر آپ غور کریں تو انگریزوں نے سارے ریلوے اسٹیشن شہر کی آبادی سے ہٹ کر دی بنائے تھے جو رفتہ رفتہ آبادی بڑھنے سے شہر کے اندر ہی آ گئے مگر گنہ کلاں کا ریلوے اسٹیشن آج بھی آبادی سے دور ہے۔ شاید اسی لیے یہ آج بھی بہت پُرسکون دکھائی دیتا ہے۔ شام کے اوقات میں سورج ڈوبنے کا منظر پرانے درختوں کے ساتھ بہت بھلا سا لگتا ہے۔ گنہ کلاں کے ریلوے اسٹیشن کی پٹری نے بھی تقسیم کے بہت سے دکھ دیکھے ہیں۔ جنھیں یہاں بیان کرنے لگوں گا تو بات کہاں کی کہاں چلی جائے گی۔ تاثیر آباد ریلوے اسٹیشن  گنہ کلاں سے اگلا ریلوے اسٹیشن تاثیر آباد ہے۔ یہاں کوئی باقاعدہ ریلوے اسٹیشن تو نہیں تھا مگر پھر جودھے والی اور گردونواح کے لوگوں کی کوششوں سے یہاں سٹاپ منظور ہوا۔ یہ اسٹیشن دھیرا سندھا، سدھرانہ اور جودھے والے کی آبادیوں کے درمیان تھا اور تمام دیہات کے لوگوں کی خواہش تھی کہ اسٹیشن ان کے نام پر ہو۔ لیکن پھر اس خاتون تاثیر بیگم جس نے اسٹیشن کی عمارت کے لیے جگہ عطیہ کی تھی، کے نام پر سٹیشن کا نام تاثیر آباد رکھا گیا۔ یہ باقاعدہ ریلوے اسٹیشن نہیں تھا۔ اس لئے یہاں کوئی عملہ بھی تعینات نہیں تھا۔ جودھے والی کے ہی محمد حسین کاظمی صاحب مرحوم ہیں جو اسٹیشن کے معاملات رضاکارانہ انجام دیتے رہے ہیں صفائی اور سٹیشن کو خوب صورت بنانے کے لیے بڑی محنت کرتے رہے۔ ایک برس قبل جب میں تاثیر آباد ریلوے اسٹیشن پر گیا تو شاہ صاحب وہیں ایک چار پائی پر آرام فرما رہے تھے۔ اگرچہ کہ آج یہاں کوئی ریل نہیں رکتی مگر شاہ صاحب اس عارضی ریلوے اسٹیشن کی صاف صفائی میں لگے رہتے تھے۔ شاہ صاحب نے بہت قصے سنائے کہ کیسے اس چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر کبھی خوب رونقیں ہوا کرتی تھیں اور گرمیوں کی شاموں میں وہ اور ان کے یار بیلی یہاں گپ شپ کیا کرتے تھے مگر پھر وقت کی آری ایسی چلی کہ سب ختم ہوگیا۔ میری خوش قسمتی کہ میری شاہ صاحب سے ایک ملاقات ہوگئی۔ کچھ ہی دنوں کے بعد مجھے پتا چلا کہ شاہ صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔ نہ جانے آج کون تاثیرآباد ریلوے اسٹیشن کی صاف صفائی کرتا ہوگا۔ وہاں بوہڑ کے درخت پر جو جھولا شاہ صاحب نے ڈالا تھا، وہاں اب کون جھولتا ہو گا۔ خدا شاہ صاحب پر رحمت کرے۔ سیال کوٹ ریلوے اسٹیشن  تاثیرآباد سے نکلتے ہی ریل کی رفتہ دھیمی پڑ جاتی ہے اور کچھ ہی لمحوں میں ریل گاڑی سیال کوٹ ریلوے اسٹیشن پہنچ جاتی ہے جو کبھی ایک جنکشن تھا مگر اب صرف ریلوے اسٹیشن ہے۔ کتب کہتی ہیں کہ سیال کوٹ پنجاب کا ایک قدیم شہر ہے۔ ایک وقت تھا جب سیال کوٹ تو تھا مگر لاہور نہیں تھا۔ 70 عیسوی کے حوالے تو میرے پاس بھی ہیں جب پورن نے باپ نے پورن کو رانی لوناں کی باتوں میں کر ہاتھ پاؤں کٹوا کر ایک کنواں میں پھنکوا دیا تھا۔ گرو بال ناتھ کا وہاں سے گزر ہوا تو اس نے پورن کو کنویں سے باہر نکالا اور اپنے ساتھ ٹلہ جوگیاں کے گیا۔ آج بھی پورن بھگت کا وہ کنواں سیال کوٹ اور جموں کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ مزید اگر آگے چلیں تو پندرہ سو سال پرانا شوالہ مندر اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ شہر بہت پرانا ہے۔ پندرہ سو سال پرانے مندر کو بابری مسجد کی شہادت کے بدلے میں جلانے کی کوشش کی گئی مگر ناکامی ہوئی مگر ایک گنبد جل گیا۔ پھر یہ مندر ویران ہوا اور نشہ کرنے والوں کی بہترین آماج گاہ بن گیا۔ خان صاحب کا شکریہ کہ انھوں نے اس مندر کو پھر سے بحال کروایا۔ اس سب کے باوجود شہر سیال کوٹ کے بارے میرا سب سے خوب صورت حوالہ سردار اوبرائے گنڈا سنگھ ہیں جو اس شہر میں سب سے پہلے اسپورٹس سے متعلق اشیاء کا کام شروع کرنے والوں میں سے تھے، ان کی حویلی میری بہت پسندیدہ تھی۔ یہ اتنی بڑی تھی کہ اس کا ایک رخ پیرس روڈ کی طرف تھا تو پچھلی طرف جیل روڈ پر تھی۔ بچپن سے ہی اس عمارت نے مجھے اپنے حصار میں رکھا۔ اس عمارت کے عین پیچھے میرا اسکول تھا جس کی جونیئر برانچ میں، میں نرسری سے چہارم تک یعنی چھے سال تک پڑھتا رہا۔ مجھے اس عمارت سے ان جانا سے خوف آتا تھا۔ اس کے بارے میں کئی کہانیاں سن رکھی تھیں کہ یہاں جن رہتے ہیں وغیرہ وغیرہ، مگر میں چھپ چھپ کر اسے دیکھا کرتا تھا۔ ڈر کے باوجود اس عمارت میں ایک خاص قسم کی کشش تھی۔ 1998 میں، میں سنیئر کیمپس شفٹ ہوگیا۔ وقت کے گھوڑے کی لگامیں کب کسی کے ہاتھوں میں آئی ہیں۔ وہ دوڑا اور خوب دوڑا۔ اتنا عرصہ گزر گیا، اس عمارت کے سامنے سے نہ جانے کتنی بار گزر چکا ہوں مگر کبھی بھی اس کے اندر نہیں گیا۔ مگر ایک دن نہ جانے کیوں قدم خودبخود اس عمارت کی جانب چل پڑے۔ کسی نے کہا چلیں اور میں چل پڑا۔ میں نے کبھی بھی کسی رہائشی عمارت کو دیکھا کر آہ نہیں بھری کہ کاش میں اس کا مکین ہوتا مگر اس کو اندر سے پہلی بار دیکھا تو لاشعوری طور پر کہا کہ کاش یہ میرا گھر ہوتا۔ اس عمارت کی بھی کوئی کہانی ہوگی۔ کبھی تو بچے یہاں بھی کلکاریاں مارتے ہوں گے۔ یہاں بھی خوشی کے گیت گائے جاتے ہوں گے، شادیانے بجتے ہوں گے، مرگ بھی ہوتا ہوگا۔ پھر نہ جانے ایسا کیا ہوا ہو گا جو یہ عمارت اجڑ گئی۔ اس کے مکین اجڑ گئے۔ نہ جانے کس کی بددعا انھیں کھا گئی کہ ایک بار یہ حویلی اجڑی تو پھر آباد نہ ہوسکی۔ مجھے پہلی بار اپنے اندر اس بات کی کمی کا شدت سے احساس ہوا کہ مجھے شعر کہنا تو بہت دور کی بات، شعر پڑھنا تک نہیں آتا۔ بقول میرے ایک دوست کہ میں اچھی بھلی شعری کو نثر بنانے میں میرا کوئی ثانی نہیں۔ مگر مجھے اچانک سے اپنی اس کمی کا احساس کیوں ستانے لگا؟ جس شخص/چیز/بات نے مجھے دکھ دیا، میں ہمیشہ اس سے دور بھاگا۔ میں نے کبھی اس کے بارے میں کسی سے بات نہیں کی کہ دکھ کا تذکرہ کرنے سے دکھ مزید بڑھتا ہے، مگر اب کی بار میں اپنا دکھ لکھنا چاہتا تھا اور شاعری سے بہتر اور کیا پلیٹ فارم ہو سکتا تھا کہ میں اسے استعمال کروں۔ نثر میں بات ذرا تفصیل میں چلی جاتی ہے اور میں تفصیل میں جانا نہیں چاہتا۔ میں اس حد تک دکھی ہوں کہ سوچا تھا کہ اس کے پاس سے کبھی نہ گزروں گا مگر ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے بھلا یہ کیوںکر ممکن تھا۔ مگر ہاں میں جب جب اس کے پاس سے گزرا، میں نے گردن موڑ کر اس کی طرف نہیں دیکھا۔ مجھ میں ہمت بھی نہ تھی اور نہ کبھی ہوپائے گی۔ میں نے زندگی میں پہلی بار اسے دیکھتے ہی اپنا کہہ دیا تھا، اس کے ساتھ رہنے کی خواہش کی تھی۔ اگرچہ کہ میں جانتا تھا کہ ایسا ناممکن ہے مگر میں پھر بھی چپکے چپکے اس کے ساتھ کبھی کبھی دل لگی کر آیا کرتا کہ مسرت کے لیے یہی سامان کافی تھا اور اس سے زیادہ کی شاید مجھے خواہش بھی نہ تھی۔ مگر جو درد قسمت میں لکھا ہو وہ مل کر ہی رہتا ہے، اسے سہنا ہی پڑتا ہے۔ اسی درد کو اب میں سہہ رہا ہوں کہ شاید کہ کوئی میرا حالِ دل جانتا ہے۔ اب ساری زندگی اس قبر کی جانب دیکھے بنا، اسی کے پاس سے گزرنا ہے کہ موت تک مجھے بار بار مرنا ہے۔ اگر آپ کی سمجھ میں میری بات نہیں آئی ہو تو مختصراً بتا دوں کہ میری اس پسندیدہ عمارت بلکہ اوبرائے گنڈا سنگھ کی حویلی کو جدت کے نام پر ڈھا دیا جا چکا ہے۔ وہ حویلی جہاں تقسیم کے بعد سیال کوٹ کا جنرل پوسٹ آفس بنا تھا۔ نہ جانے یہ بعد میں کس کے حصے میں آئی تھی مگر اوبرائے خاندان کے بھارت منتقل ہوجانے کے بعد تو اس کی ملکیت حکومتِ پاکستان کے پاس ہونی چاہیے تھی، لیکن نہ جانے یہ ملکیت کس کے پاس گئی اور اب کس کے پاس ہے۔ سیالکوٹ قلعہ  سیالکوٹ قلعہ پاکستان کے قدیم ترین قلعوں میں سے ایک ہے۔ سیالکوٹ شہر، جو کہ پاکستان کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے (5000 سال سے بھی زیادہ پرانا)، قلعے کی وجہ سے تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ مشہور مورخ دیاس جی کے مطابق، راجا سالبھان نے دوسری صدی عیسوی کے آس پاس سیالکوٹ شہر کو دوبارہ آباد کیا اور راوی اور چناب کے درمیان کے علاقے پر حکومت کی۔ سالبھان نے شہر کے دفاع کے لیے سیالکوٹ قلعہ (جس کی اس وقت دوہری دیواریں تھیں) تعمیر کروایا۔ کہا جاتا ہے کہ راجہ سالبھان نے قلعے کی مرمت اور توسیع کے لیے پٹھان کوٹ سے بڑے بڑے پتھر اور چٹانیں منگوا کر دس ہزار سے زیادہ مزدور اور مستری لگائے۔ یہ کام دو سال کی مقررہ مدت میں مکمل ہوا، جس کے بعد قلعے میں دو بڑی دیواریں اور 12 برج بنائے گئے۔ راجا سالبھان اپنی بیوی رانی اچچرن کی بہت عزت کرتے تھے اور ان سے بے حد محبت کرتے تھے، اسی لیے انہوں نے رانی کے لیے ایک شاندار محل تعمیر کروایا جو تقریباً 9 مربع میل (20 مربع کلومیٹر) کے رقبے پر محیط تھا۔ یہ محل روڑاس (اگوکی) کے قریب تھا اور اسے یونان کے ماہر انجینئرز اور معماروں نے ڈیزائن اور تعمیر کیا تھا۔ قلعے سے رانی اچچرن کے محل تک ایک شان دار سڑک جاتی تھی۔ 1179 سے 1186 کے دوران، شہاب الدین غوری نے لاہور اور سندھ پر قبضہ کیا۔ جموں کے راجا کی مدد سے اس نے سیالکوٹ قلعہ پر بھی قبضہ کرلیا۔ 14ویں صدی عیسوی کے آخر میں سلطان فیروز شاہ تغلق نے اس علاقے میں جنجوعہ قبیلوں کی خودمختاری تسلیم کرتے ہوئے قلعہ سیالکوٹ انہیں دے دیا۔ گردوارہ بابے دی بیر سیال کوٹ کی تاریخ کا ایک اور اہم حوالہ گردوارہ بابے دی بیر ہے۔ سیالکوٹ کے دو علاقے دو بزرگوں کے نام پر آباد ہیں۔ ایک حمزہ غوث کا علاقہ جو پیر حمزہ غوث کے نام پر ہے اور ایک بابے بیر کا محلہ ہے جو بابا گرو نانک سے منسوب ہے۔ غالباً 1517ء کی بات ہے جب بابا گرو نانک سیالکوٹ تشریف لائے۔ اس وقت پیر حمزہ غوث اور اہلِ علاقہ کے درمیان کسی بات پر تنازعہ چل رہا تھا۔ عوام نے معاملہ بابا گرو نانک کے گوش گزار کیا کہ اب وہی اس معاملے کو دیکھیں۔ بابا گرو نانک پیر حمزہ غوث کے پاس تشریف لے گئے اور معاملے کو رفع دفع کروایا۔ اس طرح شہر بھر میں بابا گرو نانک کی دھوم مچ گئی۔ بابا گرو نانک بیر کے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر لوگوں کی اصلاح کرتے۔ اسی مناسبت سے یہ علاقہ پہلے بابے دی بیر کے نام سے مشہور ہوا اور اب یہ صرف بابے بیری کے نام سے جانا جاتا ہے، جس جگہ یہ درخت تھا، بلکہ ہے وہاں ایک گرودوارہ تعمیر کیا گیا جسے گردوارہ بابے دی بیر کہا جاتا ہے۔ رنجیت سنگھ کا دور آیا تو اس نے پنجاب بھر کے گردواروں پر توجہ دی۔ اس گردوارے پر بھی سنگِ مرمر لگایا گیا جو آج بھی وہاں نصب ہے۔ وقت کا بے لگام گھوڑا سر پٹ دوڑا اور سن 47ء آ گیا۔ تقسیم ہوئی، یہاں سے اکثریتی سکھ ہجرت کر کے مشرقی پنجاب چلے گئے، کیوں گئے؟ انھیں جانا چاہیے تھا یا نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے۔ بات کڑوی ہے مگر سچ ہے کہ جب پجاری نہ ہوں تو خدا متروک ہو جایا کرتے ہیں۔ بیشتر گردواروں کی طرح گردوارہ بابے دی بیر بھی بند ہوگیا۔ کیسے آباد رہتا اور اسے کون آباد رکھتا۔ جب پجاری ہجرت کر گئے تو گردوارہ کو کون آباد رکھتا۔ پنجاب کے بیشتر گردواروں کی طرح یہاں بھی قبضہ ہوا۔ یہاں نشہ کے عادی لوگوں کا مستقل اڈا بن گیا۔ عجب بات تھی کہ گردوارہ بابے دی بیر ہر شخص آ سکتا تھا۔ اگر کسی کے یہاں آنے پر پابندی تھی تو وہ اسی مذہب کے ماننے والوں پر تھی۔ پھر نہ جانے کیوں اور کہاں سے ایک سر پھرا آیا۔ بابا جی نے اس کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا اور 2012 میں اس گردوارے کو محکمۂ اوقاف سے آزاد کروا لیا گیا۔ کچھ مناسب انتظامات کرکے 2013 میں اسے سکھوں کی عبادت کے لیے کھول دیا گیا۔ تب سے یہاں مناسب تعمیرات ہوتی رہی ہیں۔ حال ہی میں یہاں نیا کچن اور وسیع لنگر خانہ تعمیر کیا گیا ہے۔ بیر کے درخت کے نیچے وہی سنگِ مر مر لگایا گیا ہے جو رنجیت سنگھ نے گرردوراے میں لگوایا تھا۔ ہر اتوار کو یہاں سنگت ہوتی ہے، پاٹ پڑھا جاتا ہے اور دنیا جہاں کے مظلوموں کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں۔ شہر سیالکوٹ کی تاریخ کا حوالہ پنجاب کے معروف پنجابی شاعر حافظ برخوردار رانجھا کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ حافظ برخوردار رانجھا جو کہ پیدا تو پنجاب کے شہر سرگودھا میں ہوئے مگر انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام سیالکوٹ میں گزارے اور آپ کو سیالکوٹ شہر سے تقریباً چار کلومیٹر دور ایک نواحی قصبے چٹی شیخاں میں دفن کیا گیا جو آج شہر کا حصہ بن چکا ہے۔ آپ فارسی اور پنجابی دونوں زبانوں پر عبور رکھتے تھے مگر آپ کی شاعری زیادہ پنجابی میں بہت مقبول ہوئی۔ قصہ مرزا صاحباں کے علاوہ سسی پنوں اور یوسف زلیخا بھی پنجابی زبان میں تحریر کیا جو کہ بہت مشہور ہوا اگرچہ کہ قصہ مرزا صاحبہ کو بہت سے لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں تحریر کیا مگر جو شہرت حافظ برخوردار رانجھا کے حصے میں قصہ مزاح صاحباں لکھنے کی وجہ سے آئی وہ کسی دوسرے پنجابی شاعر کو نصیب نہ ہوسکی۔ مرزا کے بالکل ساتھ ہی تین سو سال پرانی مسجد بھی دیکھنے کے لائق ہے جس کی خاص بات یہ ہے کہ تین سو سالوں سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ آبادی سے دور ہونے کی وجہ سے یہ مسجد آج بھی اچھی اور اصلی حالت میں موجود ہے۔ بابا گرو نانک نے جہاں اپنے منہ بولے بھائی کو ایمن آباد بھیجا کہ وہ لوگوں کو سکھ مذہب کی تعلیم دیں، وہی انھوں نے بابا گرو میاں صاحب کو ’’ٹھاکر کے‘‘ تحصیل ڈسکہ ضلع سیال کوٹ بھیجا۔ بابا گرو میاں نے یہاں گوردوارہ اور ’’کلی سمادھی (تالاب)‘‘ بنوائی جہاں مرنے والے سکھوں کی آخری رسومات ادا کی جاتی تھیں۔ 14 سال سے کم عمر اگر کوئی سکھ مر جاتا تو اسے دفنا دیا جاتا تھا جب کہ بڑے بزرگوں کو پہلے جلایا جاتا تھا کہ ان کے پاپ بھی ساتھ جل جائیں اور اس کے بعد ان کی چتا کو یا تو اسی تالاب میں بہا دیا جاتا تھا یا پھر زمین میں دفنا دیا جاتا تھا۔ بابا گرو میاں صاحب جب دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کی سمادھی بھی پاس ہی بنا دی گئی۔ وقت کا ظالم گھوڑا بے لگام دوڑا، سن 47 آیا، لکیر کھینچی گئی، بہت سے مسلمان یہ کہہ کر بھارت سے پاکستان نہ آئے کہ وہ اپنے بزرگوں کی قبروں کو کیسے چھوڑ کر پاکستان جائیں مگر میں قربان جاؤں اپنے سکھ بھائیوں پر جو اپنے گروؤں کی سمادھیاں چھوڑ کر بھارت چلے گئے۔ جب سکھوں نے اپنے بزرگوں کا خیال نہ کیا تو ہم مسلمان کیوں کرتے؟ ہم نے بھی بابا گرو میاں کی سمادھی کو زبردستی مسلمان کیا اور اسے ایک مزار کا درجہ دے کر ولایت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اب مسلمان بابا گرو میاں کے مزار پر دیے جلاتے ہیں، پھول نچھاور کرتے ہیں اور ان کے حضور اپنی منتیں مرادیں رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ فتح بھنڈر (تحصیل ڈسکہ) میں بھی گوردوارہ موجود ہے جو روایات کے مطابق اس علاقے میں بابا گرو نانک کی رہائش گاہ تھا۔ بعد میں بابا گرو نانک کی قیام گاہ کو گوردوارہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ اب یہ گوردوارہ بس گرنے کے قریب ہے۔ ضلع سیالکوٹ میں آریہ سماج تنظیم کا اصلاحی کردار: ایک تاریخی جائزہ بیسویں صدی کے آغاز میں سیالکوٹ میں مذہبی اور سماجی زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی جیسا کہ ضلع سیالکوٹ کے گزٹئیر 1920ء میں بیان کیا گیا ہے کے اوائل بیسویں صدی میں مذہبی سوسائٹیاں تیزی سے بڑھیں اور ان کا اثر صرف عبادات تک محدود نہ رہا بلکہ تعلیم اور ابھرتی ہوئی سیاسی شعور تک پھیل گیا۔ ان تحریکوں میں آریہ سماج ایک اہم اور مؤثر قوت کے طور پر ابھری جس نے نہ صرف تعلیمی و اصلاحی کاموں میں پیش قدمی کی بلکہ پس ماندہ طبقات کی فلاح و بہبود کو بھی اپنا مقصد بنایا وہ مذہبی تنازعات جو ماضی میں نمایاں تھے۔ آہستہ آہستہ ختم ہوگئے اور ان کی جگہ ایک متحد اصلاحی جذبے نے لے لی، جس کی قیادت آریہ سماج کر رہا تھا سیالکوٹ میں موجود متعدد مذہبی تنظیموں جن میں سنگھ سبھا، سناتن دھرم سبھا، جین سبھا، برہمو سماج، انجمن اسلامیہ اور انجمن احمدیہ شامل تھیں، کے درمیان آریہ سماج ایک منفرد مقام کی حامل تھی، جو اپنے وسیع اثر و رسوخ اور گہرے اصلاحی مقاصد کے باعث نمایاں نظر آتی ہے۔ 1870ء کی دہائی میں قائم ہونے والی یہ تنظیم 1920ء تک سیالکوٹ کی ہندو سماجی زندگی کی بنیاد بن چکی تھی اور شہر کی بیشتر ہندو آبادی آریہ سماجی افکار کی طرف مائل ہوچکی تھی۔ آریہ سماج کا اثر نہ صرف سیالکوٹ شہر میں واضع تھا بلکہ بھوپال والا جیسے دیہی علاقوں میں بھی نمایاں تھا، جہاں آریا سماج مندر مذہبی تعلیمی اور سماجی ترقی کے مراکز کے طور پر کام کرتے تھے۔ ان مراکز میں ویدک تعلیم، سنسکرت زبان اور پیشہ ورانہ تربیت کو فروغ دیا گیا۔ لالہ گنگا رام اور کیسر چند جیسے راہ نماؤں کی سرپرستی میں آریہ سماج نے لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے اسکول قائم کیے، جہاں تعلیمی کے ساتھ ساتھ عملی مہارتیں بھی سکھائی جاتی تھیں۔ آریہ کنیا پاٹ شالہ جیسا ادارہ اس دور میں لڑکیوں کی تعلیم اور گھریلو سائنس کی تربیت دینے والا ایک اہم قدم تھا۔ آریہ سماج کا سب سے انقلابی کارنامہ پس ماندہ طبقات، خصوصاً ’’میگھ‘‘ برادری کے لیے اس کی کوششیں تھیں، جنہیں سماج میں اچھوت سمجھا جاتا تھا۔ 1903ء میں ایک بڑی شدھی تقریب کے ذریعے ان افراد کو آریہ سماج میں شامل کیا گیا اور وہ ''آریہ بھگت'' کہلانے لگے۔ اس کام کو منظم انداز میں آگے بڑھانے کے لیے آریہ میگھ اُدھار سبھا قائم کی گئی جسے 1912ء میں باقاعدہ رجسٹر کیا گیا۔ حکومت نے اس مقصد کے لیے نہری زمین بھی عطا کی تاکہ میگھ برادری کی معاشی حالت بہتر بنائی جا سکے۔ ان اقدامات کے ذریعے آریہ سماج ایک مذہبی ادارے سے بڑھ کر ایک انقلابی سماجی تحریک بن گیا جو نوآبادیاتی پنجاب میں تبدیلی کی علامت تھی۔  آپ میں سے بہت سے لوگوں نے ریل کار کا لفظ سنا ہوگا اور اسے ایک ٹرین کی طرح ہی سمجھتے ہوں گے لیکن ریل کار ایک بالکل مختلف چیز ہے۔ بنیادی طور پر ریل کار دو قریبی شہروں کے درمیان چلتی ہے اور اسے ریل گاڑی کی بجائے ریل کار ہی کہا جاتا ہے۔ پیار سے لوگ اسے ڈبا بھی کہتے تھے۔ روایتی ریل کار ایک ڈبے والی بڑی سی بس نما گاڑی ہوتی ہے جو مختصر سفر کے لیے بہترین تصور کی جاتی ہے۔ پاکستان میں ریل کار کی آمد 1960 کی دہائی میں ہوئی تھی۔ شروع میں تو ان کو جاپان اور جرمنی سے منگوایا گیا تھا۔ اس ننھی منی سی ریل گاڑی کے مرکزی اور اکلوتے ڈبے میں انجن تو ایک ہی ہوتا تھا، تاہم اس میں ڈرائیور کا کنٹرول دوطرفہ تھا جو ڈبے کے دونوں سروں پر ہوتا تھا اور وہ کسی بھی طرف بیٹھ کر اسے چلا سکتا تھا۔ بنیادی تصور بھی یہی تھا کہ ڈبے کا رخ بدلے بغیر جس طرف کو ڈرائیور چاہے اسے لے جائے۔ اس کا انجن دوسرے انجنوں کی طرح علیحدہ سے نظر نہیں آتا تھا بلکہ اسی ڈبے کے اندر ہی کہیں نصب ہوتا تھا۔ دونوں طرف کے ڈرائیور والے حصوں کے درمیان وسیع جگہ میں مسافروں کے لیے 40، 50 نشستیں لگی ہوتی تھیں۔ بسا اوقات اس کے ساتھ اسی طرح کا ایک مکمل مسافر ڈبا بھی لگا ہوتا تھا جس میں کافی مسافر بیٹھ جاتے تھے۔ حسب ضرورت اس ڈبے کے پیچھے اضافی اور مکمل مسافر ڈبے بھی لگائے جاتے تھے۔ بعض اوقات دو یا تین ڈبوں پر مشتمل ریل کار بھی چلائی گئی۔ ایسے حالات میں دوسری گاڑیوں کی طرح مرکزی انجن والے ڈبے کا رخ بدل کر اسے سامنے لگایا جاتا تھا۔ پاکستان میں آنے کے بعد اس ریل کار کو مختلف روٹس پر چلایا گیا، جن میں لاہور راولپنڈی، لاہور ملتان، راولپنڈی حویلیاں، ماڑی انڈس کندیاں اور راولپنڈی کوہاٹ وغیرہ شامل ہیں۔ بعد ازآں اسے لاہور اور جلو موڑ کے درمیان لوکل ٹرین کے طور پر بھی چلایا جاتا رہا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ریلوے کا محکمہ اس کے نام کے تسلسل کی خاطر ریل گاڑیوں کو اب بھی ریل کار کہنے پر مصر ہے، حالاںکہ اب اس ریل میں کار والی کوئی ادا ہی نہیں۔ پرانی ریل کار جو لاہور سے راولپنڈی کے بیچ چلتی تھی ان کے نام بہت ہی خوب صورت اور رومانوی ہوتے تھے جیسا کہ غزالاں، سبک خرام یا سبک رفتار وغیرہ۔ (ریل کی جادو نگری، از محمد سعید جاوید) ساہوالہ ریلوے اسٹیشن  انگریزوں نے جب ریل کی پٹری برصغیر میں بچھائی تو اس کے بنیادی مقاصد میں یہاں کے چھوٹے چھوٹے قصبوں کو آپس میں جوڑنا بھی تھا۔ اس وقت بھاپ سے چلنے والا انجن ریل کی ان بوگیوں کو کھینچتا تھا۔ ریل کی رفتار بھی سست ہوتی تھی اور تقریباً ہر جگہ پر بھاپ سے چلنے والی ریل رکتی ہوئی جاتی تھی مگر جوں جوں آبادی بڑھتی گئی، ریل ترقی کرتی گئی بھاپ سے چلنے والے انجن کی جگہ ڈیزل انجن نے لے لی تو بہت سے ریلوے اسٹیشنوں کو ختم کردیے گئے جس کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ وہ کسی بڑے ریلوے اسٹیشن کے بہت ہی قریب تھے۔ سیال کوٹ ہی حدود سے جوں ہی ریل باہر نکلتی ہے تو زیادہ سے زیادہ دس منٹ کے بعد ہی ایک چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن ساہوالہ ہے جو جسے اب ترک کردیا گیا ہے۔ ساہوالہ ریلوے اسٹیشن دیکھ کر مجھے ہمیشہ اٹک خورد ریلوے اسٹیشن یاد آتا ہے۔ جیسے اٹک خورد ریلوے دریائے سندھ کے بالکل کنارے پر ہے، بالکل ایسے ہی دریائے چناب سے نکالی گئی ایک نہر ساہوالہ سے گزرتی ہے جس کے بالکل ساتھ تو نہیں مگر چند قدم آگے ہی ساہوالہ ریلوے اسٹیشن ہے۔ عمارت اب بھی ہے مگر ترک شدہ ہے۔ وجہ یہی ہے کہ یہ قصبہ اب شہر کے بالکل قریب ہی ہے۔ مجھ جیسے پرانی عمارات اور ریل سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ ترک شدہ ریلوے اسٹیشن کسی خوب صورت سیاحتی مقام سے کم نہیں۔ اگوکی ریلوے اسٹیشن آپ ساہوالہ ریلوے اسٹیشن سے ذرا آگے بڑھیں تو آپ کو اگوکی ریلوے اسٹیشن ملے گا۔ یہ ریلوے اسٹیشن نہ صرف آباد ہے بلکہ سیالکوٹ سے وزیرآباد جانے والی شاہین پیسنجر ٹرین کا یہاں اسٹاپ بھی ہے۔ نئی چلنے والی لاہور تا وزیرآباد براستہ ناروال سیالکوٹ ٹرین کا ذکر چھڑا تو اطہر نظامی صاحب بتانے لگے کہ ایک وقت تھا جب لاہور سے ایک ٹرین سیالکوٹ تک چلتی تھی جس کا نام شاہ سوار ایکسپریس تھا، جو صبح پانچ بجے لاہور سے اور دوپہر دو بجے کے لگ بھگ سیالکوٹ سے واپس روانہ ہوتی تھی، جب کہ سیالکوٹ ایکسپریس ہمیشہ راولپنڈی کے لیے چلتی رہی ہے، کبھی سیالکوٹ سے کبھی نارووال سے، اور بند ہونے سے قبل لاہور سے رات دو بجے نکلتی تھی اور سیالکوٹ سے پنڈی کے لیے صبح چھے بجے۔ راولپنڈی سے تین بجے کے قریب واپس نکلتی رات آٹھ بجے لاہور کے لیے روانہ ہوتی تھی۔ یہ دونوں ٹرینیں اپنے ٹائم ٹیبل اور روٹ کے اعتبار سے بہترین تھیں جن سے ٹرانسپورٹرز کافی خائف تھے۔ یہ دونوں ٹرینیں آج بھی کام یابی سے چلائی جاسکتی ہیں۔ آخری دفعہ ٹرینیں بند ہونے کے وقت سیالکوٹ سے لاہور پانچ ریل گاڑیاں چلتی تھیں، چار براستہ نارووال علامہ اقبال (کراچی تا سیالکوٹ) لاثانی (لاہور تا سیالکوٹ) شاہسوار (لاہور تا سیالکوٹ) سیالکوٹ ایکسپریس ریل کار (رولپنڈی تا لاہور براستہ وزیرآباد سیالکوٹ نارووال) باؤ ٹرین (لاہور تا سیالکوٹ براستہ وزیرآباد گوجرانوالہ) ٹکٹ سبز اور گلابی دو رنگوں کا ہوتا تھا۔ سبز سیکنڈ کلاس مثلاً سمہ سٹہ شاہ سوار یا پسنجر ٹرین کی ہوتی تھی اور گلابی اکانومی کلاس ٹرین مثلا لاثانی علامہ اقبال اور ریل کار کی، لیکن صرف ریل کار کے لیے الگ ٹکٹ رکھا گیا، جس پر اس کا نام ۱۷۱یا ۲۷۱ اس لیے درج کی گیا کیوںکہ یہ ٹرین پُرزور مطالبے پر مشروط طور پر چلائی گئی تھی کہ اگر اس کی کمائی مناسب ہوئی تو یہ چلتی رہے گی۔ اس لیے اس کے الگ ٹکٹ سیل کیے جاتے تھے، تاکہ اس ٹرین کی ارننگ کا حساب لگایا جاسکے۔ آخری دفعہ بند ہونے سے پہلے سیال کوٹ ایکسپریس لاہور سے چلتی تھی۔ بہترین اوقات تھے، رات دو اڑھائی بجے لاہور سے نکلتی۔ اسے آپ ناروال کے لیے رات کی آخری ٹرین کہہ سکتے ہیں۔ آنکھوں دیکھی بتا رہا ہوں یہ لاہور سے تقریبا فل ہو کر نکلتی تھی۔ ویک اینڈ پر کھڑا ہونے کو جگہ نہیں ملتی تھی۔ نارووال پہنچتے کافی حد تک ٹرین خالی ہوجاتی لیکن نارووال سے آگے ایک دفعہ پھر رش بڑھنے لگتا۔ حتٰی کہ قلعہ سوبھا سنگھ، پسرور اور چونڈہ تک ٹرین دوبارہ فل ہو کر سیالکوٹ پہنچتی۔ اس سے آگے راولپنڈی کی طرف ٹرین کی سواری مناسب تھی۔ اسی طرح راولپنڈی سے واپسی پر سیالکوٹ تک مناسب سواری ہوتی تھی۔ رات آٹھ بجے یہ سیالکوٹ سے نکلتی تو کافی رش ہوتا جو چونڈہ، پسرور اور قلعہ سوبھا سنگھ کا ہوتا لیکن تب لوگوں کو رات کے وقت لاہور جانے کے لیے پہلی دفعہ ٹرین ملی تو سیالکوٹ سے آگے ہر اسٹیشن سے سواری ملنے لگی لاہور یہ ٹرین فل ہوکر پہنچتی تھی۔ ریلوے کے بالائی درجوں میں سیٹ اور برتھ کی پیشگی بکنگ، نیز ٹرین میں ڈائننگ کار اور ریلوے اسٹیشن پر طعام گاہ مغربی طرز اور مشرقی طرز کی اعلٰی سطح کی سہولیات، آزادی سے پہلے بھی میسر تھیں۔ اسی طرح فرسٹ، سیکنڈ اور انٹر کلاس کے لیے آرام دہ ویٹنگ روم اور تھرڈ کلاس کے لیے مسافرخانہ درجہ سوم، میری دانست میں، 1960ء کی دہائی کے اواخر تک موجود رہے۔ اقبال کھوکھر صاحب جو کہ 1970 میں گنہ کلاں ریلوے اسٹیشن پر بطور نائب اسٹیشن ماسٹر سروس کرتے تھے، بتانے لگے کہ جب شاہین ایکسپریس سیالکوٹ تا کراچی براستہ وزیرآباد فیصل آباد، شورکوٹ چلتی تھی تو اس کا درجہ سوم کا کرایہ 33 روپے ہوتا تھا۔ شاہد ملک صاحب اپنی پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتانے لگے کہ موجودہ علامہ اقبال ایکسپریس سابقہ شاہین ایکسپریس ٹرین جوکہ سیالکوٹ سے کراچی کے لیے چلتی ہے۔ پہلے اس میں اے سی ڈبا نہیں ہوتا تھا۔ یہ ٹرین روم ایکسپریس کی مانند سب سے سست رفتار ٹرین ہے۔ سفر میں یا کسی اور جگہ ناول وغیرہ پڑھنے کا دور اب ہر جگہ ختم ہوچکا ہے۔  ٹرین کے سفر میں زیادہ تر مسافر گھر کا پکا ہوا کھانا لے کے سفر کرتے ہیں کیوںکہ انہیں علم ہے کہ ٹرینوں میں ملنے کھانا غیرمعیاری اور مہنگا ہوتا ہے۔ جیسا کہ روہڑی اسٹیشن پر ملنے والے نان دنیا میں سب سے پتلی نان ہوتی ہے اور وہاں ملنے والی آلو کی ٹکیاں زیادہ تر باسی ہوتی ہیں۔ سمبڑیال ریلوے اسٹیشن کی خاص بات یہ تھی کہ گاڑی رکتے ہی بہت سے لوگ تھال میں کھویا رکھ کر آجاتے اور اخباری کاغذ پر رکھ کر فروخت کرتے۔ بچوں کو بڑا انتظار ہوتا تھا کہ کب سمبڑیال آئے گا اور ہ کھویا لے کر کھائیں گئے۔ چوہدری سکندر وڑائچ صاحب نے اپنی یادوں کی پٹاری کھولی تو اندر سے بہت کچھ نکلا۔ بتانے لگے پرانے دور میں ٹرین کے ساتھ رومانس وابستہ تھا۔ ٹرین پر بنے ہوئے ماہیے اور دوہڑے تھے۔ ٹرین کا سفر آرام دہ اور قلیل وقتی time saving  تھا۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو گجرات سے پنڈی جانا ہے اور اس کو ٹرین کے ٹائم کا علم ہے تو وہ ٹرین سے جانا پسند کرتا تھا، کیوںکہ ٹرین گجرات سے پنڈی اڑھائی گھنٹے میں پہنچاتی تھی جب کہ بس کے ذریعے گجرات سے پنڈی 4 گھنٹے سے زیادہ لگتے تھے، بلکہ اگر آپ دھوکا کھا کر کسی لوکل بس میں بیٹھ گئے تو آپ کو 5 گھنٹے بھی لگ سکتے تھے اور بس کا کرایہ بھی زیادہ ہوتا تھا، یعنی تقریباً دگنا۔ پھر بس کی ڈھیکچوں ڈھیکچوں آوازیں بے سری اور بے تال ہوتی تھیں جب کہ ٹرین کا سفر بس کی نسبت سستا، آرام دہ اور پرسکون ہوتا تھا، لیکن اب اس لوہار ٹبر کو کیا کہیں کہ انہوں نے ٹرین کے پٹڑیاں پگھلا کر ان کے پیٹر انجن بنا دیے، ٹرینوں کا کوئی فکسڈ نظام ہی نہیں رہا اور یوں اب بسوں پر دھکے کھانے کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں رہ گیا۔ ٹرین تو ٹرین ایک نہایت ہی شریفانہ سواری جی۔ٹی۔ایس کی ہوتی تھی۔ اگر عام پرائیویٹ بس گجرات سے لاہور 3 گھنٹے میں پہنچاتی تھی تو یہ جی۔ٹی۔ایس سوا دو گھنٹے میں پہنچا دیتی تھی۔ میں جو وزیرآباد تا نارووال برانچ لائن پر لکھنے بیٹھا تو سات سمندر پار سے یاور عباس صاحب رابطہ کر کے اپنے چالیس سال پہلے کے کراچی تا سمبڑیال سفر کے بارے میں بتانے لگے۔ اس وقت سیال کوٹ سے کراچی بذریعہ وزیرآباد جانے والی ٹرین کا نام شاہین ایکسپریس تھا جو کہ آج کل علامہ اقبال ایکسپریس ہے اور اب یہ وزیرآباد کی بجائے نارووال کے راستے پہلے لاہور اور پھر کراچی کی طرف روانہ ہوتی ہے۔ یاور عباس صاحب نے بتایا کہ چالیس سال پہلے شاہین ایکسپریس کا سفر کراچی کے لیے کافی منفرد اور دل چسپ ہوتا تھا۔ اس وقت شاہین ایکسپریس ٹرین کا سفر نسبتاً سستا سادہ اور ایڈونچر سے بھرپور ہوتا تھا۔ مسافروں کو زیادہ سیکیوریٹی مسائل کا سامنا نہیں ہوتا تھا اور لوگ آرام سے ٹرین کے ذریعے لمبے سفر کرتے تھے۔ 1978 میں شاہین ایکسپریس کا سمبڑیال سے کراچی تک 24 سے 28 گھنٹوں میں مکمل ہوتا تھا، جس میں 10 سے 15 بوگیاں ہوتی تھیں، جن میں بچے عورتیں اور بوڑھے مرد سبھی شامل ہوتے تھے اور ٹکٹ کی قیمت بھی نسبتاً کم تھی۔ یہ دور سفر کے لحاظ سے آسان اور کم مہنگا تھا اور ہم سمبڑیال کی سیر کے لیے پرجوش ہوتے تھے۔ اس وقت کے سفر میں خوف یا پابندیاں کم تھیں اور ہم ایڈونچر کے جذبے کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ اس کے برعکس آج کل کے سفر میں سیکیوریٹی اور دیگر پابندیاں زیادہ ہیں، جو اس وقت نہیں ہوتیں تھیں۔ شاہین ایکسپریس کے چالیس سال پہلے کے سفر میں ہمارے یعنی مسافروں کے لیے کسی باقاعدہ یا جدید تفریحی کھیلوں کا خاص انتظام نہیں ہوتا تھا۔ اس دور میں سفر کے دوران عام طور پر مسافر آپس میں گپ شپ، کہانیاں پڑھنے اور سنانے، گانے گانے یا روایتی کھیل جیسے لڈو تاش یا شطرنج وغیرہ کھیل کر وقت گزارتے تھے۔ چوںکہ اس وقت الیکٹرانک یا ڈیجیٹل تفریحی سہولیات دست یاب نہیں تھیں۔ اس لیے مسافر اپنی تفریح کے لیے زیادہ تر روایتی اور سادہ سرگرمیوں پر انحصار کرتے تھا۔ اس کے علاوہ لمبے سفر میں راستے کے مناظر دیکھنا اور مختلف شہروں گاؤں قصبوں کی ثقافت کو قریب سے دیکھنا بھی ایک طرح کی تفریح شمار ہوتی تھی۔ شاہین ایکسپریس کے چالیس سال پہلے کے سفر میں مسافروں کی تفریح زیادہ تر روایتی کھیل بات چیت اور راستے کے مناظر سے لطف اندوز ہونے تک محدود تھی۔ 1970 اور 1980 کی دہائی میں شاہین ایکسپریس کے سفر میں سہولیات محدود اور بنیادی نوعیت کی تھیں۔ اس وقت ٹرین میں جدید آرام دہ سہولیات جیسے اے سی ذاتی نشستیں یا تفریحی انتظامات نہیں ہوتے تھے۔ سفر زیادہ تر سادہ اور روایتی انداز میں ہوتا تھا۔ جہاں مسافروں کو بنیادی نشستیں کھڑکیاں اور کبھی کبھار کھانے پینے کی سہولت میسر ہوتی تھی، مگر کوئی خاص لگژری یا اضافی سہولت دست یاب نہیں تھی۔ اس دور میں سفر کا مقصد زیادہ تر منزل تک پہنچنا ہوتا تھا نہ کہ آرام یا تفریح اس لیے سہولیات میں بنیادی ضرورتیں پوری کی جاتی تھیں، لیکن آج کی طرح جدید سہولیات کا فقدان تھا۔ سمبڑیال سے آگے ریل تو وزیرآباد کو چلی جاتی ہے مگر ایک سڑک ڈسکہ کو مڑتی ہے، جس کے راستے میں انتہائی اہم تاریخی قصبہ بھوپال والا ہے، جہاں دو چیزیں بہت اہم ہیں۔ ایک اینگلو سنسکرت ہائی اسکول اور دوسری سید میر محمد ظریف کی درگاہ۔ دونوں جگہوں پر تحقیق گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے سلمان قمر صاحب کی ہے۔ اینگلو سنسکرت ہائی اسکول بھوپال والا سیالکوٹ کی تعلیمی تاریخ کا ایک درخشاں باب ضلع سیالکوٹ کے نواحی قصبے بھوپال والا میں واقع اینگلو سنسکرت ہائی اسکول کا شمار سیالکوٹ کے ابتدائی تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ اس ادارے کی بنیاد 8 دسمبر 1915 کو اس وقت کے لاہور ڈویژن کے انسپکٹر آف اسکولز، جناب مائیکل کراس ایم اے نے رکھی۔ اسکول کے سنگِ بنیاد پر نہ صرف عیسوی کیلنڈر (دسمبر 1915) بلکہ ہندو کیلنڈر (سموت 1972) کی تاریخ بھی درج ہے جو اس عہد کی مذہبی اور ثقافتی ڈائیورسٹی کا ثبوت ہے۔ یہ ادارہ اپنی طرزِتعمیر کے اعتبار سے برطانوی دور کے تعلیمی ڈھانچے کی بہترین مثال پیش کرتا ہے۔ بلندوبالا ہوادار کمرے، کشادہ برآمدے، روشن کلاس رومز، سرسبز لان اور وسیع میدان اُس دور کے تعلیمی ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔ مرکزی عمارت کے ساتھ ایک بورڈنگ ہاسٹل، آریہ سماج مندر اور پرنسپل کی رہائش گاہ (جسے مقامی طور پر ’’کوٹھی‘‘ کہا جاتا ہے) بھی موجود ہے جو مذہبی ہم آہنگی اور ادارے کی سماجی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل یہ اسکول نہ صرف مقامی آبادی بلکہ اردگرد کے دیہات کے طلبہ کے لیے بھی علم کا مرکز تھا یہاں مختلف مذاہب، زبانوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے بچے تعلیم حاصل کرتے تھے جو اس وقت کی مشترکہ تہذیبی شناخت کا منظر پیش کرتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس ادارے نے کئی تبدیلیاں دیکھیں۔ ابتدا میں اس کا نام ’’اقبال سائنس اسکول‘‘ رکھا گیا، بعد ازآں ’’ڈسٹرکٹ بورڈ ہائی اسکول‘‘ کہلایا، اور بالآخر 1972 میں جب ادارے نیشنلائز کیے گئے تو اسے ’’گورنمنٹ ہائی اسکول بھوپال والا‘‘ کا نام دیا گیا۔ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ ادارہ آج بھی علم و آگہی کا مرکز ہے۔ درگاہ سید میر محمد ظریف سید میر محمد ظریف کی درگاہ بھوپال والا تحصیل سمبڑیال ضلع سیالکوٹ میں واقع ہے۔ یہ مغلیہ دور کی ایک اہم درگاہ ہے جو اس علاقے کی صوفیانہ تاریخ کو ظاہر کرتی ہے۔ سید میر محمد ظریف سترہویں صدی کے آخر میں جب اورنگزیب عالمگیر کا دورحکومت تھا، بھوپال والا تشریف لائے۔ آپ قطب زمان جہانیاں کے روحانی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے اور اپنی عبادت زہد اور روحانی راہ نمائی کی وجہ سے مشہور تھے۔ آپ کے مزار پر مغلیہ طرزتعمیر کے اثرات نمایاں ہیں جن میں مغلیہ اینٹوں کا استعمال، محرابی طاقچے اور فریسکو کا کام شامل ہے۔ یہ آج بھی بھوپال والا کی ایک زیارت گاہ ہے جہاں لوگ دعائیں مانگنے اور نذریں دینے آتے ہیں۔ حال ہی میں محکمۂ آثارقدیمہ نے اس مزار کو تاریخی ورثہ قرار دے کر پروٹیکٹڈ مونومنٹ کی لسٹ میں شامل کرلیا ہے۔ اگرچہ اس درگاہ کی تفصیلی تاریخ اورل ہسٹری سے کچھ معلومات ضرور ملی ہیں مگر لکھی ہوئی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے آپ کے حالات زندگی کے متعلق معلومات میں خلا موجود ہے۔ یہ درگاہ اس علاقے میں صوفی ازم کی لازوال روایت کا ثبوت اور عقیدت کا اہم مرکز ہے۔ بیگووالا گھڑتل ریلوے اسٹیشن، مزاحمت، تاریخ اور زوال کی داستان بیگووالا گھڑتل ریلوے اسٹیشن ایک تاریخی ریلوے اسٹیشن ہے، جو وزیرآباد–سیالکوٹ–جموں ریلوے لائن پر بنایا گیا۔ یہ اسٹیشن بیگووالا سے تقریباً 4 کلومیٹر گھڑتل سے 8 کلومیٹر اور سمبڑیال سے 6 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس اسٹیشن کی بنیاد برطانوی دور حکومت میں 1890 کی دہائی میں رکھی گئی گو کہ یہ اسٹیشن بیگووالا قصبے کے قریب واقع ہے لیکن گھڑتل کے مشہور ہندو دیوان خاندان کے اثرورسوخ کی وجہ سے اسے بیگووالا گھڑتل ریلوے سٹیشن نام دیا گیا۔  اسٹیشن نے مزاحمت کے مناظر بھی دیکھے جب 1919 کے جلیانوالا باغ قتل عام کے بعد پورے پنجاب میں انگریزوں کے خلاف احتجاج شروع ہوئے تو بیگووالا گھڑتل کی عوام نے بھی اس مزاحمت میں بھرپور حصہ لیا۔ مظاہرین نے سیالکوٹ وزیرآباد ریلوے لائن کے درمیان 24 مختلف مقامات پر ٹیلی گراف تار کاٹ دیے، جن میں سے دو مقامات بیگووالا گھڑتل ریلوے اسٹیشن پر واقع تھے۔ مظاہرین نے ریلوے لائن کی دو جوڑیاں بھی کھول دیں جس سے ٹرینوں کی آمدورفت خطرے میں پڑگئی پلیٹ فارم پر کھڑی ایک بوگی کو آگ لگانے کی کوشش بھی کی گئی۔ یہ تمام اقدامات انگریز حکومت کے خلاف عوامی غصے کا اظہار تھے جو جلیانوالا باغ قتل عام کے نتیجے میں پیش آئے۔ ان مظاہروں کے بعد اسٹیشن کی حالت کچھ ماہ بہت خراب رہی۔ حالات معمول پر آنے کے بعد اس اسٹیشن کو دوبارہ بحال کردیا گیا۔ تقسیم کے بعد سیالکوٹ جموں ریلوے لائن منقطع ہوگئی لیکن پھر بھی ٹرینیں وزیرآباد سیالکوٹ اور نارووال کے درمیان چلتی رہیں اور یہ اسٹیشن آباد رہا۔ وقت کے ساتھ جب محکمۂ ریلوے زبوں حالی کا شکار ہوا تو یہ ریلوے اسٹیشن بھی غیرفعال ہونا شروع ہوگیا مقامی لوگوں کے مطابق بیگووالا گھڑتل ریلوے اسٹیشن کو تقریباً 15 سال پہلے باقاعدہ طور پر بند کردیا گیا۔ آج یہ اسٹیشن کھنڈر کی صورت اختیار کرچکا ہے، جہاں صرف ایک ٹرین علامہ اقبال ایکسپریس گزرتی ہے لیکن کوئی بھی ٹرین اب اس اسٹیشن پر نہیں رکتی۔ اس کی موجودہ حالت ابتر ہوچکی ہے۔ تین ریلوے پٹڑیوں میں سے دو بری طرح ٹوٹ چکی ہیں جب کہ ایک بہ مشکل قابل استعمال ہے۔ اسٹیشن کا پلیٹ فارم ختم ہونے کے قریب ہے اسٹیشن کے نام کی تختیاں بھی نہیں رہیں۔ پرانے ٹیلی گراف کے کھمبے اور تاریں صرف ماضی کی یاد دلاتے ہیں۔ ریلوے ملازمین کی رہائشی بیرکس خستہ حالی کا شکار ہیں۔ اسٹیشن پر لگے ٹرینوں کے نام اوقات اور کرائے کی تفصیل اور اس اسٹیشن کے ماضی کی داستان جالوں سے اٹا ٹکٹ گھر اور اس کی ٹوٹی جالی، اسٹیشن ماسٹر کا کنٹرول روم اور اس کے دروازے پر لگا زنگ آلود تالا سناتے ہیں۔ الغرض بیگووالا گھڑتل ریلوے اسٹیشن اب ایک غیرفعال اور متروک اسٹیشن بن چکا ہے لیکن اب بھی یہ علاقے کی تاریخ، برطانوی راج، مقامی مزاحمت، اور ایک اہم ریلوے اسٹیشن کی زبوں خالی کی علامت کے طور پر قائم ہے۔ سودہرہ کوپرہ ریلوے اسٹیشن  اگر آپ سیال کوٹ کی جانب سے وزیرآباد کی طرف سفر کریں تو وزیرآباد سے پہلے دو قصبے آئیں گے۔ ایک سودہرہ اور دوسرا کوپرہ کلاں۔ دونوں الگ الگ قصبے تھے مگر چوں کہ دونوں قریب قریب اور چھوٹے قصبے تھے، اسی لیے انگریز بہادر نے دونوں کے لیے ایک ہی ریلوے اسٹیشن بنایا جسے سودہرہ کوپرہ ریلوے اسٹیشن کا نام دیا گیا۔ مرکزی سڑک سے یہ ریلوے اسٹیشن کافی ہٹ کر ہے۔ اگر آپ سیال کوٹ کی طرف سے آئیں تو کوٹ مارتھ کا ایک نیلا بورڈ آپ کو نظر آئے گا۔ اس بورڈ کے ساتھ مڑیں تو ذیلی سڑک آپ کو سیدھا سودہرہ کوپرہ ریلوے اسٹیشن لے جائے گی۔ آبادی سے ہٹ کر ایک پّرسکون ریلوے اسٹیشن۔ یہاں کے اسٹیشن ماسٹر سے ملاقات ہوئی تو وہ انگریز دور کے سگنل سسٹم کے بارے میں بتانے لگے کہ جب ایک ٹرین کسی بھی ریلوے اسٹیشن سے گزر جاتی ہے تو فوری طور پر پیچھے والے ریلوے اسٹیشن پر اطلاع دی جاتی ہے۔ جب تک پیچھے کے ریلوے اسٹیشن پر اطلاع نہ دی جائے، کبھی بھی گاڑی پچھلے ریلوے اسٹیشن سے روانہ نہیں کی جاتی۔ مثال کے طور ایک ریل گاڑی پاکستان ایکسپریس جو وزیرآباد سے روانہ ہوئی اور اگلا اسٹاپ گجرات ریلوے اسٹیشن ہے، جب پاکستان ایکسپریس وزیر آباد ریلوے اسٹیشن چھوڑ چکی تو اس کے دس منٹ بعد ہی رحمان بابا ایکسپریس وزیرآباد پہنچ گئی۔ اب رحمان بابا ایکسپریس کو بھی گجرات ہی جانا ہے اور پاکستان ایکسپریس کو نکلے بھی دس منٹ ہوچکے ہیں۔ رحمان بابا ایکسپریس کو گجرات کے لیے اس وقت تک روانہ نہیں کیا جائے گا جب تک گجرات کا اسٹیشن ماسٹر وزیرآباد ریلوے اسٹیشن پر یہ اطلاع نہ دے دے کہ پاکستان ایکسپریس گجرات پہنچ چکی ہے۔ پاکستان ایکسپریس کے گجرات پہنچ جانے پر ہی رحمان بابا ایکسپریس کو وزیرآباد ریلوے اسٹیشن سے روانہ کیا جائے گا۔ سودہرہ کوپرہ ریلوے اسٹیشن کے اسٹیشن ماسٹر اس سگنل سسٹم کے بارے میں بتا رہے تو مجھے فوری طور پر مشرف دور میں ہونے والا وہ ایکسیڈنٹ یاد آ گیا جو گھوٹکی ریلوے اسٹیشن پر 14 جولائی 2005 کو صبح تقریباً چار بجے ہوا تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ کوئٹہ ایکسپریس جو لاہور سے بلوچستان کے شہر کوئٹہ کی طرف جا رہی تھی کچھ تیکنیکی مسائل کی وجہ سے گھوٹکی کے قریب خراب ہوگئی۔ ڈرائیور کی طرف سے قریبی اسٹیشن پر اطلاع دی گئی۔ ٹرین کو گھوٹکی ریلوے اسٹیشن پر روک دیا گیا، سگنل کو لال کردیا گیا اور ریلوے کا مطلوبہ عملہ انجن کی مرمت میں مصروف ہوگیا۔ لاہور سے کراچی جانے والی کراچی ایکسپریس کو اصولی طور پر پیچھے رک جانا چاہیے تھا مگر انجن ڈرائیور چوں کہ روز اسی روٹ پر سفر کرتا تھا، اسی خیال میں اس نے لال سگنل کو نظرانداز کیا کہ اسٹیشن ماسٹر شاید سگنل ڈاؤن کرنا بھول گیا ہے۔ یاد رہے کہ کراچی ایکسپریس گھوٹکی ریلوے اسٹیشن پر نہیں رکتی تھی۔ اس لیے کراچی ایکسپریس کے ڈرائیور نے یہی سوچا کہ روز کی طرح یہاں پر رکے بنا گزرنا ہے۔ کچھ ہی دیر کے بعد کراچی ایکسپریس، کوئٹہ ایکسپریس کے سر پر تھی مگر اب بہت دیر ہوچکی تھی۔ کوئٹہ ایکسپریس کو کراچی ایکسپریس نے پیچھے سے ٹکر ماری جس کے نتیجے میں کراچی ایکسپریس کی تین بوگیاں ساتھ والے اَپ ٹریک پر گر پڑیں۔ قسمت بری تھی کہ عین ان ہی لمحات میں تیزگام جو کراچی سے راول پنڈی جا رہی تھی، پہنچ گئی اور ٹریک پر پڑی ان تین بوگیاں سے ٹکرا گئی۔ تیز گام کا بھی یہاں اسٹاپ نہیں تھا، اس لیے اس کی رفتار بھی زیادہ تھی۔ اس حادثے کو پاکستان ریلوے کی تاریخ کا بدترین حادثہ قرار دیا گیا جس میں سرکاری اعلان کے مطابق تقریباً 133 افراد جان سے گئے مگر غیرسرکاری ذرائع کے مطابق جان بحق ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ ریلوے کا نظام ان ہی سگنلز پر کھڑا ہے۔ اگر بروقت ان کا درست استعمال نہ کیا جائے یا ڈرائیور کی جانب سے سگنل کو نظرانداز کیا جائے تو یہ بہت بڑے حادثات کا باعث بنتا ہے جیسا کہ جولائی 2005 میں ہوا۔ ریل جب سودہرہ کوپرہ سے وزیرآباد کو جاتی ہے تو راستے میں ایک ویران کمرے کی عمارت ہے، جسے دیکھ کر اب گمان بھی نہیں ہوتا کہ کبھی یہ چھوٹی سی عمارت گھکا متر ریلوے اسٹیشن تھی۔ گھکا متر پہلے ایک قصبہ تھا مگر اب وزیرآباد شہر پھیلتا ہوا گھکا متر تک پہنچ چکا ہے۔ اس لیے اب نہ صرف یہ کہ گھکا متر کا ریلوے اسٹیشن ترک شدہ ہے بلکہ عمارت ہی تقریباً ڈھے چکی ہے۔ بورڈ تک اکھاڑ دیا گیا ہے۔ کم از کم یہ بورڈ تو لگا رہنے دیا جانا چاہیے تھا تاکہ تاریخ کے طلباء کے لیے ایک نشانی تو رہتی کہ یہاں کبھی گھکا متر ایک لگ ریلوے اسٹیشن تھا۔ اب ریل چپ چاپ گھکا متر ریلوے اسٹیشن سے نظریں چُراتی ہوئی وزیرآباد جنکشن کو چلی جاتی ہے۔ وزیرآباد ریلوے اسٹیشن کی تاریخ اس قدر وسیع ہے کہ اس کے لیے باقاعدہ ایک الگ مضمون درکار ہے۔ یہ مضمون تو ویسے ہی بہت طویل ہوچکا۔ اس لیے وزیرآباد ریلوے اسٹیشن کو پھر کبھی تاریخ کے حوالوں کے ساتھ زیرِبحث لائیں گے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل