Sunday, September 07, 2025
 

سروائیکل کینسر کی علامات اور علاج کیا ہے؟

 



 پاکستان میں سروائیکل کینسر خواتین کی صحت کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے۔ چھاتی اور بیضہ دانی (اووری) کے کینسر (سرطان) کے بعد خواتین میں سروائیکل کینسر (رحم کے نچلے حصے کا سرطان) سب سے عام ہے۔ یہ خواتین میں تیسرا سب سے عام کینسر ہے جب کہ 15 سے 44 سال کی خواتین میں دوسرا سب سے زیادہ پایا جانے والا کینسر ہے۔ ہر سال اوسطاً 5008 خواتین میں سروائیکل کینسر کی تشخیص ہوتی ہے جن میں سے 3197 خواتین اس مرض کی وجہ سے انتقال کرجاتی ہیں۔ سروائیکل کینسر کیا ہے اور کس وجہ سے لاحق ہوتا ہے، کیا اس کا علاج ممکن ہے، خواتین اس سے کیسے محفوظ رہ سکتی ہیں؟ اس حوالے سے معروف گائناکولوجسٹ اور عباسی شہید اسپتال میں شعبہ گائناکولوجی کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر شبنم شمیم عاصم سے کی گئی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔  سروائیکل کینسر کیا ہوتا ہے اور یہ کس عمر کی خواتین کو متاثر کرتا ہے؟  پروفیسر ڈاکٹر شبنم شمیم عاصم نے بتایا کہ خواتین میں بچہ دانی یا رحم کا نچلا یا بیرونی حصہ سرویکس کہلاتا ہے۔ شادی شدہ خواتین میں جنسی عمل کے دوران یہ حصہ شوہر کے مادہ منویہ کے ساتھ ربط میں آتا ہے۔ بچہ دانی کے اسی حصے میں ہونے والے کینسر کو سروائیکل کینسر کہتے ہیں۔ کینسر کی یہ قسم اس عمر میں بچیوں اور خواتین کو متاثر کرسکتی ہے جب وہ بلوغت کو پہنچتی ہیں، مگر جنسی طور پر فعال ہونے اور ماں بننے کے قابل ہونے پر یہ کینسر زیادہ عام ہوتا ہے۔  سر وائیکل کینسر بہ تدریج پھیلتا ہے اور اس کے مختلف مراحل (اسٹیج) ہوتے ہیں جیسے پری کینسر (قبل از سرطان)، پھر سی آئی این ون، سی آئی این ٹو وغیرہ۔ یہ کینسر بہت ہی غیرمحسوس طور پر بڑھتا چلا جاتا ہے اور عام طور پر جب اس کی تشخیص ہوتی ہے تو اس وقت تک تاخیر ہوچکی ہوتی ہے اور یہ پورے جسم میں پھیل چکا ہوتا ہے۔ یوں مریضہ کی زندگی اور صحت یابی کے لیے اس مرض کی ابتدائی مراحل میں تشخیص ناگزیر ہے۔  خواتین کن وجوہات کی بنا پر سروائیکل کینسر کا شکار ہوتی ہیں؟  یہ مرض ایک وائرس کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے، جسے ہیومن پیپیلوما وائرس (ایچ پی وی) کہا جاتا ہے۔ اس وائرس کی بھی کچھ اقسام (Strains) ہوتی ہیں جو اس کینسر کا سبب بنتی ہیں۔  ایچ پی وی وائرس کی انسانی جسم میں منتقلی کی دو تین اہم وجوہات ہیں۔ ان میں سب سے اہم مختلف افراد کے ساتھ جنسی تعلقات کا ہونا ہے۔ سروائیکل کینسر سے متاثر ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ صرف عورت کے ایک سے زائد افراد کے ساتھ جنسی تعلقات ہوں، اگر اس کی شادی کسی ایسے شخص کے ساتھ ہوئی ہو جس کے دوسری خواتین کے ساتھ بھی جنسی تعلقات ہوں اور اگر ان میں سے کوئی خاتون ایچ پی وی سے متاثرہ ہو تو پھر وہ وائرس شوہر کے ذریعے بیوی میں منتقل ہوسکتا ہے۔  اس کے علاوہ کم عمری کی شادی یعنی کم عمری میں جنسی تعلقات بھی لڑکیوں میں سروائیکل کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔ پھر جن لڑکیوں اور خواتین کا جسمانی مدافعتی نظام کم زور ہوتا ہے وہ دیگر امراض کی طرح سروائیکل کینسر کا بھی شکار ہوسکتی ہیں۔  سروائیکل کینسر کی علامات کیا ہوتی ہیں؟  خواتین میں اس کی پہلی علامت ماہواری کے مسائل ہوتے ہیں۔ قدرتی نظام کے تحت خواتین کو عمومی طور پر ایک ماہ کے بعد ماہواری آتی ہے مگر سروائیکل کینسر کا شکار خواتین میں اس قدرتی نظام میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے اور ایک ماہ مکمل ہونے سے قبل ہی، درمیانی ایام میں خون کا اخراج (بلیڈنگ) ہونے لگتا ہے، یا پھر شادی شدہ خواتین میں جنسی عمل کے دوران یا بعد بلیڈنگ ہوتی رہتی ہے۔ یہ خطرے کی علامت ہے، اور ایسی صورت میں فوری طور پر گائناکالوجسٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔ اگرچہ بلیڈنگ کی اور بھی جوہات ہوسکتی ہیں مگر یہ سروائیکل کینسر کی اولین علامات میں بھی شامل ہے۔   سروائیکل کینسر کی دیگر علامات میں ماہواری کے دوران بار بار خون کا رکنا اور جاری ہونا، ماہواری کے دوران بہت زیادہ مقدار میں خون کا آنا، اور ثانوی مراحل (ایڈوانسڈ اسٹیج) میں پیشاب بند ہونا، وزن میں کمی، پیٹ میں درد وغیرہ شامل ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی خاتون اس کینسر کا شکار ہو اور اس میں کوئی علامات ظاہر نہ ہوں؟  اگر کوئی خاتون جنسی طور پر فعال نہیں ہے تو یہ ممکن ہے کہ سروائیکل کینسر کا شکار ہونے کے باوجود ابتدائی مرحلے (اسٹیج) میں اس کی کوئی علامات ظاہر نہ ہوں، چناں چہ سروائیکل کی تشخیص کے لیے ایک ٹیسٹ کرایا جاتا ہے جسے ’پیپ ٹیسٹ‘ یا ’لیکوڈ بیسڈ سائیٹولوجی‘ کہتے ہیں۔ یہ دونوں ٹیسٹ خواتین میں سروائیکل کینسر کی تشخیص کے لیے تجویز کیے جاتے ہیں۔ انہیں اسکریننگ ٹیسٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اگر خواتین تین سال یا عمر کے لحاظ سے تجویز کردہ وقفے سے یہ ٹیسٹ کراتی رہیں تو اولین علامات ظاہر ہوتے ہی ان ٹیسٹ کے ذریعے ان میں سروائیکل کینسر کی تشخیص ہوجائے گی۔ اور ابتدائی مرحلے ہی میں تشخیص ہوجانے کے بعد اس کا علاج بآسانی اور بہتر طور پر ہوجائے گا۔  بعد کے مراحل (اسٹیج) میں پہنچنے کے بعد یہ مرض جسم کے دیگر حصوں تک پھیل جاتا ہے، حتیٰ کہ چوتھے مرحلے (اسٹیج فور) میں پھیپھڑوں اور دیگر اعضا میں جگہ بنا چکا ہوتا ہے۔    چناں چہ پہلے مرحلے (اسٹیج ون) کی کوئی خاص علامت نہیں ہوتی اسی لیے خواتین کو اسکریننگ ٹیسٹ یا ’لیکوڈ بیسڈ سائیٹولوجی‘ کرواتے رہنا چاہیے۔ پیپ ٹیسٹ میں اگر کسی خاتون میں سروائیکل کینسر کی نشان دہی ہوتی ہے تو پھر کچھ مخصوص ٹیسٹ بھی کرائے جاتے ہیں جیسے کہ ایم آر آئی پیلوس، سروائیکل بایوپسی وغیرہ، پھر ہم کولپواسکوپی کر کے دیکھتے ہیں کہ کینسر کس حد تک اور کہاں تک پھیلا ہوا ہے، یعنی مریض کی اسٹیج کا تعین کیا جاتا ہے کہ مرض کس اسٹیج پر ہے۔  کیا یہ اسکریننگ ٹیسٹ مہنگے ہوتے ہیں؟  جی نہیں، یہ ٹیسٹ بہت مہنگے نہیں ہوتے۔ پاکستان میں سرکاری اسپتالوں میں یہ ٹیسٹ بہت سستے ہوتے ہیں۔  کیا سروائیکل کینسر کا علاج ممکن ہے؟  سروائیکل کینسر کا علاج تو ممکن ہے کہ مگر یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کینسر کون سے اسٹیج پر ہے۔ ابتدائی مرحلے (اسٹیج) میں اس کا علاج (مینجمنٹ) الگ ہوتا ہے اور بعد کے مراحل میں الگ۔ سرجری سے بھی علاج ہوتا ہے۔ مریضہ اگر بہت تاخیر سے آتی ہیں، اسٹیج ٹو بی کے بعد آتی ہیں تو سرجری نہیں کی جاتی بلکہ شعاعوں سے علاج کیا جاتا ہے۔ اگر متاثرہ خواتین ابتدائی اسٹیج پر آتی ہیں تو ہم سرجری کردیتے ہیں اور اگر مرض کے بالکل آغاز پر آئیں تو اس کا علاج مختلف ہوتا ہے۔ تو علاج تو ہے مگر اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ مرض کس اسٹیج پر ہے۔ سروائیکل کینسر کا معاملہ بھی کینسر کی دیگر اقسام ہی کی طرح ہے کہ جتنا جلد ابتدائی اسٹیج میں علاج شروع ہوجاتا ہے تو صحت یابی اور یہ مرض دوبارہ نہ ہونے کے امکانات بہت قوی ہوتے ہیں۔  سروائیکل کینسر سے کیسے محفوظ رہا جاسکتا ہے؟   اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ شوہر اپنی شریک حیات تک محدود رہے، اخلاق باختہ عورتوں سے تعلقات کے نتیجے میں اس کی بیوی میں یہ مرض منتقل ہونے کا امکان رہے گا۔ دوسرا یہ کہ خواتین کے لیے ضروری ہے کہ اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ باقاعدگی سے ورزش کریں تاکہ جسم میں قوت مدافعت بہتر رہے۔ کھجور اور انڈے کا استعمال کریں۔ جسم میں قوت مدافعت قوی ہوگی تو انسانی جسم کئی عمومی بیماریوں کا ازخود مقابلہ کرکے ان سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے۔  کراچی میں اس مرض کا علاج کہاں ہوتا ہے؟  کراچی میں تمام بڑے سرکاری اسپتالوں میں سروائیکل کینسر کا علاج کیا جاتا ہے جن میں سول اسپتال، جناح اسپتال اور عباسی شہید اسپتال شامل ہیں۔ تاہم اہم ترین بات یہ ہے کہ ابتدائی اسٹیج پر مرض کا علاج کرایا جائے۔ ہمارے پاس ایسی خواتین بھی آتی ہیں جنہیں ماہواری کے مسائل تھے مگر وہ محلے کی ڈاکٹر سے علاج کراتی رہیں اور مرض بڑھتا چلا گیا۔ جب وہ ہمارے پاس پہنچتی ہیں تو کینسر کی تیسری یا چوتھی اسٹیج پر ہوتی ہیں اور اس وقت تک دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ خواتین کو کس وقت سروائیکل کینسر کی تشخیص کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے؟  اگر کسی بھی عورت کو ازدواجی تعلق قائم ہونے کے بعد بلیڈنگ ہوتی ہے یا مستقل گندے پانی کا اخراج ہوتا ہے، بدبو آتی رہتی ہے یا ماہواری کے درمیان لباس پر مستقبل دھبے لگتے رہتے ہیں یا ماہواری بہت زیادہ آتی ہے تو بلاتاخیر کسی ماہر گائناکالوجسٹ کے پاس جانا چاہیے اور اگر انہیں کسی ماہر گائنا کولوجسٹ کے بارے میں معلومات نہ ہوں تو سرکاری اسپتال میں آنا چاہیے کیوں کہ یہاں کوالیفائڈ ڈاکٹر اور گائناکولوجسٹ ہوتے ہیں۔  کیا سروائیکل کینسر سے بچاؤ ویکسین کے ذریعے ممکن ہے؟  جی بالکل ممکن ہے۔ سروائیکل کینسر سے بچاؤ کی ویکسین ایچ پی وی ویکسین کہلاتی ہے۔ یہ کم عمر اور غیرشادی شدہ بچیوں کو لگائی جاتی ہے اور اس ویکسین سے ایچ پی وی وائرس کی کئی اقسام سے بچاؤ ممکن ہوتا ہے۔ کیا ایچ پی وی ویکسین کے سائیڈ ایفیکٹ ہوتے ہیں؟  ہلکے پھلکے سائیڈ ایفیکٹ تو ہر ویکسین کے ہوتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو اور بھی کئی طرح کی ویکسین لگواتے ہیں۔ جیسے اور ویکسین ضروری ہیں اسی طرح ایچ پی وی کی ویکسین بھی ضروری ہے۔ ایچ پی وی ویکسین کا استعمال دنیا بھر میں ہورہا ہے۔  حکومت پاکستان رواں ماہ ایچ پی وی کی مہم کا آغاز کررہی ہے، اس حوالے سے آپ والدین کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟  میں یہ مہم شروع کرنے پر حکومت کو مبارک باد پیش کرتی ہوں، یہ بہت ہی اچھا اقدام ہے۔ اس سے لوگوں میں سروائیکل کینسر کے حوالے سے آگاہی پیدا ہوگی۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی بچیوں کو یہ ویکسین ضرور لگوائیں۔   تاہم یاد رہے کہ ویکسین لگنے کے باوجود باقاعدہ سروائیکل اسکریننگ (جیسے پیپ ٹیسٹ یا ایچ پی وی ٹیسٹ) لازمی ہے، کیوں کہ ویکسین ہر قسم کے ہائی رسک ایچ پی وی وائرس سے تحفظ فراہم نہیں کرتی۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل